سینیٹ انتخابات ، کپتان نے بازی پلٹ دی ؟
اسلام آباد سے سینیٹ انتخابات کے لیے قومی ا سمبلی کی ایک نشست پر جب امیدوار پی ڈی ایم یوسف رضاگیلانی کو حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کے خلاف فتح ملی تو وزیراعظم عمران خان سمیت تمام حکومتی عہدیداران سراپا احتجاج دکھائی دئیے۔
وزیراعظم عمران خان نے برملا کہا کہ ان کے16ارکان نے اپنے ضمیر بیچے ہیں ۔ ان ایم این ایز کے نام سامنے نہیں آئے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان کا تعلق تحریک انصاف سے تھا یا پھر حکومتی اتحادسے تعلق رکھتے تھے۔ یوسف رضاگیلانی نے اپنی جیت کو حق اور انصاف کی فتح قرار دیتے ہوئے ضمیر جاگنے کا بھی حوالہ دیا ۔ مریم نواز نے پارٹی ٹکٹ کے وعدے کو یوسف رضاگیلانی صاحب کی جیت کا سبب بتایا ۔ بظاہر حفیظ شیخ کی ہار حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس دن اگر خواتین کی سیٹ پر حکومتی امیدوار فوزیہ ارشد 174ووٹ نہ حاصل کر پاتیں تو تحریک انصاف کی حکومت کو شدید دھچکا لگتا ، وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لے کر حکومت کو سہارا دیا۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخابات نے حکومت کو نفسیاتی طور پر مضبوط کر دیا ہے۔یوسف رضاگیلانی کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے مقابلے میں شکست ہوئی ۔سات ووٹ عبدالحفیظ شیخ کے مسترد ہوئے تھے اور اب سات ہی ووٹ یوسف رضاگیلانی کے بھی مسترد ہوئے ہیں۔ ایک اہم پہلو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کاہے جس میں تحریک انصاف کے امیدوار مرزا آفریدی نے مولاناعبدا غفور حیدری کے 44کے مقابلے میں54ووٹ حاصل کیے ہیں جس سے پی ڈی ایم کا یہ استدلال کمزور لگتا ہے کہ یوسف رضاگیلانی کے ووٹ جان بوجھ کر ضائع قراردیئے گئے ہیں ۔ اب اپوزیشن ان نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ قانونی لڑائی شروع ہوتی ہے یا نہیں ،اور اگر شروع ہوتی ہے تو کب تک چلے گی؟کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ فی الوقت حکومتی امیدوار سینیٹ انتخابات جیت چکے ہیں اور ان نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھنا ہو گا کہ ملکی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے ۔
پی ڈی ایم پہلے ہی سے لانگ مارچ کا اعلان کر چکی تھی، 26مارچ کی تاریخ بھی طے تھی۔ پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا، کہ بغیر استعفیٰ دئیے لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں۔ جس سے پیپلز پارٹی نے اتفاق نہیں کیا۔جس پر لانگ مارچ غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا گیا ہے،یہ دراصل استعفوں سے مشروط ہے جس کا فیصلہ پیپلز پارٹی اپنی مرکزی مجلس عاملہ میں کرے گی۔ لانگ مارچ کے التواء کا اعلان مولانافضل الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا جس میں مریم نواز، یوسف رضاگیلانی اور دیگر رہنما بھی شریک تھے۔مولانا فضل الرحمن لانگ مارچ ملتوی کرنے کے اعلان کے بعد پریس کانفرنس سے چلے گئے جسے بعد ازاں یوسف رضاگیلانی (پیپلز پارٹی)اور مریم نواز (مسلم لیگ ن) نے سنبھالا۔انہوں نے متعدد سوالات کے جوابات بھی دیئے لیکن پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس کب ہو گا؟ اس کا جواب یوسف رضا گیلانی یہ کہہ کر گول کر گئے کہ ’’جلد‘‘ ہو گا۔ پریس کانفرنس کو ادھورا چھوڑ کر روانگی سے مولانا کی ناراضی کا پیغام پیپلز پارٹی کو پہنچ چکا ہے۔پھر سندھ میں بھی کورونا کی نئی لہر جاری ہے !دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا اجلاس کب ہوتا ہے ۔
قومی اسمبلی سے استعفے وہ واحد نقطہ ہے جس پر پی ڈی ایم کے مستقبل کا انحصار ہے ۔ کیا پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں بحیثیت مجموعی اسمبلیاں چھوڑنے کے لیے تیار ہوں گی؟ بالخصوص پیپلزپارٹی سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے ؟۔ پی ڈی ایم کا بنیادی موقف یہ تھا کہ موجودہ اسمبلیاں دھاندلی شدہ انتخابات کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہیں لہٰذا ہم نہیں مانتے اور صحیح معنوں میں جمہوریت کی بحالی کے لئے نئے انتخابات کا ہونا بہت ضروری ہے ،لیکن ابھی تک پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جو کچھ ہوا ہے وہ اس کے بر عکس ہے ۔
اپوزیشن کی طرف سے گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا گیا، تمام ضمنی انتخابات بھی لڑے گئے ، سینیٹ انتخابات میں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ بقدر جثہ اپنے اپنے سینیٹرز منتخب کروائے اس لیے پی ڈی ایم کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو کوئی نیا موقف سامنے لانا پڑے گا۔ وہ موقف بڑھتی مہنگائی ہوگا یا پھر حکومتی کارکردگی ۔ بقول اپوزیشن ، ایسی بری کارکردگی پہلے کسی حکومت کی سامنے نہیں آئی ۔پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کے مطابق ان کی پارٹی کے لیے استعفوں کا آپشن ہمیشہ سے نا پسند عمل رہا ہے۔ استعفے تو دے دیں لیکن اس کے بعدکیا ہو گا۔ حیران کن طور پر مسلم لیگ (ن) میں بھی استعفو ں کے معاملے پر یکسوئی نہیں ۔ پارٹی کا بڑا حصہ یہ سمجھتا ہے کہ عمران خان حکومت پر تنقید تو چلتی رہنی چاہیے لیکن فوجی قیادت کو ہدف تنقید بنانا کسی صورت میں بھی پارٹی کے حق میں نہیں۔ پارٹی کب تک اپنے اس بیانیے پر قائم رہے گی یہ ابھی دیکھنا ہے۔ ایک مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو سال کے دوران مریم نواز نے پارٹی کو تن تنہا چلایا ہے ،اس دوران پنجاب میں اپوزیشن لیڈرحمزہ شہباز جیل میں تھے ۔ شہباز شریف کا بھی جیل میں آنا جانا لگا رہا،اب حمزہ جیل سے باہر آ چکے ہیں۔ لہٰذا پارٹی کے انتظامی امور پر ان کا اثر بھی نظر آئے گا۔
واقفان حال بتاتے ہیں اپنے والد کی طرح حمزہ شہباز بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کے رکھنا چاہتے ہیں،اس لیے اب دیکھنا ہو گا مسلم لیگ (ن) کس حد تک اپنے مفاہمتی اور مزاحمتی طرز عمل کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ یہ جماعت اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے گی اس کا اثر پی ڈی ایم کی مجموعی سیاست پر بھی پڑے گا۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جیت کر کافی پُر اعتماد دکھائی دے رہی ہے لیکن اگر مہنگائی کا طوفان اسی طرح بڑھتا رہاتو اس اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ چینی کی قیمتیں ایک با رپھر بے لگام ہو چکی ہیں،روک تھام کا کوئی نسخہ کام نہیں آ رہا۔