بچوں کے ساتھ کھیل کود کی اہمیت

تحریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال


باپ سے بچہ خود اعتمادی اور ماں کے ساتھ کھیلنے سے جذباتی تعلق قائم کرنا سیکھتا ہے،والدین کی قربت سے محروم بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں

اکثر افراد بچوں کی تربیت پر پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں ،بچوں کی خواہش ہونٹوں سے باہر نہیں نکلتی کہ اسے پورا کرنے کے جتن کئے جاتے ہیں لیکن کچھ والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کو دوسروں کی جانب سے ملنے والی تربیت کے مقابلے میں آپ کے ساتھ وقت گزارناسے بہتر لگتا ہے۔ بچوں کوپیسوں کے علاوہ کے علاوہ ماں باپ کی توجہ اوران کے ساتھ کھیلنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

والدین کی قربت سے محروم بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔اس کے باوجود بھی بعض والدین کے پاس چھوٹے بچوں کیلئے وقت کم ہوتاجا رہا ہے ، وہ ا ن کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی چیز تھماکر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں ،یہ والدین سمجھتے ہیں کہ بچہ بہت کچھ سیکھ رہا ہے ،در حقیقت وہ بچے کو اس کی ذات تک محدود کر دیتے ہیں۔بچے کی نظرمیں اس کی ذات کی اہمیت بڑھنے لگتی ہے ۔ اس طرح وہ ماحول میں گھل مل کر رہنے کی بجائے اپنے آپ  میں مگن رہنا سیکھتا ہے۔اس میں الگ تھلگ رہنے کے ’’جراثیم ‘‘پیدا ہونے لگتے ہیں۔

پی ایچ ڈی ڈاکٹر گارشیاء ایف۔ نارویز نے ’’سائیکولوجی ٹوڈے‘‘ میں لکھا ہے کہ 

’’بچوں کے ساتھ جسمانی کھیل کھیلنے کے نفسیاتی اور ذہنی نشو و نما پر ا چھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس سے بچوں میں مہارتیں جنم لیتی ہیں،ان میں قائدانہ صلاحیتیں عود کر آتی ہیں اوروہ ا پنے جذبات پر قابو پانا سیکھ جاتے ہیں کیونکہ کم عمری میں وقت دینے والے والدین سے بچے معاشرے میں مل جل کر رہنا سیکھتے ہیں، ایسے بچے کسی بھی ماحول میں دوسروں کی بہ نسبت بہتر طور پر اڈجسٹ ہو جاتے ہیں‘‘۔ 

ان کا کہنا ہے کہ 

’’اس ضمن میں بچوں کے لئے مائوں سے زیادہ باپ اہم ہوتے ہیں کیونکہ باپ سے بچے خود اعتمادی اور آگے بڑھنا سیکھتے ہیں، وہ باپ کو سایہ دار درخت سمجھتے ہیں جو کہ درست ہے۔مائیں بچوں کے ساتھ ’’انسٹرکٹیو‘‘ انداز میں کھیلتی ہیں جبکہ باپ جسمانی طور پر کھیل میں حصہ لیتے ہیں ۔ دونوں لازمی ہیں۔ اگر والدین ان کے ساتھ کھل کر باتیں نہیں کریں گے تو وہ شائد دوسروں کے ساتھ باتیں کرنے میں بھی دشواری محسوس کریں گے۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے والدین ان کی نئی کھیلوں کے ساتھ خود کو اڈجسٹ کریں، پھر عمر کے ساتھ ساتھ کھیل بھی بدلتے رہتے ہیں۔والدین بھی ایسا ہی کریں‘‘ ۔ان کھیلوں میں بچے کو ہوا میں اچھالنا ، ان کے ساتھ بھاگ دوڑ میں حصہ لینا یا چھپن چھپائی بھی شامل ہیں۔ 

 ماہرین کا ماننا ہے کہ بچہ ان معمولی کھیلوں سے اتنا کچھ سیکھتا ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔وہ باپ سے اپنے لئے مواقع پیدا کرنا بھی سیکھتا ہے،اسی کھیل کود سے ان میں مہارتیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ کچھ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔یہ روشن مستقبل کا ضامن ہے۔ 

’’آکسی ٹوسین ‘‘ نامی ہارومونز بچوں اور والدین کے درمیان بانڈنگ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔جب ماں باپ بچوں کو وقت دیتے ہیں تو ان ہارمونز کی پیدائش بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے والدین کھیلتے وقت باتیں سنیں ،ان کی باتوں کی حمایت کریں، اور انہیں ان کے اچھے کاموں پر عمل جاری رکھنے کا مشورہ بھی دیجئے۔انہیں اپنی بات پوری کرنے کا موقع دیجئے،جب وہ بات کر رہے ہوں تو درمیان میں ٹوکنے سے گریز کیجئے، اچھے والدین اپنے بچوں کی ا چھی باتوں پر خوش ہوتے ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی قیمت بھی ادانہیں کرنا پڑتی ،یہ قدرت کی جانب سے ودیعت کی گئی ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ہم بچپن میں ہی بچوں کو وہ کچھ سکھا سکتے ہیں جن کی ہم ان سے نوجوانی میں توقع کرتے ہیں۔ آپ نے اکثر والدین کو کہتے سنا ہو گا کہ ’’میرے بیٹے میں خود اعتمادی کی کمی ہے، وہ دوسروں کے سامنے بات کرنے سے ہچکچاتا ہے، میں بہت سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مانتا ہی نہیں ‘‘ ۔کچھ والدین یوں بات بھی کرتے ہیں: ’’میرے بیٹے میں سیلف کنٹرول کی کمی ہے وہ اکثر ہی غصے میں آجاتا ہے میں کیا کروں‘‘ ۔ 

یہ وہ باتیں ہیں جو ہم بچپن میں چند منٹ ان کے ساتھ رہ کر سکھا سکتے ہیں۔ماں اور باپ منہ سے چاہے یہ نہ بھی کہیں کہ ’’بیٹا!آپ اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کریں ‘‘لیکن وہ خود ہی آپ کے ساتھ رہنے اور کھیلنے سے اپنے اندر اعتماد پیدا کر لیتے ہیں۔ان کے ساتھ کھیل کود کے وقت اگر آپ تھوڑابہت غصہ بھی دکھاتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔پاکٹ منی میں ایک دو دن کی تاخیر کرنے سے بھی مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔ اس ’’تلخی ‘‘ کے ساتھ ساتھ آپ کوئی ’’انعامی سکیم ‘‘ بھی بناسکتے ہیں تاکہ وہ کسی بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔اس ضمن میں ’’2020 meta-analysis ‘‘نے 78تحقیقات کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنی تحقیق ’’ڈویلپمنٹ ریویو‘‘ میں شائع کرائی۔ا س میں کہا گیا ہے کہ کم عمر بچوں کے ساتھ والدین کے کھیلنے سے وہ جذباتی تعلق قائم کرنا سیکھتے ہیں۔ وہ جتنی جلدی یہ باتیں سیکھ جائے گا ہم اتنی ہی جلدی دنیا کو بدل دینے والی نسل کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ یہی ان کے روشن مستقبل کی کنجی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5 برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔