مستعفی مصباح الحق کی 2سالہ کارکردگی کا جائزہ

تحریر : محمد احمد رضا


پاکستان کرکٹ میں مرد بحران سمجھے جانے والے مصباح الحق کا ہیڈکوچ سے اچانک مستعفی ہونا الٹا کھیل اور ٹیم کے لیے بحران کا باعث بنا۔ ٹی 20 ورلڈکپ سے ایک ماہ اور گیارہ دن کی دوری پر ٹیم سے علیحدہ ہو جانا مضبوط اعصاب کے مصباح الحق سے توقعات کے برعکس ثابت ہوا۔

 47 سالہ سابق کپتان اور کوچ نے اپنے پورے کیرئر کے ہر رول میں شدید تنقید کے باوجود بڑے چیلنجز قبول کیے اہداف عبور کرتے ہوئے کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔ دوہزار ایک میں ڈیبیو اور تین سال بعد تین سال تک نظر انداز ہونے والے مصباح الحق ہمت نہ ہارے، موقع ملنے پر گویا چھا سا گئے، اپنے دفاعی اور دھیمے انداز کے ساتھ ٹیم کا مستقل حصہ رہے، اگست 2010 کے لارڈز ٹیسٹ میں فکسنگ سکینڈل کے بعد نظروں اور مورال سے گری ٹیم کی قیادت سنبھالنا ، کامیابیوں میں تسلسل لانا، انگلینڈ میں تاریخی کامیابیا ں سمیٹنا اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹیسٹ ٹیم کو نمبر ون بنانا مصباح الحق کا بڑا کارنامہ تھا۔ کسی ایک سنچری کے بغیر 162 ون ڈے میچز کھیل کر کھیل سے ریٹائر ہوجانا اور اچانک ایک ہی نہیں ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر جیسے دو بڑے عہدے قبول کرنا کہاں آسان تھا لیکن مرد بحران میدان میں آئے۔ ایسے ایسے بھنور میں سرخرو ہونے والے مصباح الحق سے توقع کی جا رہی تھی ان کے بطور پلیئر، کپتان اور اب چیف سلیکٹر و ہیڈ کوچ بڑے ناقد رمیز راجہ جب چیئرمین پی سی بی نامزد ہوئے تو وہ ان کے سامنے بھی ڈٹ جائیں گے، پرفارم کر کے دکھائیں گے، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ، اچانک سے یعنی 6ستمبر 2021 کو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز اور ٹی 20 ورلڈکپ کیلیے 15ر کنی قومی سکواڈ کا اعلان کے فورا بعد صرف مصباح الحق ہی نہیں باؤلنگ کوچ وقار یونس کے مستعفی ہو جانے سے گویا پاکستان کرکٹ میں بھونچال سا آ گیا۔ 

اس میں مصباح الحق نے موقف اختیار کیا کہ جمیکا میں 10 روزہ قرنطینہ کے دوران انہوں نے اپنے دو سالہ کارکردگی کا خوب جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ اب وہ اس سیٹ اپ میں کام جاری نہیں رکھیں گے، فیملی کو وقت دیں گے۔ حالانکہ اطلاعات یہ ہیں کہ پہلے ون ڈے اور اب ٹی 20 سکواڈ کے اعلان کرنے میں مصباح الحق کی اِن پْٹ نہ لینا انہیں ناگوار گزرا اور وہ یہ کر گزرے۔ مصباح الحق بطور ہیڈکوچ اب ماضی کا حصہ بن گئے اس پر مزید بحث تو نہیں لیکن ان کے دو سال اور 2 روزہ کیرئر پر نظر ضرور ڈالنی چاہیے کہ آئندہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے والے عبوری کوچ ثقلین مشتاق و عبدالرزاق اور آنے والے مستقل کوچ کو اپنے ٹارگٹ سیٹ کرنا آسان ہو جائے۔ 

مصباح الحق نے 24 ماہ میں تینوں فارمیٹ کے کل 61 میچز میں بطور ہیڈ کوچ نمائندگی کی۔ 29 جیتے، 23 میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایک مقابلہ برابر رہا، تین ڈرا ہوئے اور 5 بے نتیجہ رہے۔ اس دورانیے میں قومی ٹیم نے سب سے زیادہ 34 ٹی 20 میچز کھیلے، 16 میں کامیابی سمیٹی ، 13 میں شکست ہوئی۔ سب سے کم 11 ون ڈے میچز ہوئے ، 6 میں کامیابی ملی اور 4 مقابلے ہارے جبکہ ایک ون ڈے بے نتیجہ رہا۔ اسی طرح 16 ٹیسٹ میچز میں 7 جیتے ، 6 ہارے جبکہ 3 ڈرا ہوئے۔ چلتے چلتے رینکنگ کی بھی بات ہو جائے ، اس وقت قومی ٹیم ٹیسٹ کی پانچویں ، ون ڈے میں چھٹی اور ٹی 20 کی نمبر تین ٹیم ہے۔ اس عرصہ میں سری لنکا کے خلاف تاریخی ہوم سیریز، بنگلادیش و زمبابوے کی میزبانی کرنا اور جنوبی افریقہ کے بعد انگلینڈ کا دورہ کیا۔ ابھی انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف جا کر سیریز کھیلنا آخری دورے ثابت ہوئے۔ 

بطور چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ سب سے بڑا امتحان آپ کی کرکٹنگ نظر، سوچ اور دوراندیشی کا ہوتا ہے اس حوالے سے مصباح الحق کے انتخاب اور تجربات زیادہ کامیاب نہ ہوئے۔ ایک ٹیسٹ پلیئر عابد علی نے ڈیبیو کیا، ون ڈے کے 7 اور ٹی 20 کے 12 نئے پلیئرز نے انٹرنیشنل کیرئر کا آغاز کیا۔ خوشدل شاہ، محمدموسیٰ، احسن علی، حارث رؤف ، حیدر علی ، عثمان قادر، عبداللہ شفیق، زاہد محمود، دانش عزیز ، ارشد اقبال ، اعظم خان اور محمد وسیم جونیئر کے انتخاب کے باوجود سینئر کھلاڑیوں شعیب ملک، وہاب ریاض اور محمد عامر کو ٹی 20 ورلڈکپ میں ممکنہ طور پر نمائندگی دینے کا خواب چکنا چور ہی نہیں ہوا بلکہ مصباح الحق کے دور کی ناقص سلیکشنز الٹا ان کے انتخاب پر بڑا سوال بن گئیں۔

نیوزی لینڈ کے 18 سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ مصباح الحق کی اپنی یادداشت یہ شیریں و تلخ ہے کہ آخری بار جب اکتوبر 2002 میں 5 ون ڈے میچز کھیلنے ہماری سرزمین پر آئے تو اس یہ مصباح الحق کے لیے بطور پلیئر و بیٹسمین ڈیبیو سیریز بنی اور اب کیویز کی آمد ان کے بحثیت مستعفی ہیڈ کوچ ریکارڈ کا حصہ بن گئی ہے۔ 

ان کڑوی کسیلی یادوں میں ایک اور اضافہ ہو جائے کہ وزیر اعظم پاکستان اور پیٹرن اِن چیف پاکستان کرکٹ بورڈ عمران خان کے ویژن کے مطابق ڈومیسٹک سٹرکچر کو قابل عمل بنانا احسان مانی اور مصباح الیون کے لیے بڑا امتحان تھا۔ ستمبر 2020 کی وزیر اعظم سے میٹنگ اور اس میں منظورنظر مصباح الحق کا بگ باس عمران خان کے نظرئیے کے برعکس ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی وکالت مصباح الحق اور اظہر علی کو مہنگی پڑی۔ سٹار بلے باز کو کپتانی اور مرد بحران کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ 4ستمبر 2019کو پاکستان کرکٹ بورڈ میں سلیکشن اور کوچنگ کی الف ب سے بھی نابلد مصباح الحق کو ڈان بنائے جانے کی الٹی گنتی اسلام آباد کی اسی ملاقات کے بعد شروع ہو گئی تھی۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔