اردو شاعری میں پیروڈی

تحریر : مظہر احمد


طنز و ظرافت کے قبیلے کی ایک اہم صنف ’’پیروڈی‘‘ بھی ہے جس کے ذریعے کسی سنجیدہ چیز کو مضحکہ خیز بنا دیا جاتا ہییاکسی راست بات کو الٹ پھیر کے ساتھ بیان کر دینے کو بھی ’’پیروڈی ‘‘ کہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’پیروڈی ‘‘ محض الفاظ کے الٹ پھیر کا نام ہے۔ پیروڈی نگار موضوع اور الفاظ کے ساتھ ساتھ اپنے ذہنی شعور کو وابستہ کر دیتا ہے۔یہ ذہانت کا فن ہے بلکہ تنقید کی سب سے لطیف شکل ہے۔ پیروڈی کی شکل میں ہنسی ہنسی میں ایک ایسی تنقید بھی ہوجاتی ہے جو عام حالات میں ممکن نہیں ہوتی۔ جیسا کہ کسی ادب پارے میں بڑھتی ہوئی جذباتیت ،کسی خاص اسلوب بیان کی مخالفت بھی پیروڈی کا شکار ہو سکتی ہے۔ آل احمد سرور کے مطابق ’’پیروڈی انفرادیت کو آسیب بنا کر پیش کرتی ہے ظاہر ہے کہ انفرادیت کو آسیب بنانے کے لئے اس میں چند ایک تبدیلیاں کر دینا ہی کافی ہو گا‘‘ ۔ اسی طرح ڈاکٹر قمرریئس کے خیال میں پیروڈی کی بنیاد شعر و ادب کا کوئی خاص اسلوب ، رجحان یا کوئی اہم فن پارہ بنتا ہے۔‘‘

پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ: ’’طنز و ظرافت کا موضوع جہاں اہم ہے وہاں اس میں بہت سی نزاکتیں بھی ہیں، یہ ایک ایسا پل صراط ہے جس کے دونوں طرف گہرے غار ہیں۔ ذرا قدموں کو لغزش ہو تو اس کا انجام تباہی ہے۔ اس صنف کا دائرہ بہت وسیع ہے..... تہذیبی اور سماجی خامیوں کی اصلاح کے وقت اس صنف کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے مگر جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ اگر اس میں لغزش پیدا ہو گئی تو پھکڑ پن اور سطحیت کے پیدا ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ دوسری اصناف کے مقابلے میں اس صنف کے شہ سواروں کی تعداد کم ملے گی۔کسی شاعر یا مصنف کی پیروڈی کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے کلام کا غیرمعمولی چرچا ہے‘‘۔

 شوکت تھانوی لکھتے ہیں،’’ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ حالات ہی دراصل ان حالات کی پیروڈی ہیں جن سے ہم بھی گزر چکے ہیں، معلوم ہوتا ہے جتنی زندگی بسر کرنا تھی وہ تو بسر کر چکے، اب زندگی کی پیروڈی کر رہے ہیں‘‘۔

علامہ اقبال، اسد اللہ خان غالب، نظیر اکبرآبادی، جوش ملیح آبادی ، فیض احمد فیض، اختر شیرانی،احمد فراز اور ن۔م۔راشد سمیت متعدد شعراء کے اشعار کی پیروڈی مختلف شاعروں نے اپنے منفرد انداز میں کی ہے اور اپنے عہد کے مسائل کو ظریفانہ انداز میں پیش کر کے ان سماجی کوتاہیوں کو طنز کا ہدف بنایا ہے جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔کامیاب پیروڈی کیلئے تخلیقی صلاحیت کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی ذکاوت اور ذہانت، زبان پر غیرمعمولی قدرت شرطِ اول ہے۔ محمد جعفری اور شہباز امروہوی کی پیروڈی میں جو دلکشی ہے ، اس کا راز یہی ہے۔ ان کی نکتہ رس ظریف طبیعت نے پیروڈی کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے۔

ان حالات میں جب انسان خود اپنا ہی کارٹون بن گیا ہے اور جب اس کا اسلوبِ زندگی بجائے خود پیروڈی ہے اسی کے پچھلے اسلوب زندگی کی، اس سے کسی پیروڈی کی کیا امید ہو سکتی ہے؟ پیروڈی کرنا وہ فن ہے جس کا فن کار اگر جیل اور موت دونوں سے بچ گیا تو خود اپنے اسی فن کا شاہکار بن کر رہ جاتا ہے اور اس کی کسی کاوش پر نہیں بلکہ خود اسی پر دنیا ہنسنے لگتی ہے۔

عبدالحمید عدم کے مشہور شعر کی پیروڈی ہری چند اختر نے دوستوں کی ایک محفل میں یوں کی:

شاید مجھے نکال کے کچھ کھا رہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں

علامہ اقبال کی مشہور نظم شکوہ کے ایک بند کی سید محمد جعفری نے یوں پیروڈی کی ہے:

گوشت خوری کیلئے ملک میں مشہور ہیں ہم

جب سے ہڑتال ہے قصابوں کی مجبور ہیں ہم

چار ہفتے ہوئے قلیے سے بھی مہجور ہیں ہم

نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا! شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے

خوگرِ گوشت سے سبزی کا گلہ بھی سن لے

راجہ مہدی علی خان نے غالب کی ایک مشہور غزل کی مکمل پیروڈی کی ہے، جس کا ایک شعر ہے:

ہے گال پہ اس تل کے سوا ایک نشاں اور

تم کچھ بھی کہو، ہم کو گزرتا ہے گماں اور

نظیر اکبرآبادی کی یادگار نظم ’’مفلسی‘‘ کی پیروڈی میں مجید لاہوری نے ’’لیڈری‘‘ تخلیق کی ہے، جس کا ایک بند ہے:

مِل اور زمین الاٹ کراتی ہے لیڈری

اور کوٹھیوں پہ قبضہ جماتی ہے لیڈری

لنچ اور ڈنر مزے سے اڑاتی ہے لیڈری

غم ساتھ ساتھ قوم کا کھاتی ہے لیڈری

فرصت ملے تو ٹور پہ جاتی ہے لیڈری

نظیر اکبرآبادی کی یادگار نظم ’’روٹیاں‘‘ کی پیروڈی کنہیا لال کپور نے کی ہے ، ملاحظہ کیجئے ،

سسرال میں جو میکے سے آتی ہیں بیویاں

سو سو طرح سے دھوم مچاتی ہیں بیویاں

کھانے مزے مزے کے پکاتی ہیں بیویاں

جینے کا جو مزہ ہے چکھاتی ہیں بیویاں

کچھ دن تو خوب عیش کراتی ہیں بیویاں

پھر اس کے بعد خون رلاتی ہیں بیویاں

راجہ مہدی علی خان نے اسدا اللہ خان غالب کی ایک معروف نظم کی پیروڈی کی ہے، ذڑا پڑھیے،

کبھی تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں

کبھی تیری چپل کو ہم دیکھتے ہیں

تیرے سرو قامت سے چھ فٹ کم از کم

قیامت کے فتنے کو ہم دیکھتے ہیں

ہمیں پیٹ دے تو اگر ہم بتا دیں

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

یہ مہندی رچا پائوں چپل میں رکھ دے

ذرآج اسے چھو کے ہم دیکھتے ہیں

 دلاور فگار نے علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’بچے کی دعا‘‘ کی پیروڈی میں ’’اسٹوڈنٹ کی دعا‘‘ تخلیق کی ہے جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں ،

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی کھیل میں غارت ہو خدایا میری

فلم میں میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

متوجہ مری جانب مدھو بالاہو جائے

مجھ سے انگلش نہیں چلتی، اسے ایزی کر دے

بلکہ ممکن ہو تو اردو کو بھی ہندی کر دے

کیوں سبق یاد کروں، کیوں یہ مصیبت جھیلوں

کیوں نہ تفریح کروں ، کیوں نہ کرکٹ کھیلوں

اب کے نیّا کو مری پار لگا دے مولیٰ

امتحاں میں پروموشن ہی دلا دے مولیٰ

ایک اور پیروڈی ملاحظہ کیجئے ،

تو ایک کلرک ہے اپنا مقام پیدا کر

کمائی اوپری کچھ صبح وشام پیدا کر

ترا طریق غریبی نہیں امیری ہو

خودی کو چھوڑ ،کلرکی میں نام پیدا کر

منشی سجاد حسین اچھے نثر نگار ہیں لیکن ان کے ہاں کچھ اعلیٰ پیروڈیاں بھی ملتی ہیں۔ان کے دو اشعار ملاحظہ فرمایئے،

ہوئے بچ کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق درگڈھا

وہیں رہتے مثل مینڈک، وہیں غائیں غائیں کرتے

قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں رسن

دو ایک ہاتھ چاہ میں جب ڈول رہ گیا

فرقت کاکوری نے ’’آدمی نامہ‘‘ کی پیروڈی یوں کی ہے،

رشوت کے نوٹ جس نے لئے وہ بھی آدمی

دو روز جس نے فاقے کئے وہ بھی آدمی

جو آدمی کا خون پئے وہ بھی آدمی

جو پی کے غم کا زہر جئے وہ بھی آدمی

آنسو بہا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

اور مسکرا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

رضانقوی واہی نے جوش ملیح آبادی کی ایک نظم ’’پروگرام ‘‘کی پیروڈی کیا خوبصورت انداز میں کی ہے،

شاعر کو اگر آپ کبھی ڈھونڈنا چاہیں

وہ پچھلے پہر فکر کی دلدل میں ملے گا

اور صبح کو آئینہ لئے سامنے اپنے 

اشعار تغزل کی ریہرسل میں ملے گا

دن کو وہ جگر گوشہ بیکاری و افلاس

بستر پہ خیالات کئے جنگل میں ملے گا

اور شام کو حلقے میں مریدان سخن کے

بیٹھا ہوا رحمانیہ ہوٹل میں ملے گا

اور شب کو سربزم سخن صدر کے نزدیک

گالوں کو پھلائے صف اول میں ملے گا

حاجی لق لق کی شاعری میں مزاح کا عنصر غالب ہے۔ معروف شعرا کی غزلیات کی پیروڈیاں ان کے مجموعہ کلام ’’منقار لق لق‘‘ میں شامل ہیں۔انہوں نے عشق،محبت،حسن کے ساتھ معاصر سیاسی لیڈروں اور سیاسی رجحانات پر تسلسل کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔ تحریف ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا اہم ہتھیار ہے ، چند منتخب اشعار دیکھیے جن سے پیروڈی پوری طرح عیاں ہے،

وہ آئیں گھر  پہ مرے مجھ کو اعتبار نہیں

یہ میرا گھر  ہے کسی پیر کا مزا ر نہیں

ترا مریض ہوں کسی ڈاکٹر کا گھر نہ بتا

یہ درد عشق ہے ظالم کوئی بخار نہیں

حال تیرے ہجر میں کیا دیکھ دلبر ہو گیا

روتے روتے میرا اوور کوٹ بھی تر ہو گیا

رات دن ہوتا ہے میرے دل کے ارمانوں کا خون

دل میرا بھی شو مئی قسمت سے سکھر ہو گیا

کیوں جمع مرے گرد ہے مخلوق خدا کی

میں ہوں، کوئی بندر کا تماشا نہیں ہوتا

کیا کھانے پہ اس شوخ کو بلوائیے لق لق

گر دیگچہ ہوتا ہے تو چمچہ نہیں ہوتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔