عارضی معاشی ترقی آخر کب تک ؟

تحریر : خاور گھمن


حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ گیارہ جون کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ گزشتہ ہفتے جب وفاقی حکومت کی طرف سے رواں مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد کے قریب بتائی گئی تو اس پر کافی بحث شروع ہو گئی۔ یہ بحث اس لیے بھی بنتی تھی کہ قبل ازیں ترقی کی رفتار کا تخمینہ 2 فیصد کے قریب لگایا گیا تھا۔ یکدم اس کا 4 فیصد ہو جانا اقتصادی ماہرین کے لیے حیران کن خبر تھی۔کچھ ماہرین معیشت کا ماننا ہے کہ شرح نمو کا 4 فیصد ہونا اتنا بھی غیر معمولی واقعہ نہیں۔ زرعی شعبے سے کافی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ گندم، مکئی چاول اور گنے کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے ۔ کسانوں کو ان کی فصلوں کے پیسے بھی بروقت ملے ہیں۔ برآمدات کے شعبے سے بھی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں بھی کافی ترقی ہو رہی ہے اس لیے کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اعدادوشمار حقیقت پر مبنی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں اب اصل مسئلہ اور چیلنج موجودہ حکومت کے لیے ان معاشی اشاریوں کو قائم رکھنا اور ان کے اثرات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا ضروری ہے تا کہ اگلے دو برسوں میں، آئندہ انتخابات سے پہلے مہنگائی میں کمی ہو اور بہتر روز گار کے مواقع مہیا کئے جا سکیں ۔

 آج کل شہر اقتدار میں انہی اعدادوشمار کو لیکر بحث و مباحثے چل رہے ہیں۔ ظاہر ہے حکومتی ارکان اس حوالے سے آسمانوں میں اڑ رہے ہیں۔ کرونا کے باوجود اس طرح کی معاشی ترقی کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس بارے میں جب جب اپوزیشن ارکان سے بات ہوئی تو وہ حکومتی دعوئوں کو کلی طور پر رد کرتے ہیں۔مسلم لیگ ن والے کہتے ہیں ،

’’چلیں تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیتے ہیں کہ حکومت ٹھیک کہہ رہی ہے لیکن لوگوں، خاص طور پر معاشی ماہرین کو یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ جب 2018ء میں ہم نے حکومت چھوڑی تھی تب معاشی ترقی کی رفتار  5 فیصد تھی‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں سینئر مسلم لیگی لیڈر کا ماننا تھا کہ ’’ اگر 2023ء کے انتخابات سے پہلے معیشت بہترہو جاتی ہے اور اس کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچ جاتے ہیں تو تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان انتخابی معرکہ کافی دلچسپ اور کانٹے دار ہو گا۔ لیکن ہنوز دلی دور است ...حکومت کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور ہمیں حکومت سے ہرگز ہر گز ایسی کوئی امید نہیں‘‘۔ 

پیپلزپارٹی والوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ، ’’ اعدادوشمار کا گورکھ دھندا بہت پرانا ہے ۔ ہر دور میں ایسے معاشی اشاریے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ سب کو جو چیز نظر آرہی ہے وہ کمر توڑ مہنگائی اور ریکارڈ توڑ بیروزگاری ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے ان اعدادوشمار پر کوئی دھیان نہیں دے گا اور نہ ہی کسی کو دینا چاہئے‘‘ ۔

 ایک اہم حکومتی وزیر سے جب اس بابت بات ہوئی تو اس کا یہ کہنا تھا، ’’ اپوزیشن جو مرضی کہے ،حالات میں کافی بہتری آئی ہے ۔ اگر فیصل آباد میں تمام پاور لومز دن رات کام کررہی ہیں، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے تاجر خو ش ہیں ۔ کراچی سٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ کاروبار ہو رہاہے تو یہ سب کچھ ہوا میں نہیں ہو رہا۔ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ بہتری تو ضرور ہوئی ہے‘‘۔ وزیر موصوف نے اتنا ضرور مانا کہ ’’مہنگائی اور بیروزگاری بڑے چیلنجز ہیں یہ اسی وقت ختم ہوں گے جب ملکی معیشت کا پہیہ چلے گا۔ لوگ کاروبار کریں گے اور ہماری حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ آئندہ دو سال کے دوران ان مسائل پر قابو پایا جائے ‘‘۔

 کیا معاشی بحالی مستقل بنیادوں پر ہے؟، کیا یہ مثبت معاشی اشاریے کاروباری شعبوں سے متعلق محکموں میں اصلاحات کا نتیجہ ہیں؟۔یہ بہت اہم سوالات ہیں۔ کیونکہ ماضی میں نظر آنے والی ترقی عارضی تھی۔ جس کا انحصار کبھی قرضوں پر تھا تو کبھی امداد پر۔ ایسی ترقی کے ادوار پانی کے بلبلوں سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوئے ۔ ایسے ادوار میں ایک خاص طبقہ مال بناتا ہے ۔ جس کا نتیجہ امیر اور غریب میں مزید فرق کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے ۔ اس لیے موجودہ حکومت کے باقی ماندہ دو سال کافی اہمیت کے حامل ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو سابقہ برسوں کی ناپائیدار ترقی کے برعکس اب ملکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کر کے پائیدار ترقی کی بنیادیں رکھنا ہوں گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے بہت ضروری ہے کہ حالیہ مثبت اشاریے نہ صرف قائم رہیں بلکہ ان کا براہ راست اثر عام لوگوں کی زندگیوں پر بھی پڑے ۔ اگلے بجٹوں میں صوبوں پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کیونکہ سماجی شعبے کے مقاصد کا حصول صوبوں کی ذمہ داری ہے،وفاقی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان اہداف کے حصول کیلئے مناسب گائیڈ لائنز جاری کرے۔صوبوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے شہریوں کی مشکلات کے مد نظر رکھتے ہوئے فراہمی آب، نکاسی آب، تعلیم، صحت اور غربت کو مٹانے والے اقدامات کریں۔ کیونکہ صوبوں کی کمزوریاں بھی وفاق کیلئے مشکلات کا باعث بن رہی ہیں۔ تعلیمی شعبے کو ہی دیکھ لیجئے۔ انقلاب لانے کی باتوں کے باوجود ملک بھر میں گزشتہ چھ برسوں میں دس برس سے اوپر کے لڑکوں کی شرح خواندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ،یہ بدستو 60فیصد ہے۔ پنجاب میں چھ برسوں کے دوران دس برس سے اوپر کے لڑکوں کی شرح خواندگی کا تناسب ایک فیصد اضافے کے ساتھ 64 فیصد، کے پی کے میں دو فیصد اضافے کے ساتھ 55فیصد اور بلوچستان میں دو فیصد اضافے کے 46فیصد ہو گئی ہے۔ جبکہ سندھ میں یہ تناسب 60 فیصد سے کم ہو کر58فیصد رہ گیا ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان 7 فیصداو رخیبر پختونخوا میں 6 فیصداور پنجاب اور سندھ میں ایک ایک فیصد بہتر ہوئی ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو 2023 ء کے انتخابات جیتنا مشکل ہو جائے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

مجید امجد اداس لمحوں، اداس شاموں کا شاعر

تعارف: اپنی شاعری سے اْردو نظم کو نیا آہنگ بخشنے والے مجید امجد29 جون1914ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے،اصل نام عبدالمجید تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد شعبہ صحافت سے کریئر کا آغاز کیا، بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔1934ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔

پاکستان کا دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ:ٹی 20 ورلڈ کپ سے قبل مزید امتحان

آئی سی سی مینزٹی20 ورلڈ کپ میں صرف 27دن باقی رہ گئے ہیں۔کرکٹ کے ان مقابلوں میں شامل تقریباً تمام اہم ٹیمیں اپنے حتمی سکواڈز کااعلانکرچکی ہیں لیکن گرین شرٹس کے تجربات ابھی تک ختم نہیں ہوسکے۔

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت