قلعہ لاہور
قدیم تاریخی آثار اور خوبصورت عمارتوں کی اپنی ایک خوبصورت داستان ہے جو اس زمانے کے ماہرینِ تعمیر نے اپنے فن اور صلاحیتوں سے زندہ رکھی ہے ۔
قدیم عمارتوں سے اس زمانے کی تہذیب کے جاہ وجلال،حکمرانی کے انداز،شہنشاہت کے دبدبے اور طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔اگر دنیا کے نقشے پر دیکھا جائے تو اسلامی دورِ حکومت اپنی تہذیب و تمدن،سماجی ،معاشی،معاشرتی،ثقافتی اور تعمیری اصلاحات کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
قلعہ جس کے لغوی معنی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں اور یہ فوجی مقاصد یا شاہی رہائش کیلئے دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں۔پاکستان میں مختلف ادوار میں کئی قلعے تعمیر ہوئے ان میں روہتاس،رنی کوٹ،قلعہ اٹک،قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور شامل ہیں۔شاہی قلعے کیلئے جو جگہ منتخب کی گئی وہ ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جس کی سطح لاہور شہر سے کافی بلند،دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر واقع اور کافی محفوظ تھی۔شاہی قلعہ لاہور مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے جو انہوں نے اپنے رہائشی مقاصد کیلئے تعمیر کروایا مگر ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِ نظر رکھا گیا۔اس کی باقاعدہ بنیاد1566ء میں جلال الدین اکبر نے رکھی۔اس کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی370میٹر ہے۔اس کی شکل کافی حد تک مستطیل ہے ۔دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہیں جن کی چنائی مٹی گارے سے کی گئی ہے۔ان دیواروں پر بندو قچیوں کے لیے سوراخ ہیں جن کے آثار ابھی تک مشرقی دیوار پر موجود ہیں۔ان سے فوجی محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی اور گولیاں برسایا کرتے تھے۔یہ قلعہ اپنی وسعت ،فنِ تعمیر اور شہرت کے لحاظ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔اس قلعے میں مختلف وقتوں میں مختلف عمارات بھی تعمیر ہوئیں۔جن میں عہدِ اکبری کی عمارت،نورالدین جہانگیر کی عمارت ، شاہجہان کی عمارت،اورنگزیب عالمگیر کی عمارت اور سکھ دور کی عمارات شامل ہیں۔