قناعت پسندی عمدہ وصف

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


حضورِ اقدس ؐکا ارشاد ہے کہ ’’ مبارک ہے وہ شخص جس کو حق تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہو، اور صرف ضرورت کے بقدر اُس کی روزی ہو اور وہ اُس پر قناعت کرنے والا ہو۔‘‘ (بخاری ومسلم)

’’قناعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ’’جو مل جائے اُس پر راضی رہنا اور اسے ہی اپنی قسمت تصور کرنا ‘‘یہ ایک ایسا عمدہ اور نیک وصف ہے، جس کے ذریعے انسان انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی گزارہ کر کے اپنے پروردگار کا قرب حاصل کرکے خوش و خرم زندگی گزارسکتا ہے۔ آج ہماری زندگیوں میں خوشیاں کیوں نہیں ہیں؟ راحت و سکون کیوں اُٹھ چکا ہے؟ بے برکتی اور نحوستوں نے کیوں ڈیرے ڈال رکھے ہیں؟ اسی لئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی نہیں ہیں! ہم اپنے مقدر پر خوش نہیں ہیں!ہم اپنی قسمت سے نالاں ہیں! حالاں کہ اگر آج ہی ہم زُہد و قناعت اور صبر و شکر والی زندگی گزارنا شروع کر دیں تو یقین جانیے ہماری زندگیوں میں خوشیاں دوبارہ لوٹ آئیں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہونے لگ جائے اور ہمارے معاشی حالات بہتر سے بہتر ہونا شروع ہو جائیں۔ 

اسلام کی شان دار لہلہاتی تاریخ اس قسم کے بے شمار واقعات سے لبریز ہے جس میں مسلمانوں نے انتہائی کسمپرسی اور دگرگوں حالات کے باوجود بڑی خوش حال اور آسودہ زندگیاں گزاری ہیں۔ چناں چہ اصحابِ سیر نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ دوپہر کے وقت سخت دھوپ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ پریشان ہوکر گھر سے چلے ، مسجد میں پہنچے ہی تھے کہ حضرت عمر فاروق ؓ بھی اسی حالت میں تشریف لے آئے ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بیٹھا ہوا دیکھ کر دریافت کیا:’’ آپؓؓ  اس وقت یہاں کہاں ؟ ‘‘ فرمایا کہ : ’’بھوک کی بے تابی نے پریشان کیا ‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا ’’ واللہ ! اسی چیز نے مجھے بھی مجبور کیا کہ کہیں جاؤں ‘‘ یہ دونوں حضرات یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ سرکار ِ دوعالم نبی اکرم ﷺتشریف لے آئے ، آپؐ  نے دونوں اصحابؓ کو دیکھ کر دریافت فرمایا :’’تم اس وقت کہاں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا، یارسول ؐاللہ ! : بھوک نے پریشان کیا جس سے مضطرب ہوکر نکل پڑے ‘‘ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اسی مجبوری سے میں بھی آیا ہوں۔ ‘‘ تینوں حضرات اکٹھے ہوکر حضرت ابو ایوب انصاری ؓکے مکان پر پہنچے ، وہ تشریف نہیں رکھتے تھے، بیوی نے بڑی مسرت و افتخار سے ان حضرات کو بٹھایا ،حضور اقدس ﷺ نے دریافت فرمایا : ’’ابو ایوبؓ کہاں گئے ہیں ؟ ‘‘انہوں نے عرض کیا :ابھی حاضر ہوتے ہیں، کسی ضرورت سے گئے  ہیں۔ اتنے میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی حاضر خدمت ہوگئے اور فرط خوشی میں کھجورکا ایک بڑا سا خوشہ توڑ لائے ، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’سارا خوشہ کیوں توڑا؟ اس میں کچی اور ادھ کچری بھی ٹوٹ گئیں، چھانٹ کر پکی ہوئی توڑ لیتے ‘‘ انہوں نے عرض کیا : اس خیال سے توڑا کہ ہر قسم کی سامنے ہوں جو پسند ہو وہ نوش فرمالیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ خوشہ سامنے رکھ کر جلدی سے گئے اور بکری کا بچہ ذبح کیا جلدی جلدی کچھ  گوشت بھون لیا کچھ کا سالن تیار کرلیا ۔ حضور اقدس ﷺنے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر حضرت ابو ایوب انصاری ؓکو دیا کہ’’ یہ حضرت فاطمہ زہرا ؓ کوپہنچادو ‘‘ وہ فوراً پہنچاکر آئے۔ اس کے بعد حضور اقدسﷺنے ارشاد فرمایا ’’دیکھو ! یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں ، روٹی ہے ، گوشت ہے ،ہر قسم کی کچی اور پکی کھجوریں ہیں ‘‘یہ فرماکر نبی اکرمﷺ کی پاک آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ارشاد فرمایا : ’’اُس پاک ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہی وہ نعمتیں ہیں جن سے قیامت میں سوال ہوگا ۔‘‘ (فضائل ذکر : ص 163 ، 164 ) 

اسی طرح مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے حضرت ابو حازمؒ کوبڑے اِصرار سے لکھا کہ آپ ؒکو کچھ ضرورت ہوا کرے تو مجھ سے منگا لیا کریں۔ انہوں نے جواب میں لکھا’’ میں نے اپنی ضرورتیں اپنے آقا کی خدمت میں پیش کردیں۔ اُنہوں نے اُن پر جو کچھ مجھے عطا فرمادیا، میں نے اُس پر ’’قناعت‘‘ کرلی۔‘‘(فضائل صدقات: جلد دوم ص554) ۔

حضورِ اقدس ﷺکا ارشاد ہے کہ’’ مبارک ہے وہ شخص جس کو حق تعالیٰ شانہُ نے اسلام کی دولت سے نوازا ہو، اور صرف ضرورت کے بقدر اُس کی روزی ہو اور وہ اُس پر قناعت کرنے والا ہو۔‘‘ (بخاری ومسلم) اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ’’ تو متقی بن جا سب سے بڑا عبادت کرنے والا ہوجائے گا اور (کم سے کم مقدار پر) قناعت کرنے والا بن جا تو سب سے زیادہ شکر گزار ہوجائے گا۔ اور اپنے بھائی کیلئے بھی اُس چیز کو پسند کر جس کو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو کامل مومن بن جائے گا۔‘‘(فضائل صدقات: جلد دوم ص 195)

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓنے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو یہ خط لکھا کہ دُنیا میں جتنی روزی مل رہی ہے تم اُس پر راضی رہو اور اسی پر قناعت کرلیا کرو، کیوں کہ رحمان نے اپنے بندوں کو کم زیادہ روزی دی ہے۔ اور یوں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو آزمانا چاہتا ہے کہ جسے روزی زیادہ دی ہے اسے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ میرا شکر کیسے ادا کرتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کا اصل شکر یہ ہے کہ اُس نے جو دیا ہے اسے وہاں خرچ کرے جہاں وہ چاہتا ہے۔ (کنز العمال: جلد دوم ص 161)محمد بن واسع ؒ مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ سوکھی روٹی کو پانی میں بھگوکر کھا لیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جو اس پر ’’قناعت‘‘ کرلے وہ کسی کا بھی محتاج نہ ہوگا۔ ایک اور مقام پر بیان کیا گیا ہے کہ میں نے سب سے زیادہ غم میں مبتلا رہنے والا ’’حسد‘‘ کرنے والے کو پایا اور سب سے بہترین زندگی گزارنے والا قناعت کرنے والے کو پایا۔

 امام غزالی ؒ بیان کرتے ہیں کہ فقر بہت محمود چیز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ شخص قناعت کرنے والا ہو۔ لوگوں کے پاس جو مال ہے اُن میں طمع نہ رکھتا ہو۔ اُن کی طرف ذرا بھی التفات نہ کرتا ہو۔ اور نہ مال کے کمانے کی اُس میں حرص ہو۔ اور یہ سب چیزیں جب ہی ہوسکتی ہیں جب کہ آدمی اپنے اخراجات میں نہایت کمی کرنے والا ہو۔ کھانے میں، لباس میں، مکان میں کم سے کم اور مجبوری کے درجہ پر کفایت کرنے والا ہو۔ ۔ اور گھٹیا سے گھٹیا چیز پر قناعت کرنیوالا ہو۔اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو ایک مہینے کی ضرورت کا تو خیال ہو ، اس سے آگے کی کسی چیز کی طرف اپنے خیال اور دھیان کو نہ لگائے۔ اگر اس سے آگے کی سوچ میں پڑجائے گا تو قناعت کی عزت سے محروم حرص و طمع کی ذلت میں پھنس جائے گا۔‘‘(فضائل صدقات: جلد دوم ص 194)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔