21 رمضان یوم شہات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عمار یاسر ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ ذی العشیرۃ کے موقع پر نبی کریم محمد مصطفی ﷺ نے حضرت علیؓ ابن ابی طالبؓ سے فرمایا : ’’اے ابو تراب کیا میں تمہیں دو بد بخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں‘‘ ؟ہم سب نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ ۔ آپﷺ نے فرمایا،’’ پہلا شخص قوم ثمود کا احیمر تھا جس نے حضرت صالح ؑکی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں اور دوسرا شخص وہ ہے جو اے علیؓ تمہارے سرپر وار کرے گایہاں تک کہ تمہاری داڑھی خون سے تر ہو جائے گی‘‘۔(السنن کبریٰ امام نسائیؒ ،مسند احمد بن حنبل ؒ)
حضرت ابو طفیلؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت علیؓ خلافت کی بیعت لے رہے تھے اس وقت بھی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ’’ میرے ساتھ نبی کریم ؐ کا عہد ہے کہ میری داڑھی کو میرے خون سے خضاب کیاجائے گا‘‘(طبقات کبری ٰ)
ماہ رمضان40ھجری کی19ویں شب تھی جب حضرت علی ؓ نے اپنی بیٹی حضرت ام کلثومؓ کے یہاں افطارکیا۔ افطار کے بعد شب بھر عبادت میں مصروف رہے اور بار بار آسمان کیطرف دیکھتے اور فرماتے ،واللہ یہ وہی شب ہے جس کی حضرت رسول اکرم ؐ نے خبر دی تھی ۔جب نما ز صبح کیلئے مسجد کوفہ میں جانے لگے تو بطخوں نے راستہ روکا اور اپنی زبان میں نوحہ پڑھنے لگیں لیکن آپ رسول اکرم ؐ کی پیش گوئی کو یاد کرتے رہے اور بطخوں کی چیخ و پکار کا مطلب سمجھنے کے باوجود اپنا دامن چھڑا کر مسجد کی جانب چل پڑے ۔نماز شروع کی اور سجدہ خالق میں سر جھکایاتو ابن ملجم نے سر اقدس پر وار کیا۔آپؓ کی زبان پر ورد جاری ہو گیا، ’’بسم اللہ و باللہ و علی ملت رسول اللہ فزت و رب الکعبۃ‘‘۔
شب 21رمضان کو حضرت علیؓ درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔ مورخین نے حضرت علی ؓ کی شہادت کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ آپ ؓ کو شدت عدالت کی وجہ سے شہید کر دیا گیا کیونکہ حضرت علیؓ ہی کورسول خداﷺ نے بہترین انصاف کرنے والا قرار دیا تھا ۔
ضربت کے بعد اپنے فرزند اکبر حضرت امام حسن المجتبیٰ ؓاورتمام خاندان کو حضرت علیؓ نے وصیت فرمائی کہ ’’میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ،دنیا کے خواہشمند نہ ہونا اگرچہ وہ تمہارے پیچھے لگے اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ کڑھنا جو تم سے روک لی جائے جو کہنا حق کیلئے کہنااور جو کرناثواب کیلئے کرنا ،ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔میں تم کو اپنی تمام اولاد کو اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میرا پیغام پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں، اللہ سے ڈرتے رہنا اپنے معاملات درست اور آپس کے تعلقات سلجھائے رکھنا کیونکہ میں نے تمہارے نانارسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے کہ آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا افضل ہے....تم پر لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اور خبردار ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھرنے اور تعلقات توڑنے سے پر ہیز کرنا ،نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ بد کردار تم پر مسلط ہو جائیں گے ۔پھر دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی !اے عبد المطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم ’امیر المومنین قتل ہوگئے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کردو ۔دیکھواگر میں اس ضرب سے شہید ہو جاؤں تومیرے بدلے صرف میرا قاتل قتل کیا جائے اور اسے ایک ضرب کے بدلے ایک ہی ضرب لگانا اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ’خبردار کسی کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹو،اگر چہ کاٹنے والا کتا ہی ہو‘‘۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعدنواسہ رسول حضرت امام حسنؓ نے حضرت عبد اللہؓ ابن عباس ؓکے اصرار پر مسجد کوفہ میں تشریف لا کر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا ایک ایک لفظ عظمت حیدرکرار بیان کررہا ہے ۔حضرت امام حسنؓ نے خدا کی حمد و ثنا اور رسول خداﷺپر درودو سلام بھیجنے کے بعد فرمایا ،’’آج کی رات ایسی ہستی ہمارے درمیان سے رخصت ہوئی ہے کہ اولین و آخرین میں کوئی عمل پر ان سے سبقت نہ لے جا سکا،وہ (حضرت علیؓ) رسول اللہﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے ، آنحضورﷺکا دفاع کرتے ،آنحضرت ﷺ انہیں جب اپنا علم دے کر بھیجتے تو حضرت جبرائیل ؑ دائیں طرف اور حضرت میکائیل ؑ بائیں طرف سے حفاظت فرماتے اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آتے تھے جب تک اللہ آپ ؓ کے ہاتھوں پر فتح نہیں دے دیتا تھا ۔آپؓ نے مال دنیا میں صرف سات سو درہم چھوڑے جس سے آپ اپنے گھر والوں کیلئے غلام خریدنا چاہتے تھے ۔یہ کہہ کر حضرت امام حسنؓ کی آواز رندھ گئی اور آپؓ گریہ کرنے لگے ، اور تمام صحابہ کرام ؓ اور عاشقان حضور پاک ﷺ اور شیر خدا حضرت علیؓ کی شہادت پر گریہ کرنے لگے ۔
وہ حضرت علی ؓ ، جس نے دنیا میں آمد کے بعد اس وقت تک آنکھ نہ کھولی تھی جب تک خیر البشر حضرت محمد مصطفی ﷺنے انہیں اپنی آغوش میں لے کر اپنا لعاب دہن نہ چوسایا۔وہ حضرت علیؓ جو ؓاپنی ولادت سے رحلت تک آزمائش کی ہر گھڑی میں، جنگ کے ہر میدان میں ور امور مملکت میں ہادی برحق محمد مصطفی ﷺکے ساتھ ساتھ رہے۔جو فاتح خیبر و خندق اور بدر و حنین تھے۔ جس حضرت علیؓ کو خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کا سرتاج بننے کا اعزا ز حاصل ہواجس کے بیٹے جنت کے سردار کہلائے ۔حضرت علیؓ جو دوش رسالت ﷺپر سوار ہو کرخانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے والے تھے جنہیں حضرت نبی کریمﷺ نے من کنت مولاہ فھذا علی مولا(جس کا میں مولا اس کا علی مولا) کہہ کر تا ابد ولایت کی تاجداری کاشرف عطا کیا ،جس حضرت علی ؓکے چہرے کی طرف دیکھنے کو حضور نبی کریم ؐ نے عباد ت قرار دیاتھا وہ حضرت علی ؓ جو اپنے قاتل کی زہر میں بجھی تلوارکی ضرب کھانے کے بعد اعلان کر رہے تھے کہ ’فزت و رب الکعبہ ‘رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔شہادت کا جام پی کر اپنی کامیابی کا اعلان اس بات کا غماز ہے کہ حضرت علیؓ کی شہادت ان تمام عظمتوں کی معراج تھی جو اللہ جل شانہ ، نے حضور نبی کریمﷺ کے دست بازو اور علمدار لشکر حضرت علی ابن ابی طالبؓ کو عطا فرمائی تھیں۔
علامہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں’’ حضرت علی ؓ پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے، آپؓ کی پیشانی کبھی کسی بت کے سامنے نہیں جھکی(صواعق محرقہ) امام احمد بن حنبل ؒ کے بقول حضرت علیؓ کے فضائل و کمالات میں کوئی ان کا ہمسر نہیں علامہ ابن حجر مکی نے تحریر فرمایا کہ علیؓ کے مناقب و فضائل حد احصا سے باہر ہیں تین سو سے زائد آیات علیؓ ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئیں۔
جیسے حضور پاک ﷺ کی کفالت حضرت ابو طالبؓ نے کی تھی ویسے ہی حضرت علیؓ کی پرورش کا ذمہ رحمۃ للعالمین و ام المومنین ملیکۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے ادا کیا ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ’’۔۔۔ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺکے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا اور آپﷺ سے میری قرابت کس حد تک تھی۔ جب میں بچہ تھا رسول اللہ ﷺ مجھے اپنے ساتھ سلاتے اور مجھے اپنے سینے پرجگہ دیتے تھے اور مجھے اپنے بستر پر لٹاتے تھے؛ ، دہن مبارک میں چبا کر مجھے کھلایا کرتے تھے۔۔۔۔۔ اور میں (علیؓ)اس طرح آپؐ کے پیچھے چلتااور سفر و حضر میں اس طرح آپ ﷺکے ساتھ رہتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہر روز اپنے اخلاق کا کوئی نمونہ میرے لئے بیان کردیتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے‘‘۔(سیرۃ النبویہ ابن ہشام ۔نہج البلاغہ)
جب نبی کریم ﷺ کوو انذ ر عشیر تک الاقربین (سورہ شعراء)کے تحت اپنے رشتہ داروں کو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہواتووہ حضرت علی ؓہی تھے جنہوں نے رسول پاک ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا اورفرمایا میں آپﷺ کی تائیدو نصرت کیلئے تیار ہوں ۔ آنحضورﷺ نے فرمایا، (حضرت) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم بیٹھ جاؤ‘‘ ۔ حضور پاک ﷺنے اپنی دعوت تین مرتبہ دہرائی ۔ ہر دفعہ حضرت علیؓ کے سوا کوئی کھڑا نہ ہوا۔اس پر فخر موجودات نبی کریمﷺ نے فرمایا، اے (حضرت)علیؓ تم میرے بھائی وزیر اور وارث و خلیفہ ہو۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے حضرت علیؓ کو (مدینہ منورہ پر) حاکم بنایا، جب آپﷺ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں ،تو آپﷺ نے فرمایا (اے علیؓ) کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام میرے ہاں ایسے ہے کہ جسے حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاں، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے(صحیح مسلم:جلد سوم،صحیح بخاری ،متفق علیہ)۔