عہد نبوی ﷺ کے بنیادی اصول اور تعلیم و تربیت ، آپﷺنے تعلیم کو انسان کا اولین حق اور مسلمان کا فریضہ قرار دیا

تحریر : ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان


مسلمان اس لحاظ سے خوش بخت رہے کہ ان کے حکمرانوں نے تعلیم کو ہمیشہ ہی اولیت دی,قرآن پاک کی پہلی سورۃ میں تعلیم اور قلم کی قدروقیمت کی طرف اشارہ کر دیا گیا

انسان نے اپنی اجتماعی زندگی کے لیے جن اداروں کومنظم کیا اوران کے ذریعے اجتماعی زندگی کے تسلسل کوقائم رکھا ان میں تعلیم کا ادارہ بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے۔ تعلیم دراصل ایک نسل کے تجربات کودوسری نسل میں منتقل کرنے کا نام ہے۔ معلومات بہم پہنچانے کے سادہ سے عمل نے ایک انتہائی پیچیدہ اور وسیع نظام کوبنیاد فراہم کی ہے۔ کسی معاشرے کے اجتماعی شعور اور انفرادی تشخص کے ارتقاء کا دارومدار زیادہ تر تعلیمی اداروں پر ہے جو ماحول تعلیمی درس گاہوں کا ہوگا وہی ماحول کسی نہ کسی طرح پورامعاشرہ اپنائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اپنے تعلیمی نظام اور تعلیمی درس گاہوں کی عظمت پر بہت زور دیتی ہے۔ قومی زندگی میں نظام تعلیم کی وہی حیثیت ہے جو فرد کیلئے اس کے دماغ کی ہوتی ہے۔ نظام تعلیم ہی نسلوں کوکسی بلند نصب العین کی پرواز کرنے کیلئے فکر وحکمت کے بال و پر دیتا ہے۔ اس لیے تعلیم اور نظام ِ تعلیم پر توجہ دینا حکومتوں کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔

مسلم حکمرانوں کی علمی روایت

مسلمان اس لحاظ سے خوش بخت رہے کہ ان کے حکمرانوں نے تعلیم کو ہمیشہ اولیت دی، مسلمانوں میں شاندار علمی روایات کی حامل حکومتیں عہد نبوی ﷺ، خلافت راشد ہ، بنو امیہ، بنو عباس، اندلس، ہندوستان اور خلافت عثمانیہ رہی ہیں۔ ان تمام حکمرانوں کی تعلیمی پالیسی کے بنیادی خدو خال وہی ہیں جو ہمیں عہد نبویﷺ سے ملتے ہیں۔ حضوراکرم ﷺ تاریخ انسانی میں منفرد تحریک تعلیم کے شروع کرنے والے ہیں۔ آپﷺ نے تعلیم کو انسان کا بنیادی حق اور مسلمان کابنیادی فریضہ قرار دیا۔ حضور اکرمﷺ نے تعلیم کو عام کرنے کی جو پالیسی اختیار کی تھی، امت مسلمہ نے اسے ایک ادارے کی صورت میں منظم کیا۔ 

ڈاکٹر محمد حمید اللہؒلکھتے ہیں: ’’علم کے لیے نبی کریمﷺنے جوبنیادیں فراہم کیں اور جس طرح علوم کی سرپرستی کی، مسلمانوں نے بعدکے زمانے میں جو علمی ترقی کی اورجس کے باعث وہ ساری دنیا کے مُعلم بنے اور ساری دنیاکے لوگ عربی کتب کو پڑھ کر جدید ترین تحقیقات سے آگاہ ہوئے، اس کی اساس، ظاہر ہے عہد نبویﷺکی تیارکردہ بنیاد ہی ہو سکتی تھی۔‘‘

نبی کریمﷺ نے علمی دنیاکو تعلیم کے لیے جو بنیادیں فراہم کیں، ان تمام کااحاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے، اس لیے اس مضمون میں اختصارکے ساتھ ان میں سے چند ایک کو بیان کیا جا رہا ہے۔ ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

علم اور ذرائع علم کی اہمیت کا بیان

تعلیم کیلئے علم اور ذرائع علم کی اہمیت سب سے بنیادی امر ہے۔ اسی چیزسے نظریہ تعلیم کی بنیاد بنتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے اس حوالے سے جو بنیاد فراہم کی، وہ آپﷺ پر نازل ہونے والی پہلی وحی سے واضح ہے۔ ’’(اے حبیبﷺ) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہرچیزکو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھئے اور آپﷺ کارب بڑاکریم ہے جس نے قلم کے ذریعے(لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ)سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔

قلم کی اہمیت کا بیان

سیدقطب شہید رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’رب تعالیٰ نے انسان کوتعلیم’’قلم‘‘کے ساتھ دی، کیونکہ اُس وقت بھی اور آج بھی انسان کی زندگی میں قلم اہم اور موثر ذریعہ تعلیم ہے اور اس حقیقت کو جس طرح ہم آج سمجھتے ہیں، نزول قرآن کے وقت اس طرح نہ سمجھتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ تعلیم اورقلم کی قدروقیمت کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ لہٰذا آخری رسول ﷺ کو آخری مشن سپرد کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا اور قرآن کی پہلی سورۃ میں یہ اشارہ کردیاگیا۔

پیرمحمدکرم شاہ الازہری ؒ لکھتے ہیں:اس کی شانِ کریمی کا ایک جلوہ یہ ہے کہ اس نے قلم کو تعلیم کا واسطہ بنا دیا، علم کی نشرواشاعت میں قلم کاجوحصہ ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ قدیم زمانے کے علماء وفضلاء کے علوم کو اگر قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر تحریر نہ کر دیا جاتا تو صدہا سال بعد ہم ان سے کیونکراستفادہ کر سکتے۔ اگر قلم کاواسطہ نہ ہوتا تو آج زمین کے دور دراز گوشوں میں بسنے والے اہل علم کی تحقیقات اور نگارشات سے دُور بسنے والے کیونکر مستفید ہو سکتے۔ یہ قلم ہی کی برکت ہے کہ علم کا کارواں آج ان رفعتوں پرخیمہ زن ہے اورمزیدبلندیوں کو مسخرکرنے کاعزم کیے ہوئے ہے۔

اہل علم کی اہمیت کا بیان

نبی کریمﷺ نے اہل علم کی بھی خصوصی فضیلت بیان فرمائی۔ رسول پاکﷺ کے چند حسب ذیل ہیں:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: زمین پرعلماء آسمان پرستاروں کی طرح ہیں جن سے سمندراورخشکی پر ہدایت حاصل کی جاتی ہے، اور جب ستارے چھپ جائیں گے تو قریب ہے کہ ہدایت حاصل کرنے والے بھٹک جائیں۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عالم کی عابد پر ستر درجہ فضیلت ہے اور ہر دو درجوں کے درمیان آسمان اور زمین جتنا فاصلہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ اورحضرت ابوذررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اگر آدمی علم کا ایک باب پڑھ لے تو وہ میرے نزدیک ہزار نفل پڑھنے سے بہترہے۔ ان دونوں نے کہاکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:جب طالب علم کو طلب علم کی حالت میں موت آجائے تووہ شہید ہے۔

قرآنی آیات اور فرامین نبوی ﷺ سے یہ بات واضح ہوئی کہ تعلیم کے لیے علماء،علم اور ذرائع علم کی خصوصی اور بنیادی اہمیت ہے، اس لیے اسلامی حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اساتذہ اور اہل علم کی فلاح وبہود پر خصوصی توجہ دے، اور ان کو فکر معاش سے آزاد کرنے کی پالیساں بنائے، تاکہ وہ خلوص دل اور ملک و قوم کے جذبہ کے تحت علم کی خدمت کر سکیں۔ علم کے لیے تمام ذرائع کو مثبت انداز فکر میں بروئے کار لائے اور خاص طور پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو علم کے فروغ کا ذریعہ بنائے۔

نظریہ تعلیم کیلئے بنیادی اصول

قوموں کی زندگی میں سب سے اہم مرحلہ نظریہ تعلیم کی تشکیل ہوتا ہے، اسی لیے اسلامی حکومتوں نے اس پر ہر دور میں خصوصی توجہ دی۔ عہد نبوی ﷺ کے خصوصی اقدامات اس پر شاہد ہیں، نظریہ تعلیم سے مراد مقصدِ تعلیم ہے کیونکہ یہ امر انسانی زندگی اور معاشرے پر بہت گہرے اثرات چھوڑتا ہے، بلکہ معاشرے کی تشکیل میں بھی نظریہ تعلیم ہی اہم سنگ میل ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺنے مقصد تعلیم کو خصوصی جہت عطا کی ہے، جس کی وضاحت میں ڈاکٹرخالدعلوی لکھتے ہیں:اسلامی نظریہ تعلیم جامع ہے کہ اس میں انسان کی انفرادی خودی کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی قوت بن کرمعاشرتی اجتماعیت کو نشوونما دے۔ اسلامی نظریہ تعلیم میں تعلیم کے دوپہلوہیں:

۱۔ایک پہلوکے اعتبارسے وہ مختص فردکی اصلاح ہے۔

۲۔دوسرے پہلوکے لحاظ سے وہ ایسی اصلاح ہے جس کانتیجہ معاشرتی بہبودہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم کامقصدمحبت الٰہی کے نصب العین کوآگے بڑھانا ہے۔ ہمارادعویٰ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے اوروہ زندگی کے تمام پہلووں پر اپنی گرفت رکھتا ہے، وہ فردکی انفرادی زندگی اوراس کی حیات اجتماعیہ، دونوں کی اصلاح کا دعوے دارہے، وہ بامقصد زندگی کاداعی ہے۔اس لیے وہ کسی ایسے نظام تعلیم کوبرداشت نہیں کر سکتا جو اس مقصدکے لیے مفید ثابت نہ ہو۔ قرآن نے انسان کاانفرادی اوراجتماعی مقصدواضح کر دیا ہے:’’تم بہترین اُمت ہو جو سب لوگوں(کی رہنمائی)کے لیے ظاہرکی گئی ہے، تم بھلائی کاحکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو‘‘۔اس اعتبارسے تعلیم کا مقصد فردکی ایسی تعمیرسیرت ہے،جس سے وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر کائنات کیلئے رحمت ثابت ہو سکے۔ نبی کریم ﷺنے ایسی تعلیم اورایسے علم سے پناہ مانگی ہے جس کا اثرانسان کی عملی زندگی پرنہ ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اے اللہ!میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتاہوں جونفع نہ دے‘‘۔ علم کی نفع بخشی کیاہے؟بظاہر یوں لگتاہے کہ اس بلیغ انداز سے دور حاضر میں تعلیم کے مقاصدمیں بالعموم درج ذیل نظریات بیان کئے جاتے ہیں:

۱۔تعلیم کامقصدانسانی انفرادیت کی آزادانہ نشوونماہے۔

۲۔تعلیم کامقصداجتماعی نصب العین کے مطابق تربیت ہے۔

مقاصد تعلیم میں تعمیرکردار، مکمل زندگی کے لیے تیاری، اچھے وجود میں اچھے ذہن کی نشوونما،جذبہ قوم پرستی کی تشکیل وغیرہ شامل کئے جاتے ہیں۔ حضورﷺ نے علم کی نفع بخشی کا جو تصور دیا ہے اس میں انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلو شامل ہیں۔احادیث میں وہ تمام تفصیلات موجودہیں جن سے انفرادی واجتماعی تربیت کے تمام اصول نکالے جاسکتے ہیں۔ آپﷺ کے تصور تعلیم کے مطابق ایسے انسان تیارکرناہے جوحب الٰہی،اطاعت رسولﷺ اورخدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوں۔ اسلام کے نزدیک تعلیم کے مقاصد تین ہیں:

۱۔فرد کی اصلاح،تاکہ وہ معاشرے کا سود مند کردار بن سکے۔

۲۔تعمیر شخصیت، تاکہ انسان معرفت نفس، تزکیہ تقویٰ کو پاسکے اور معاشرہ کے لیے سود مند کردار ادا کر سکے۔

۳۔انسان، ذات سے زیادہ قوم و ملک اور اسلام کا خیرخواہ بن سکے۔ 

عصرِ حاضر کی اسلامی حکومتوں کو ان امور پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہماری درسگاہوں سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات کا مطمع نظر صرف انفرادی و مادی منفعت بنتا جارہا ہے، جو کہ ملک و قوم کے لیے نقصان دہ امر ہے، اور نظریہ پاکستان کی نفی ہے۔ 

طلباء کی استعدادو نفسیات کا بنیادی اصول

نبی کریمﷺنے تفاوتِ طبائع واذہان کو مدنظررکھتے ہوئے یہ لازمی امرقراردیاہے کہ ہرکسی کو تعلیم دی جائے اور طبائع واستعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم دی جائے۔ اس کیلئے آپ ﷺ نے خاص طور پر تنبیہ فرمائی۔ طلباء کی طبائع اور استعداد کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف مدارجِ تعلیم ہونے چاہیے اوراسی کے مطابق تعلیم کا اہتمام ہوناچاہیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات و احکام کی روشنی میں حسب ذیل امور کی وضاحت ہوتی ہے۔ 

۱۔طلباء و طالبات کی استعداد اور رجحانات کے مطابق علم کا انتخاب کیا جانا چاہیے اور اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ شعوری سطح کو بلند کرنے کیلئے اقدامات کرے۔ 

۲۔طلباء و طالبات کے لیے اس امر کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے کہ وہ جس مضمون یا میدان کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں وہ عملی طور پر ملک و قوم کے لیے کتنا فائدہ مندہو گا۔

نصاب تعلیم کے لیے بنیادی اصول

حضورنبی کریمﷺنے صحابہ کرامؓ کے لیے نصاب تومطلق رکھا، لیکن ان تمام علوم کے لئے نصاب میں پانچ چیزیں لازم قراردیں۔ 

۱۔تلاوت قرآن، ۲۔تعلیم قرآن، ۳۔تعلیم حکمت،۴۔تزکیہ نفس،۵۔تسویہ

قرآن حکیم کی سورۃ بقرہ(۱۳)اور آل عمران(۱۴) میں انہی مقاصد نبوت کو بیان کیا گیا ہے پھر ان کے مطابق آپﷺنے امت مسلمہ کی تعلیم وتربیت فرمائی اور انہی بنیادی تعلیمی اصولوں پر عہد نبویﷺ کا نصاب تعلیم وتربیت مشتمل تھا:

۱۔ تلاوت قرآن کا اصول، ۲۔تعلیم کتاب کا اصول،۳۔حکمت کا اصول،۴۔تزکیہ نفس کا اصول،۵۔برابری کا اصول

یہ پانچوں چیزیں عہد نبویؐ کے نظام تعلیم و تربیت میں بنیادی اصول کا درجہ رکھتی ہیں۔

 تلاوت قرآن کا اصول

عہد نبویؐ کے نصاب تعلیم کا پہلا اصول تلاوت قرآن ہے۔ تلاوت سے مراد قرآن کریم کے اوامر و نواہی اور احکام و تعلیمات کی تلاوت، ان پر عمل کے نقطہ نظر سے کرنا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ قرآنی آیات کو عام کیا جائے، انھیں نہایت دلسوزی کے ساتھ تلاوت کر کے ذہن نشین کیا جائے،قلب و روح پر ان آیات کو نقش کیا جائے،ملک و معاشرے میں مو جود ہر فکرو فلسفہ پر ان آیات کا غلبہ ہو۔

عصر حاضر میں استفادہ کے لیے 

تجاویزو سفارشات

قرآنی آیات اور فرامین نبوی ﷺ سے یہ بات واضح ہوئی کہ تعلیم کیلئے علماء علم، ذرائع علم، مقصد ِ تعلیم اور نصاب تعلیم کی خصوصی اور بنیادی اہمیت ہے، اس لیے  اساتذہ اور اہل علم کی فلاح وبہود پر خصوصی توجہ دینی چاہئے اور حکومت انہیں فکر معاش سے آزاد کرنے کی پالیساں بنائے، تاکہ وہ خلوص نیت اور مکمل جذبے کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔