نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا معاشرے کے ہر فرد کا فرض ہے، اسلامی معاشرہ اور ہماری ذمہ داریاں ،اسلام نے ہر فرد کو آداب و اطوار کے ساتھ زندگی گزارنے کا پابندکیا

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، لہٰذا نہ خود اس پر ظلم و زیادتی کرے نہ دوسروں کو ظالم بننے کے لیے اس کو بے یارو مددگار چھوڑے، نہ اس کی تحقیر کرے۔ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تین مرتبہ سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’تقویٰ یہاں ہوتا ہے‘‘۔ کسی شخص کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کی تحقیر کرے، ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے اس کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو‘‘(مسلم شریف)۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرما کر مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم فرما دیا، پھر یہ انسان مل جل کر زندگی گزارنے لگے، یہی معاشرہ کہلانے لگا اور اس میں رہنے والے انسان معاشرہ کے افراد کہلانے لگے۔ لفظ معاشرہ کا مطلب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنا ہے لیکن اصطلاح میں معاشرہ سے مراد وہ انسانی اجتماعی زندگی ہے جو کسی خاص فکر و عمل کے نظام پر چل رہی ہو، اگر کچھ انسان ایک جگہ جمع ہو کر بے مقصد زندگی گزاریں تو اسے معاشرہ نہیں کہا جائے گا۔

لہٰذا اسلامی معاشرہ ایسا معاشرہ کہلائے گا جو خالص اسلامی فکر و عمل کے نظام پر قائم ہو، احکام اسلام پر عمل کرنے والا معاشرہ ہو، یہ تب ہو گا جب ہر فرد ان ذمہ داریوں کو پورا کر رہا ہو جو اسلام نے اس پر فرض کی ہیں۔ جب معاشرہ کے افراد یہ کہنے لگیں کہ جناب! معاشرہ ہی خراب ہے، ہم کیا کریں یا یہ کہا جائے دوسرے افراد تو فرائض انجام نہیں دیتے ہمارے کرنے سے کیا ہو گا۔ معاشرے کا ہر فرد یہی سوچ کر فرائض کی طرف سے آنکھ بند کر لے تو پھر یقیناً پورا معاشرہ بے سکون ہو جائے گا۔ اگر ہر شخص کی سوچ یہ بن جائے کہ میں اپنا فرض ادا کروں گا چاہے اور کوئی کرے یا نہ کرے۔ دوسروں کو فرائض ادا کرنے کی ترغیب بھی دوں گا چاہے کوئی مانے یا نہ مانے تو پھر وہ معاشرہ ایک کامیاب معاشرہ کہلائے گا۔ اس لئے کہ معاشرہ کے ہر فرد نے اپنا پہلا فرض یہ ادا کیا کہ ایمان قبول کیا اور بالکل ایک جیسا عقیدہ کہ میں اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، اور قیامت کے دن پر ایمان لایا لہٰذا تمام افراد کی فکر ایک ہوئی۔ پھر نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کے ارکان پر ہر مسلمان عمل کرتا ہے تو اس سے وحدتِ عمل پیدا ہوئی۔ ہر ایک کا عمل اور سوچ جب ایک جیسی ہو گی تو یہ کسی معاشرے کے مستحکم ہونے کی پہلی شرط ہے۔

اب یہ افراد زندگی گزارنے لگے تو قدرتی تقسیم کے مطابق خاندانوں، ذاتوں، برادریوں اور قبیلوں میں بٹ گئے۔ یہ ایک قدرتی اور فطرتی تقسیم ہے لیکن انسان سے یہاں ایک غلطی ہو گئی، وہ اس تقسیم کو باہمی تعارف کے بجائے عزت و ذلت کا معیار سمجھنے لگا جبکہ اللہ رب العزت نے فرمایا’’اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے‘‘۔ اسلام نے عزت و ذلت کا معیار خاندانی تعلق نہیں بنایا بلکہ ہر فرد کے ذاتی اخلاق اور اچھے اعمال کو عزت کا معیار بنایا اور ہر فرد پر تقویٰ اختیار کرنا فرض قرار دیا۔

پھریہ افراد معاشرتی زندگی میں مختلف معاملات انجام دیتے ہیں ان میں عدل و انصاف کو فرض قرار دیا، گھریلو زندگی میں عدل کا حکم دیا، یتیموں کے ساتھ عدل کا حکم دیا، ناپ تول میں انصاف کا حکم دیا، لین دین میں، عدالتی امور میں، دستاویزات لکھنے میں، گواہی دینے میں، فیصلہ کرنے میں حتیٰ کہ اپنی ذات سے بھی انصاف کرنے کا حکم دیا گیا۔ سورۃ شوریٰ کی پندرہویں آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غیر مسلموں سے بھی انصاف کرنے کا حکم دیا گیا۔ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتے ہوں اور اس مسلمان ملک کے قوانین پر عمل کرتے ہوں انہیں اقلیت کہا جاتا ہے۔ اسلام نے معاشرے کے ہر فرد پر ان اقلیتوں کے مال ان کی جان ان کی عزت و آبرو کی حفاظت فرض قرار دی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ میں ہر فرد کو رواداری کا مظاہرہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے اسی چیز سے کسی معاشرہ میں باہمی احترام پیدا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’باہمی شفقت، محبت اور مہربانی میں تم ایمان والوں کو ایک جسم کی طرح پائو گے‘‘۔ اگر جسم کا ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اگر ایک گھر میں ایک خاندان میں ایک شہر میں کسی فرد کو تکلیف پہنچے باقی افراد اس تکلیف اور دُکھ کو محسوس کر کے ہمدردی اور بھائی چارے کے جذبات کے ساتھ اس مصیبت اور دکھ کو دور کرنے کا فریضہ انجام دیں تو یہی معاشرہ فلاحی معاشرہ بن جائے گا۔

بسا اوقات معاشرے کے افراد میں ایک دوسرے سے دوری اور فاصلہ بڑھ جاتا ہے جب وہ افراد سادگی کا فرض ادا کرنے کے بجائے نام اونچا کرنے اور نمائش کرنے میں مبتلا ہو جائیں اس لئے کہ نمائش کرنے والا خود کو برتر اور دوسرے کو حقیر سمجھے گا۔ جس کو حقیر سمجھا گیا وہ اپنے آپ کو بے بسی اور دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا۔ اس طرح معاشرے کے افراد کے دلوں میں دوریاں پیدا ہوں گی۔ اس لیے اسلام نے معاشرتی زندگی میں فضول خرچی سے منع کیا، نمائش کو ممنوع قرار دیا اور سادگی اختیار کرنے کی تلقین کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری اور باطنی پاکیزگی بھی ہر فرد پر فرض قرار دی ہر فرد اپنے اندر سے حسد، بغض، کینہ،نفرت، جھوٹ، منافقت نکال دے اور محبت، سچائی اور ہمدردی کے ذریعے پاکیزہ بنے۔ اسی طرح ظاہری طہارت اور پاکیزگی کو بھی فرض قرار دیا۔ اپنے جسم کو پاک رکھے اپنے کپڑوں کو پاکیزہ رکھے جہاں رہتا ہو، صاف ستھرا ہو، جہاں سے گزرتا ہو اس کی صفائی کا خیال رکھتا ہو۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو راستے سے گندگی اور تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیا۔

 ایک مسلمان فرد کی یہ ذمہ داری بھی ہو گی کہ وہ اپنے اردگرد یعنی اپنے ماحول کو آلودہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ مشینی سواری چلا رہا ہے تو دوسرے افراد کو دھوئیں سے بچا ئے۔ فیکٹری چلا رہا ہے تو اپنے معاشرے کے باقی افراد کو زہریلے دھوئیں سے بچائے اور فیکٹری سے نکلنے والے زائد کیمیکلز کو محفوظ طریقے سے ضائع کرے تاکہ باقی افراد کو اس کے ذریعہ کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے پائے۔ اس لیے کہ مسلمان کی شان ہی یہی ہے۔ مسلمان وہ شخص ہے جس کے قول و فعل سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،اسلام نے ہر فرد کو مکمل آداب و اطوار کے ساتھ زندگی گزارنے کا پابند کیا ہے کھانے پینے، اٹھنے، بیٹھنے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے غرض زندگی کے ہر مرحلے کے لیے آداب سکھائے، اس لیے اسلامی معاشرہ ایک منظم معاشرہ ہوتا ہے۔ اس کے ہر فرد کا عمل تعمیری ہوتا ہے اسلام نے کسی فرد کو وقت کے کسی لمحہ کو ضائع کرنے سے منع کیا اور واضح کر دیا کہ آخرت میں وقت کے بارے میں باقاعدہ پوچھا جائے گا کہ تم نے وقت کہاں کہاں صرف کیا پھر جب یہ فرد بے کار کاموں سے بچے گا تو یہ اس کی خوبی ہو گی۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:’’کسی شخص کے اسلام کی یہ خوبی ہے کہ وہ بے مقصد کاموں کو چھوڑ دے، اور بامقصد کام کرنے میں یہ فرد اپنا پورا وقت صرف کر دے اور وہ کام جو ہر وقت کرنا ہے وہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا معاشرہ کے ہر فرد کا فرض ہے‘‘۔

ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:’’جو تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگر اس کی بھی ہمت نہ ہو تو اس برائی کو دل میں بُرا سمجھے اورفرمایا کہ یہ آخری درجہ کمزور ترین ایمان کا ہے۔،، لہٰذا معاشرے کا ہر فرد جب خود اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی فکر کرے گا اور دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے نیکی کی تلقین اور برائیوں سے روکنے کی کوشش کرتا رہے گا تو پھر یقیناً اسلامی معاشرہ کا ہر فرد خود بھی ایک پرُسکون اور مطمئن زندگی گزار سکے گا اور اس کے اردگرد رہنے والے اس کے ہمدرد اور دکھ درد میں شریک رہیں گے، ایک ایسا معاشرہ نصیب ہو گا جسے ہر فرد سکون کا گہوارہ محسوس کرے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔