اسلام میں تجارت کا تصور،نبی کریمﷺ نے تجارت میں بددیانتی کو سخت نا پسند فرمایاہے

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تاجر پر لازم ہے کہ وہ شے کی کوالٹی کے متعلق صحیح معلومات خریدار کو بتا دے اور کسی چیز کے کسی بھی نقص کو مت چھپائے۔ اگر چیز میں کوئی نقص پڑ گیا ہو تو وہ خریدار کو سودا طے کرنے سے پہلے آگاہ کر دے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں کاروباری دیانت کی سیکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ سودا طے ہوتے وقت فروخت کار خریدار کو مال میں موجود نقص کے متعلق بتانا بھول گیا یا دانستہ چھپا گیا۔ بعد میں جب فروخت کار کو یاد آیا تو وہ میلوں خریدار کے پیچھے مارا مارا پھرا اور غیر مسلم، مسلم تاجر کی اس دیانت داری کو دیکھ کر اسلام لے آیا۔ انڈونیشیا کے باشندے دیانتدارمسلم تاجروں کے ذریعے ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے۔

 اچھی معیار کی چیز میں گھٹیا شے کی ملاوٹ حرام ہے اور کاروباری اصولوں کے مطابق بھی یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ایک مرتبہ رسول پاکﷺ غلہ کی ایک دکان کے پاس سے گزر رہے تھے کہ آپﷺ رک گئے اور اپنا دست مبارک غلہ کے ڈھیر میں ڈالا، نیچے سے گیلا غلہ نکلا جب کہ اوپر خشک غلہ تھا۔ آپ ﷺ نے اس بددیانتی کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’دیانت دار تاجر روز محشر صدیقوں میں سے اٹھائے جائیں گے‘‘۔ 

تاجروں پر اسلامی اور کاروباری اصولوں کے مطابق یہ جائز نہیں کہ وہ مال کو کھلے بازار سے گوداموں میں منتقل کر کے اس کی چوربازاری شروع کر دیں یا مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کا خون چوسیں۔ حضرت عمرؓ نے ایسے تاجروں کے خلاف عملی اقدام کر کے ثابت کیا کہ اسلام ایسے افراد کے وجود کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا جو محض دولت کی ہوس کی خاطر عوام الناس کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوں۔ اسلام خریدار اور فروخت کار کے درمیان آزاد اور کھلے مقابلہ کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی تاکید اور حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ 

اسلام کے چودہ سو سال پہلے کے وضع کردہ اصولِ معیشت پر وقت نے کوئی اثر نہیں ڈالا۔ دنیا کے تمام ممالک اسلامی اصولوں کو اپنے اپنے نظام ہائے معیشت میں جگہ دے رہے ہیں۔ اسلام میں براہ راست کاروباری لین دین کو پسند کیا گیا ہے، جس میں دلالوں اور سٹہ بازوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں۔ 

اسلام کے معاشی نظام نے تجارتی کاروبار کے لئے ایک ضابطہ اخلاق مقرر کیا ہے تاکہ افراد معاشرہ کے باہمی تعلقات خوش گوار ہوں اور صالح و منصفانہ معیشت فروغ پاسکے جس کے لئے اسلام نے بنیادی اصول وضع کئے ہیں۔ ۱۔باہمی رضا مندی، ۲۔دیانت دا ری، ۳۔جائز اشیاء کی تجارت، ۴۔جوئے اور نشے کی ممانعت۔  

اسلام میں تجارت کی بنیاد باہمی رضا مندی پر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طور سے نہ کھائو، ہاں اگر باہمی رضا مندی سے تجارت ہو تو درست ہے (النساء ۳۹)۔اس آیت کریمہ کے مفہوم سے ظاہر ہے کہ اسلام صرف باہمی رضا مندی کے کاروبار کو جائز قرار دیتا ہے اور اس کے برعکس حق تلفی اور دھوکہ دہی، مکرو فریب اور ظلم وزیادتی وغیرہ ذرائع پر مبنی لین دین کو ناجائز ٹھہراتا ہے۔ اسی طرح معاملات کی وہ تمام صورتیں جن میں دوسرے کی کمزوری و مجبوری سے فائدہ اٹھا یا گیا ہو ناجائز ہیں۔ اسلامی تجارت کا دوسرا اصول دیانت داری ہے، یعنی لین دین کھلا صاف صاف او برسرعام ہونا چاہیے ۔مال کی اصل کیفیت گاہک کے سامنے رکھ دینا چاہیے اور کسی قسم کا دھوکہ فریب نہ ہو۔ تجارت کو فروغ دینے کے خفیہ ہتھکنڈے مثلاً ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، خیانت، بددیانتی وغیرہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ اسلامی تجارت کا ایک اہم اصول ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے۔ حضور پاکﷺ نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے کیلئے لعنت بھیجی ہے۔ اسلامی تجارت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہر وہ ذریعہ جس سے بغیر محنت کسی ایک فرد کو فائد ہ پہنچتا ہو ناجائز ہے، مثلاً جوا وغیرہ۔ 

اسلامی تجارت کا ایک اہم اصول تاجروں کا اعلیٰ کردار کا ہونا ہے۔ تاجر ایسے اخلاق و کردار کا مظاہرہ کریں جس سے دوسرے متاثر ہوں۔ ان میں دولت جمع کرنے کی ہوس نہ ہو۔

 تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ اسلام میں تاجروں کا خاص حصہ ہے تجارت کا عام مفہوم باہمی لین دین کاروبار اور خرید وفروخت ہے۔ تجارت کا لفظ دو افرادکے باہمی لین دین سے لے کر ملکوں اور قوموں کے باہمی تجارتی معاہدوں تک محیط ہے۔ آج کل اس میں ہر قسم کی صنعت اور پیشہ شامل ہے۔ پس ہر وہ شخص تاجر ہے جو کاروباری تجارت اور خرید و فروخت سے اپنی روزی کماتا ہے۔ سرکار دوعالمؐ خود تاجر تھے آپﷺ جب جوان ہوئے تو تجارت کو ہی اپنا پیشہ بنایا۔ آپ ﷺ کی دیانت صداقت امانت کا تمام مکہ معترف تھا۔ آپﷺ صادق الامین کے لقب سے مشہور تھے۔ حضرت خدیجہؓ کا کاروبار وسیع تھا انھیں ایک دیانت دار تجارتی شریک حیات کی ضرورت تھی۔ آپ ﷺ کی دیانت کا چرچا سن کر تو انھوں نے پیغام نکاح بھیجا۔ آپ ﷺ کا نکاح ہوا اور آپﷺ نے تمام تجارت خود سنبھالی۔ تاجروں کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہے کہ ان کاحلال طریقے سے رزق کمانا خود آقاﷺ کی سنت مبارک ہے۔ یہ اپنی ضرورت زندگی کیلئے رزق بھی کما رہے ہیں اور سنت کا ثواب بھی انہیں  مل رہا ہے۔آج ا س دور میں ہر طرف بے ایمانی بددیانتی کا جال بچھا ہے۔ ذخیرہ اندوزی عام ہو چکی ہے۔ ناپ تول میں کمی ہوتی ہے اسی لئے ہم پر خدا کے عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ معاشرہ تباہ برباد ہو گیا ہے۔ ہمیں روز آخرت بھول گیا ہے اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہمارے حال پر اپنا فضل و کرم فرمائے ۔آمین 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔