قائداعظم محمد علی جناحؒ کے آخری لمحات ،ہمت و استقامت کی لازوال داستان
ڈاکٹر الٰہی بخش کہتے ہیں کہ ’’ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ میرے جذبات سے غمگین ہو جائیں گے۔ میں ان کا وہ لہجہ کبھی نہیں بھول سکتا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ میں اپنا کام پورا کر چکا ہوں‘‘۔یہ الفاظ ادا کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘‘
قائد اعظم محمد علی جناح کاآج 73واں یوم وفات ہے۔ ایک ایسے عظیم لیڈر کا یوم وفات جس کی زندگی پاکستان کی بے لوث خدمت میں گزری ہو۔تاریخ کا ایک ایساعظیم کارنامہ جس نے تاریخ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔قیام پاکستان میں حائل رکاوٹیں ہو ں یا اس کے بعد کے مسائل قائد اعظم نے اپنی صحت اور جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اپنی قیادت کے محض تیرہ ماہ کے دوران جبکہ آپ کی طبیعت سخت خراب تھی قائد اعظم نے ہر محاذ پر پاکستان کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کیا۔ ہندو اور انگریز اس انتظار میں تھے کہ پاکستا ن پھر سے بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست کردے گا ،اس خواب کو چکنا چور کرناہی قائد اعظم کی عظیم قیادت کا کرشمہ تھا۔
قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کیلئے ایک عظیم سانحہ تھی، جس کا ثبوت ان دنوں آنے والے تعزیتی پیغامات سے لگایا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کے شہنشاہ کنگ جارج نے محترمہ فاطمہ جناح کے نام ایک تعزیتی پیغام میں لکھا ’’مجھے اور ملکہ کو آپ کے عظیم بھائی، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے انتقال کی خبر سن کر شدید صدمہ پہنچا ہے، یہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے‘‘۔امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ جارج مارشل نے کہا ’’قائداعظم محمد علی جناح ان رہنماؤں میں ممتاز تھے جو اپنے مقصد سے غیر مشروط وابستگی اور اس پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے‘‘۔
14جولائی 1948کا دن تھا جب قائد کی طبیعت بہت زیادہ بگڑنا شروع ہو گئی، جس کے پیشِ نظر آپ کو کوئٹہ سے زیارت منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد مملکتِ خداداد پاکستان کا یہ عظیم رہنما صرف 60دن زندہ رہا۔ قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’’مائی برادر‘‘ میں لکھا ہے زیارت منتقل ہونے کا فیصلہ قائد اعظم کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ سرکاری و غیر سرکاری مصروفیات کی وجہ سے قائداعظم آرام نہ کر پا رہے تھے۔ قائد اعظم کو مسلسل دعوتیں موصول ہو رہی تھیں کہ وہ اجتماعات میں شرکت و خطاب کریں، مگر قائداعظم کی طبی حالت اس بات کی اجازت نہ دے رہی تھی۔ زیارت پہنچنے کے بعد انہوں نے اپنے علاج پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ انہی دنوں فاطمہ جناح کو اطلاع ملی کہ مشہور ڈاکٹر ریاض علی شاہ کسی مریض کو چیک کرنے زیارت آ رہے ہیں ، انہوں نے قائد اعظم کو کہا کیوں نہ آپ کا چیک اپ ڈاکٹر ریاض علی شاہ سے کروا لیا جائے۔ جرات اور ہمت کے اس سپاہی نے یہ کہہ کر اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ انہیں کوئی سنگین مرض لاحق نہیں، صرف معدہ خوراک ہضم نہیں کر پا رہا۔ وہ جلد دوبارہ صحت یاب ہو جائیں گے۔ وہ ڈاکٹروں کے مشوروں سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔ لاہور کے ممتاز فزیشن ڈاکٹر الٰہی بخش کی ہدایات پر قائد اعظم محمد علی جناح کے ٹیسٹ کیے گئے۔ ٹیسٹ رپورٹس کے مطابق قائد اعظم تب دق کے مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے یہ بات سب سے پہلے فاطمہ جناح کو بتائی۔ ڈاکٹر الہٰی بخش نے جناح کو بتایا کہ آپ تب دق کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں تو جناح نے جواب دیا ڈاکٹر یہ تو میں بارہ برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے نہیں ظاہر کیا کہ ہندوکہیں میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں ۔ ایک مشہور کتاب ’’فریڈم اینڈ مڈ نائٹ‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر اپریل 1947ء میں مائنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا پتا چلتا جو بمبئی کے مشہور طبیب ڈاکٹر جے ایل پٹیل کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو ہندستان کبھی تقسیم نہ ہوتا، اور ایشاء کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ بہہ رہا ہوتا۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایکس رے فلم تھی۔جس کے اوپر دو بڑے بڑے نشانات تھے۔ ان نشانات سے واضح ہو گیا تھا کہ وہ تب دق کے مریض ہیں۔ ڈاکٹر پٹیل نے جناح کو کہا تھا کہ آپ کا علاج اور صحت کیلئے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کے آپ آرام کریں۔ مگر قائد اعظم کے پاس وقت کم تھا اور کام زیادہ تھا۔ وہ کبھی بھی باقاعدگی کے ساتھ اپنا علاج نہ کر وا سکے۔ ماؤنٹ بیٹن نے خاصے طویل عرصے بعد لیری کولنز اور ڈومینک لاہپیر کو ایک انٹرویو میں کہا کہ’’ مسلمانوں کے پاس صرف جناح کی صورت میں ایک طاقت تھی۔ اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا کہ وہ کم عرصے میں فوت ہو جائیں گے تو میں ہندوستان کو کبھی تقسیم نہ ہونے دیتا‘‘۔ کیونکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کے گٹھ جوڑ نے ساری تیاری اسی کو مد نظر رکھ کر کی تھی۔آزادی کے وقت سب سے بڑا مسئلہ باونڈری کمیشن کا تھا۔ ریڈ کلف، نہرو اور ماؤنٹ بیٹن نے تمام تر پلاننگ سے کام لیااور آزادی کے وقت ریاستوں اور شہروں کی تقسیم کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ پاکستان کو جغرافیائی اور معاشی لحاظ سے زیرِ نگیں رکھاجاسکے۔ جوناگڑھ اور کشمیر کا مسئلہ پیدا کیاگیا۔ قائداعظم نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں سرحدوں کے تعین کی تجویز دی تھی یا برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے تین ممبران کی کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی جس کو نہرو نے رد کردیاتھا۔ اس کا نتیجہ جلد ہی سب پر واضح ہو گیاتھا کہ قائد اعظم کیوں اس کے مخالف ہیں۔ بھارت نے جوناگڑھ پر قبضہ کر لیا تھا۔حالانکہ جوناگڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے یہ درخواست ستمبر 1947میں منطور کی تھی۔اصولوں اور ضوابط کے پابند قائداعظم اصولی مؤقف کے تحت اس مسئلہ کا حل چاہتے تھے۔ لیکن بھارت نے جونا گڑھ پر قبضہ کر کے اس پر استصوابِ ِرائے کا ڈرامہ رچایا اور جوناگڑھ سمیت سر کر یک اور ملحقہ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
29اگست 1948کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا ایک مرتبہ پھر معائنہ کیا ۔ انہوں نے قائد سے کہا کہ’’ جس ریاست کو آپ وجود میں لائے ہیں اسے پوری طرح مستحکم کرنے کیلئے دیر تک زندہ رہیں‘‘۔ ڈاکٹر الہٰی بخش کہتے ہیں کہ’’ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ میرے جذبات سے غمگین ہو جائیں گے۔ میں ان کا وہ لہجہ کبھی نہیں بھول سکتا، جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ میں اپنا کام پورا کر چکا ہوں‘‘۔ یہ الفاظ ادا کرتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘‘۔ 10ستمبر 1948کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو بتایا کہ ’’جناح کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں رہی۔ وہ چند دنوں کے مہمان ہیں‘‘۔اسی دن جناح پر بیہوشی کا غلبہ ہوا۔ وہ بڑبڑا رہے تھے ’’کشمیر۔۔۔۔۔ انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو۔۔ آئین۔۔۔ میں اسے مکمل کروں گا۔۔۔مہاجرین ہر ممکن۔۔ ۔۔ مدد دو‘‘ جیسے الفاظ ادا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
11ستمبر1948 کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے ساتھ تاریخ کا سنہری باب بند ہو گیا۔ 12ستمبر ہفتے کے دن حکومتِ پاکستان نے اعلان کیا کہ ہفتہ 11ستمبر 1948کی رات پاکستان کے بانی و معمار قائداعظم محمد علی جناح حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کا جنازہ کراچی میں نمائش کے میدان پر ادا کیا جائے گا۔ قائداعظم کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی پڑھائیں گے۔ کراچی سے لاہور، راولپنڈی سے خیبر اور سلہٹ سے ڈھاکہ پورے ملک کے لوگ غمگین تھے اور سات لاکھ سے زائد آبادی والا دارالخلافہ کراچی مکمل سوگ میں ڈوب چکا تھا۔ تمام کاروباری زندگی بند تھا اور ملک میں چالیس روزہ سوگ کا اعلان کر دیا گیاتھا۔ قائداعظم کے جسدِ خاکی کو کندھا دینے والوں میں وزیرِ خارجہ ظفر اللہ خان، سردار عبدالرب نشتر، لیاقت علی خان، پیر الٰہی بخش اور عبدالستار شامل تھے۔ لوگوں کا سمندر اپنے محبوب قائد کا آخری دیدار کرنے کیلئے گورنر جنرل ہاؤس کے اطراف میں امڈ آیا تھا۔ قائد کا جسدِ خاکی گورنر ہاؤس کے صحن میں رکھا گیا۔ لوگوں نے فرطِ جذبات سے گورنر ہاؤس کے دروازے تک توڑ دیے۔ پولیس اور فوج لوگوں پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہی تھی۔ گھنٹوں کوشش کے بعد میلوں لمبی قطاریں بنائی گئیں۔ سردار عبدالرب نشتر اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے اور زارو قطار روتے رہے۔ سفید لباس زیبِ تن کیے لال آنکھوں کے ساتھ قائد کی ہردل عزیز بہن محترمہ فاطمہ جناح صبح ہی سے رو رہی تھیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے قائد کی صاحبزادی مس واڈیا نے ان کو کافی تسلی دی اور ان کا حوصلہ بندھایا۔ قائد کے بھتیجے اور ان کی بیوی مس فاطمہ ولی بھی فاطمہ جناح کو تسلی دینے والوں میں شامل تھے۔ جوں ہی قائد کا جسدِ خاکی گورنر جنرل ہاؤس کے دروازے پر پہنچا تو لوگ ہچکیوں سے رو رہے تھے۔ لوگ احترام کے ساتھ اس گاڑی کے دونوں اعتراف پر کھڑے ہو گئے، جس پر قائد کی میت کو لیجایا جا رہا تھا۔دن کے تین بج چکے تھے، قائد کے جسدِ خاکی تو اب ایک توپ لے جانے والی گاڑی پر رکھ دیا گیا۔ بری، فضائیہ اور شاہی بحریہ کے جوان گاڑی کے ارد گرد موجود تھے۔ اس گاڑی کو پاک بحریہ کا ایک سپاسی چلا رہا تھا۔ گاڑی کے پیچھے دو کاروں میں محترمہ فاطمہ جناح اور قائد کی بیٹی موجود تھیں۔ قائد اعظم کی اکلوتی بیٹی اسی دن خصوصی طیارے سے بمبئی سے کراچی پہنچی تھیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ لاکھ لوگ اپنے محبوب قائد کے آخری دیدار کیلئے موجود تھے۔ شام ساڑھے چار بجے جنازہ نمائش کے میدان پر پہنچ گیا۔جناز گاہ میں لاکھوں کا مجمع تھا، جس میں وزیراعظم پاکستان لیاقت علی کے ساتھ کابینہ کے وزراء اور متعدد اسلامی ممالک کے سفیر موجود تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب عظیم قائد اپنی قوم میں موجود نہیں مگر قائد اعظم کی ہدایات اور جذبہ پاکستان کیلئے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا۔ قائد اعظم کی وفات پاکستان ہی نہیں امتِ مسلمہ کا بھی بہت بڑا نقصان تھا۔ قائد اعظم کے جسدِ خاکی کو لیاقت علی خان اور دیگر وزراء نے لحد میں اتارا۔ لاکھوں کا غمگین مجمع کلمہ طیبہ کا ورد کرتا ہوا اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو گیا۔