یوم بحریہ ، آپریشن دوارکا : پاک بحریہ کے عزم ، ہمت اور حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت

تحریر : خالد فاروق


8 ستمبر کی رات بارہ بج کر چھبیس منٹ پر فائر کا حکم ملا اور پاک بحریہ کی آگ اگلتی توپوں نے منٹوں میں دوارکا بندر گاہ، ریڈار اسٹیشن اور رن وے تباہ کر دیااس دوران پاک بحریہ کے 100سے زیادہ توپوں کے دھانوں سے جب گولوں کی بارش کی گئی تو دشمن کی توپیں ٹھنڈی پڑ گئیں

قوموں کی تاریخ میں کئی آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔ یہ آزمائشیں دراصل اس قوم کی شجاعت، ہمت، حوصلے، وقار اور حب الوطنی کا امتحان ہوتی ہیں اور صرف وہی قومیں ہر امتحان میں سرخرو ہوتی ہیں جن کا ایک ایک فرد اور ادارہ اپنے وطن کی حفاظت اور سر بلندی کیلیے جان لڑا دے۔ مملکت خدا داد پاکستان کو اپنے قیام سے ہی مختلف النوع آزمائشوں کا سامنا رہا ہے لیکن 1965 کی پاک بھارت جنگ پاکستان کی تاریخ کا سب سے کٹھن امتحان تھا۔ ستمبر 1965 میں ہم سے کئی گنا بڑی فوج اور بے پناہ اسلحہ رکھنے والے دشمن ملک بھارت نے 6 ستمبر کی رات کو وطن عزیز پر کئی محاذوں سے حملہ کر دیا۔ دشمن کا خیال تھا کہ پاکستان اس کیلیے تر نوالہ ثابت ہو گا جسے وہ با آسانی نگل لے گا لیکن شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا پالا کس شیر دل قوم سے پڑا ہے۔ پاکستان بھارت کیلئے حلق کا کانٹا ثابت ہوا۔اور سترہ روز جاری رہنے والی جنگ میں افواج پاکستان نے اپنی بے پناہ قربانیوں اور کامیابیوں سے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔

جہاں حملہ آور فوج کو پاکستان کی بری اور فضائی افواج سے ہزیمت اٹھانی پڑی وہیں اسے پاک بحریہ کے ہاتھوں لگایا گیا زخم یاد رہے گا۔ 1965 کا معرکہ پاکستانی قوم کے عزم، ہمت اور جواں مردی کا کڑا امتحان تھا۔ دشمن اپنی عددی برتری کے زعم میں یہ بھول گیا تھا کہ فوج بڑی ہونے سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ جنگ جیتنے کیلئے جذبے، حوصلے اور ارادے بڑے ہونے چاہئیں۔ دشمن کی چالوں اور عزائم کو ناکام کرنے کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ دشمن سے ہمیشہ ایک قدم آگے رہیں۔ اگر آپریشن دوارکا کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو پاک بحریہ کی جنگی مہارت اور حکمت عملی پر داد دیے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ 1965 کی جنگ میں پاک بحریہ کو پہلی بار جنگی سطح پر اپنی پیشہ ورانہ قابلیت دکھانے کا موقع ملا اور اپنے پہلے آپریشن سے ہی پاک بحریہ نے اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منوا لیا۔ 

آپریشن سومنات، آپریشن دوارکا کے نام سے مشہور ہے۔ دوارکا آپریشن پاک بحریہ کی طرف سے بھارتی شہر گجرات کے ساحلی قصبے دوارکا پر حملے کی داستان ہے۔ دوارکا میں بھارت کی بحری بندر گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ریڈار سسٹم نصب تھا جس کی مدد اور راہنمائی سے بھارتی ہوائی فوج پاکستان کے مختلف شہروں خاص طور پر کراچی جیسے اہم تجارتی و معاشی مرکز پر فضائی حملے کر رہی تھی۔ کراچی شہر بندر گاہ کی وجہ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس کی فوری حفاظت یقینی بنانا پورے ملک کیلئے بے حد اہم تھا۔ اس لیے شہر قائد کو بھارتی حملوں سے محفوظ رکھنے اور دشمن فوج کے حوصلے پست کرنے کیلئے دوارکا بندر گاہ اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یوں تو بھارت کی تمام افواج کے پاس پاکستان کی نسبت زیادہ اسلحہ تھا مگر پاک بحریہ کو اپنی غازی آبدوز کی بدولت بھارتی بحریہ پر فوقیت حاصل تھی۔ اس وقت تک بھارت کے پاس آبدوز نہیں تھی پاکستان نے اپنی اس برتری کا استعمال کرتے ہوئے غازی آبدوز کو گہرے پانیوں میں تعینات کر دیا۔ غازی آبدوز کی زمہ داریوں میں بھارتی بحریہ کے بڑے جنگی جہازوں اور طیارہ بردار بیڑے’وکرانت‘ سے نپٹنا تھا۔ غازی آبدوز کا بھارتی بحریہ پہ اتنا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے اپنے طیارہ بردار بیڑے ’وکرانت‘ کو محفوظ رکھنے کیلئے اسے سات سو کلومیٹر دور جزائر انڈمان میں لے جا کر چھپا دیا۔ اس کے علاوہ غازی آبدوز کی دہشت سے بھارتی بحریہ کے کسی جنگی جہاز کی کھلے سمندر میں نکلنے کی ہمت نہ ہوئی۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا کوئی بھی بحری جہاز غازی آبدوز سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ 

اپنی اس حکمت عملی کی کامیابی کے بعد پاک بحریہ نے ایک اور جرات مندانہ فیصلہ کیا۔ پاک بحریہ نے کراچی سے 350 کلومیٹر دور دوارکا بندر گاہ پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ پاک بحریہ نے سات بحری جنگی جہازوں شاہ جہاں، بدر، بابر، خیبر، جہانگیر، عالمگیر اور ٹیپو سلطان پر مشتمل بیڑا تیار کیا جس کی قیادت کمانڈر پاکستان فلیٹ کموڈور ایس ایم انور کر رہے تھے۔ 7 اور 8 ستمبر کی رات بحری بیڑے نے اپنا سفر شروع کیا ان کا مشن رات کے اندھیرے میں دوارکا بندر گاہ اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنا تھا۔ پاک بحریہ کا بحری بیڑا رات کی تاریکی میں ریڈیو سگنلز استعمال کیے بغیر آگے بڑھ رہا تھا کیونکہ ریڈیو سگنلز استعمال کرنے سے دشمن کو پاک بحریہ کے منصوبے کی بھنک پڑ سکتی تھی اس لیے سمت کا تعین کرنے کے دیگر طریقے استعمال کیے گئے۔ جب پاکستان کا بحری بیڑا دوارکا کے قریب ایسی پوزیشن پر پہنچ گیا جہاں سے پورا شہر پاکستانی توپوں کی زد میں تھا تب تک رات کے بارہ بج چکے تھے۔ 8 ستمبر کی رات بارہ بج کر چھبیس منٹ پر فائر کا حکم ملا اور پاک بحریہ کی آگ اگلتی توپوں نے منٹوں میں دوارکا بندر گاہ، ریڈار اسٹیشن اور رن وے تباہ کر دیا۔ مشن مکمل کرنے کے بعد پاکستان کا بحری بیڑا پورے اطمینان اور حفاظت سے واپس لوٹ آیا۔ اس حملے اور غازی آبدوز سے دشمن اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوا کہ ان کے کسی جہاز نے پاکستان کے بحری بیڑے کا پیچھا تک نہ کیا۔

پاک بحریہ کی طرف سے 1965ء کی جنگ میں کیا جانے والا یہ دوارکا آپریشن پاکستان کی تاریخ کا ایک انمٹ باب اور پاک بحریہ کی پیشہ ورانہ کارکردگی کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔ اس کامیابی کی وجہ سے ہر سال 8 ستمبر کو یوم بحریہ منایا جاتا ہے اور آپریشن دوارکا میں حصہ لینے والوں کے عزم اور حوصلے کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی وطن عزیز کے دفاع اور وقار کی حفاظت کیلئے ہر لمحہ تیار رہنے کا عزم کیا جاتا ہے۔ 1965 کے بعد 1971 کی جنگ میں بھی پاک بحریہ نے وطن عزیز کے دفاع اور مشرق پاکستان میں بری فوج کی مدد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جنگوں میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوانے کے علاوہ پاک بحریہ ہر وقت ملکی وقار کی بلندی اور وطن عزیز کی سلامتی کیلئے تیار نظر آتی ہے۔ پاک بحریہ کمبائنڈ ٹاسک فورس 150اور 151 کا حصہ ہے جس کا مقصد میری ٹائم سیکیورٹی، بحری قزاقی اور سمندر میں دہشت گردی کی روک تھام کو یقینی بنانا ہے۔ سی پیک کے تناظر میں پاک بحریہ کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں جنہیں پاک بحریہ بطریق احسن نبھا رہی ہے۔میری ٹائم سیکٹرمیں  امن واستحکام کے قیام کے لیے پاک بحریہ نے ریجنل میری ٹائم سیکیورٹی پٹرول جیسے اہم اقدامات کیے ہیں جنھیں بین اقوامی سطح  پر بحری تحفظ کے فروغ کے لیے بہت سراہا جارہا ہے۔ 

پاک بحریہ : سمندری سرحدوں

 کی حفاظت کی محافظ

بری اورفضائی فوج کی بہادری کے کارنامے ابھی ماند نہ پڑے تھے، کہ پاک کی تیسری قوت بحریہ نے بھی اپنے سے کئی گنا بڑی بحریہ کو ناک و چنے چبوا دیے۔ پاک بحریہ نے دفائی حکمت عملی اپنانے کی بجائے جارحانہ جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ پاک نیوی نے 7ستمبر کی صبح 175میل دور اپنے حدف دوارکا کی طرف شروع کیا تو بحیرہ عرب کی بھپری ہوئی موجیں بھی اس کے راستے سے ہٹ گئیں۔اس دوران پاک بحریہ کے 100سے زیادہ توپوں کے دھانوں سے جب گولوں کی بارش کی گئی تو دشمن نے بھی مزاحمت کی مگر جلد ہی اس کی توپیں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ نصف شب کو جب پاک بحریہ کا بہادر بیڑہ اپنے ہدف تک پہنچاتو سمندر کی مؤجوں کا شور ان کی توپوں کے شور میں گم ہو گیا، اور 12گھنٹے کے کلیل عرصے میں پاک بحریہ کا بیڑا اپنا مشن مکمل کر کے واپس پہنچ چکا تھا۔ بمبئی جو کہ بھارتی بحریہ کا مرکزی ہیڈ کوارٹر تھا اس کو پوری جنگ میں پاک بحریہ کے صرف ایک بیڑے غازی نے گھیرے رکھا۔ سمندری پانیوں میں ایسی حکمرانی کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ پاک بحریہ بری اور فضائی فوج کے شانہ بشانہ دشمن کے ہر محاذ کو نشانہ بنا کر نست و نابود کر دہی تھی۔ پاک بحریہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ دشمن کی بحریہ اپنے علاقے سے باہر ہی نہ نکل پائی، یوں سمندروں کی لہروں اور ان کی گرجدار آوازوں پر صرف پاک بحریہ کی حکمرانی تھی۔

پاک بحریہ کا خطے میں امن کیلئے کردار

پاک بحریہ نے ہر مشکل وقت میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کی ہیں اور ہمیشہ اپنی مہارت کا لوہا منوایا ہے۔ اسکا اعتراف دنیا بھر میں ہر سطح پر کیا جاتا ہے۔پاک بحریہ نے ناصرف علاقائی امن کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا بلکہ بین الاقوامی امن کے قیام کیلئے بھی اس کا اہم کردار رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا میں اپنے کردار کی وجہ سے پاک بحریہ دنیا بھر میں مقبول و معروف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاک بحریہ بیحرہ عرب میں اطراف میں چاک و چوبند ہے۔ یہ علاقے خلیج فارس ، مشرق وسطیٰ اور بیحرہ احمد سے منسلک ہونے کی وجہ سے اہم و حساس  ترین علاقے شمار کیے جاتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ خلیج فارس کے وانائی کے ذرائع ( تیل و گیس) ہیں جن کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی صورتحال،مشرق وسطیٰ کے جنگی حالات کی وجہ سے یہ بحری علاقہ خصوصی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر رشید خان کہتے ہیں کہ اس وقت ان علاقوں میں امریکہ ، برطانیہ، فرانس اور چین کے بھی بحری اڈے قائم ہیں۔ امریکہ ان سمندروں میں بھاری بحری قوت جمع کرچکا ہے اور کررہا ہے جبکہ امریکی اتحادی بھی موجود ہیں جو  عراق و شام کی جنگوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

پھر پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے بھی اس بحری حصہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس راہداری کا جنوبی ٹرمینل گوادر میں ہیں جو ایک بڑا ساحلی علاقہ ہے۔ اس راہداری کے تکمیل کے بعد بیحرہ عرب، خلیج عدن ، اور ہارن آف افریقہ کے علاقوں میں بحری جہازوں کی آمدوفت میں زبردست اضافے کی توقع ہے۔ڈاکٹر رشید خان کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ نا صرف علاقائی ممالک بلکہ اس خطے سے باہر کئی ملکوں کے لیے بھی متعدد چیلنج ابھر رہے ہیں اور ان چیلنجز میں بحری دہشت گردی اور اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ اہم ایشوز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان آبی شاہراہوں کا مسئلہ بین الاقوامی نوعیت کا مسئلہ بن جائے گا۔ اس تناظر میں دنیا بھر کی نظریں پاک بحریہ پر لگی ہوئی ہیں اور دنیا اسے ایک مسیحا کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔