شہید ملت لیاقت علی خان،عظیم رہنما،صاحب فراست حکمراں

تحریر : محمد ارشد لئیق


آپؒ نے تمام معاشی پالیسیوں کا رخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منعطف کردیا تھا،بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد تحریک پاکستان میں دوسرا بڑا نام لیاقت علی خانؒ کا ہے

کہتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی اعلیٰ صفات اور لائق تحسین خدمات کی بدولت مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور بعض عاقبت اندیش لوگ اپنی غلط اندیشیوں اور غلط کاریوں کے باعث زندگی میں ہی مر جاتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خانؒ مرحوم کا شمار قوم کے ان عظیم محسنوں میں ہوتا ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور جن کے قدموں کے نشان آنے والی نسلوں کیلئے چراغ راہ کا کام دیتے ہیں بلکہ تاریخ کے صفحات میں ان کے اسمائے گرامی اور ناقابل فراموش کارنامے چاند تاروں کی طرح جھلملاتے ہیں۔

دنیا میں آٹے میں نمک کے برابر خال خال شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں یاد کرنے پر زمانہ مجبور ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے خود اپنی عظمت کا اپنی زندگی میں دوسروں سے لوہا منوایا ہوتا ہے۔ شہید ملتؒ آج بھی لوگوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ ہر صبح جب سورج کی پہلی کرنیں کرہ ارض پر پڑتی ہیں، تو ان کی یاد پھیل جاتی ہے، جیسے کہتی ہو :

میں اگر جا سکا نہ منزل تک

عجز سے لوٹ کر نہ آئوں گا

یا بگولوں کا روپ لے لوں گا

یا شعائوں میں پھیل جائوں گا

واقعی یہ ہیں ہمارے قائد ملت، جو ملت کی نبض اور دل میں دھڑکتے ہیں، جو درخشندہ سورج میں جگمگاتے اور چودھویں کے چاند میں جھلملاتے ہیں۔ اس سچائی میں شک کی ہر گز گنجائش نہیں ہے کہ شہید ملت کو ایک عظیم ترین قومی ہیرو کا اونچا درجہ حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے اولین لمحات سے آج تک اور آنے والے زمانوں میں بھی وہ عوام کے قلب و روح پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔ عوامی فکر ونظر پر ان کی سدا بہار بادشاہی ہے ان کی عوامی سوچ ، ان کی پروقار منکسر المزاجی، تکبر، ٹھاٹھ باٹھ،نمودو نمائش اور روائتی سرمایہ دارانہ لائف سٹائل اختیار کرنے سے ان کا دائمی مستقل پرہیز، درویشانہ طرز زندگی، غریبوں سے محبت پر مبنی کردار ادا کرنا یہ سب کچھ عوام کو دل و جان سے پسند تھا۔

غیرت مند معاشرے کے ہر فرد کا ایک نصب العین ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک خاص مقصد حیات کی خاطر زندہ رہتا ہے، وہ اپنے نظریہ کی خاطر تمام زندگی سربکف رہتا ہے اور وقت آنے پر اپنے مقصد حیات کی تکمیل پر جان بھی نچھاور کر دیتا ہے۔ شاعر مشرق، مفکرپاکستان ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے ملت اسلامیہ کے ماحول، معاشرے اور فکر کی کیا خوب ترجمانی کی تھی!

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

نہ مال غنیمت، نہ کشور کشائی

اس خوبصورت شعر میں پنہاں فلسفے کی روح اور مفہوم و معنی کی روشنی میں جو عظیم تر خوبصورت شخصیت اجاگر ہوتی ہے، اس کا نام نواب زادہ لیاقت علی خانؒ ہے۔ ان کا وجود ا انقلابی شعر کی وہ عملی شکل ہے، جس پر نہ صرف اہل پاکستان، بلکہ تمام اسلامیان عالم ناز کرتے ہیں۔ وہ مملکت خدا داد پاکستان کے اولین وزیر اعظم، عوام کے محبوب ترین قائد اور قائد اعظمؒ کے دست راست و جانشین تھے۔

پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم شہید ملت نوبزادہ خان لیاقت علی خانؒ تھے۔ ان سب سے بڑھ کر تحریک پاکستان کے ایک نڈر مجاہد، پرجوش رہنما اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے معتمد خاص، دست راست اور پوری قوم کے دلوں پر حکمرانی کرنے والے ہر دل عزیز قائد تھے۔ جب تک زندہ رہے قوم نے ان کی لازوال خدمات اور عہد آفرین سیاسی سماجی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’قائد ملت‘‘ کے نام سے پکارا۔ پھر ملک دشمن عناصر نے16 اکتوبر 1951ء کو انہیں اپنے ناپاک عزائم کا نشانہ بنا کر موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

وہ قائد اعظمؒ کے حلقہ احباب کے ایک رکن تھے۔ ضلع کرنال کے ایک نواب گھرانے سے ان کا تعلق تھا۔ نوابی ماحول میں ہی انہوں نے 1898ء میں آنکھ کھولی اور بچپن کا دور گھر میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزارا۔ مزید تعلیم حاصل کرنے کے شوق نے علیگڑھ کی راہ دکھائی۔ علیگڑھ یونیورسٹی سے 1919ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلستان چلے گئے جہاں آکسفورڈ سے 1921ء میں ایم اے پاس کیا۔ 1922ء میں بیرسٹری کی سند حاصل کر کے برطانیہ سے وطن واپس تشریف لے آئے۔

یہ وہ دور تھا جب قائداعظمؒ 1913ء میں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے۔ لیاقت علی خانؒ نے بھی انگلستان سے واپس آکر ملی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ 1922ء میں وہ باقاعدہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔1926ء میں یو پی کی مجلس قانون ساز کے ممبر کی حیثیت سے منتخب ہوئے لیکن لیاقت علی خان کے اصل جوہر اس وقت کھلے جب قائد اعظمؒ کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کا نیا دورشروع ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ممبئی (جو اس وقت بمبئی تھا) میں 1936ء کے دوران منعقد ہوا تھا۔ اس میں قائد اعظمؒ نے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ لیاقت علی خان کوجو اس وقت یو پی لیجسلیٹو کونسل کے نائب صدر تھے، 3سال کیلئے اعزازی جنرل سیکرٹری مقرر کیا جائے۔ 1938ء میں مسلم لیگ کا خصوصی اجلاس کولکتہ (جو اس وقت کلکتہ تھا) میں منعقد ہوا تھا۔ مولوی فضل الحق نے اس میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ لیاقت علی خانؒ نے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان حقائق کی روشنی میں بیان کی ہے لیکن کانگریس نے اس کا مذاق اڑایا ہے۔ اگر اس ظلم کا 100واں حصہ بھی ہندوؤں پر ہوتا تو کانگریس گنگا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آگ لگا دیتی۔ اسی سال پٹنہ میں اجلاس منعقد ہوا جس میں لیاقت علی خانؒ کو دوبارہ آل انڈیا مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا اور قیام پاکستان سے قبل تک قائد اعظمؒ مسلم لیگ کے مسلسل صدر رہے اور لیاقت علی خانؒ جنرل سیکرٹری منتخب ہوتے رہے۔

ہندوستان میں انگریزوں کے طویل دورِ حکومت کے آخری سال وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور تحریکِ پاکستان کے پروردہ مسلم لیگی رہنما لیاقت علی خانؒ کے ہاتھ آئی۔ انہوں نے ماضی کے عوام دشمن نو آبادیاتی میزانیوں کا رخ یکسر بدل دیا اور آزادی کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومتوں کے لیے عوام دوست مالی پالیسیوں کی داغ بیل ڈالی۔

اس حوالے سے تحریکِ پاکستان کے دنوں کی ایک چشم کشا دستاویز وہ مشہور و معروف بجٹ ہے جو غیر منقسم ہندوستان کے مسلم لیگی وزیرِ خزانہ لیاقت علی خان نے 28فروری 1947ء کو پیش کر کے غلام ہندوستان کی استحصالی اور طبقاتی تقسیم پر مبنی معاشی زندگی میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔پاکستان اور بھارت کو آزاد ہوئے تقریباً 8عشرے گزر چکے ہیں اور اس دوران دونوں ممالک کے وزرائے خزانہ نے درجنوں مرکزی بجٹ پیش کئے لیکن کسی بجٹ کو قبولیت ِعامہ کا وہ درجہ حاصل نہ ہو سکا جو متحدہ برطانوی ہندوستان کے پہلے اور آخری وزیرِ خزانہ لیاقت علی خان کے 1947-48ء کے بجٹ کو حاصل ہوا تھا۔ تاریخ میں اس بجٹ کو غریبوں کے بجٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی تمام پالیسیوں کا رخ امیروں سے دولت لے کر غریبوں کی طرف منعطف کرنا تھا۔

لیاقت علی خانؒ نے یہ بجٹ غیر منقسم برطانوی ہندوستان کی لیجسلیٹو اسمبلی میں 28فروری1947ء کو پیش کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ قرآن مجید کے اس فرمان پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ’’دولت کو دولت مندوں کے مابین گھومنے کی اجازت نہ دی جائے اور سرمائے کو چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے بچایا جائے ( سورہ الحشر، آیت۷)۔ اس سلسلے میں جن اصولوں کو سامنے رکھ کر بجٹ کی تجاویز مرتب کی گئیں،ان میں نمایاں اصول یہ تھا کہ تعمیروترقی کے منصوبے اور تجاویز اس طرح تیار کیے جائیں کہ خوش حال طبقوں سے وسائل لے کر غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں۔ ان کی آمدنیوں اور روزگار میں اضافہ ہو اور ان پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو۔ 

اس بجٹ کے چیدہ چیدہ اقدامات یہ تھے:(i) ایک لاکھ سے زائد منافع کمانے والے تاجروں پر 25فیصد بزنس پرافٹ ٹیکس۔ (ii)بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں کے اثاثوں پر لگنے والے کیپیٹل گنیز، کارپوریشن اور ڈیویڈنڈ محصولات کی مختلف شرحوں میں اضافہ۔ (iii)متوسط طبقوں پر ٹیکس کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے انکم ٹیکس سے چھوٹ کی سطح 2000 روپے سے بڑھا کر 2500 روپے۔ (iv)دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے جن لوگوں نے بے تحاشا منافع خوری کی، بلیک مارکیٹ سے پیسہ کمایا اور کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدیں، ان کے وسائل کی چھان بین کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن کا قیام۔ (v)عام لوگوں کے استعمال والی اشیاء پر ہر قسم کے ٹیکس کی تنسیخ۔ (vi)کسانوں کی اعانتوں میں اضافہ۔ (vii)مختلف قسم کی بچت سکیموں کی شرح منافع میں اضافہ۔ (viii)سرکاری محکموں کی فضول خرچیوں کے خاتمہ کے لیے کمیٹی کا اعلان۔ (ix)مرکزی حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں میں کمیشن کی سفارشات کے مطابق اضافہ۔ (x)کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے مکانوں کی تعمیر۔(xi)مختلف قسم کے ترقیاتی اخراجات کے لیے رقومات کی فراہمی جس میں آبی بند، شاہراہیں اور پس ماندہ علاقوں کی تعمیر سے متعلق منصوبے شامل تھے۔(xii)ہندوستان کے مرکزی بینک یعنی ریزرو بینک آف انڈیا کو قومی ملکیت میں لینے کا انقلابی اعلان۔ (xiii)سٹاک مارکیٹ اور بازارِ صرافہ میں سٹہ بازی کنٹرول کرنے کے لیے قانونی اقدامات۔ یہ امر باعثِ دلچسپی ہو گا کہ لیاقت علی خان کے بجٹ پر جہاں غریبوں اور زیر دستوں نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا،وہاں پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور دیگر کانگرسی لیڈر شدید پریشان ہوئے کیونکہ اس بجٹ کی ضرب ہندو سرمایہ داروں پر پڑتی تھی جو کانگرس کی مالی پشت پناہی کرتے تھے۔

لیاقت علی خانؒ کی مسلم سیاست میں انفرادیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ سر سید احمد خان کے علاوہ دوسری نمایاں شخصیت تھے جنہوں نے تمام تر، ترغیبات کے باوجود کبھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی جو پاکستان کی اساس ’’دو قومی نظریہ‘‘ پر ان کے پختہ یقین کا عکاس ہے۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خانؒ نے وزیراعظم اور وزیر دفاع کی حیثیت سے ملکی دفاع کو مستحکم کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اور اس سلسلہ میں ہندوستان سے فوجی اثاثوں کی تقسیم کو اپنی ذاتی نگرانی میں ممکن بنایا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خانؒ کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اس دور میں انہوں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ قائد اعظمؒ کی معیت میں گزرا۔پاکستان قائم ہوئے ابھی سال ہی گزرا تھا کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ 11ستمبر 1948ء کو اس عالم فانی سے عالم جادوانی کی طرف سدھار گئے۔ داعی اجل کی آواز پر لبیک کہنے والے اس عظیم انسان کا انتقال پاکستان کی نئی مملکت اور پاکستانیوں کیلئے نئے نئے مصائب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ادھر بھارت نے حیدر آباد پر حملہ کردیا۔ ایسے میں صرف لیاقت علی خانؒ ہی کی واحد شخصیت تھی جس نے غم قائد سے نڈھال پاکستانیوں کو ہمت و جرات دلائی اور انہیں صبر و شکر کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم ہونے کی برابر تلقین کرتے رہے۔

 قائد ملت نے ایسے میں بصیرت سے کام لے کر مملکت پاکستان کے گورنر جنرل کی کمان تو خواجہ ناظم الدین کے ہاتھوں میں دی اور خود مملکت کے دورے پر نکل گئے۔ قائد ملت لیاقت علی خان نے کمال جواں ہمتی سے کام لیا اور جہاں بھی گئے اپنے ولولہ انگیز خطابات سے عوام میں قومی اتحاد اور یک جہتی کی اس روح کو از سر نو تازہ کیا جو بابائے ملت حضرت قائد اعظمؒ کی وفات سے مایوسی و افسردگی کا رنگ اختیار کر چکی تھی۔ قائد ملت لیاقت علی خانؒ کا یہ اعجاز ہے جسے پاکستانی قوم کسی صورت فراموش نہیں کر سکتی۔ 

یہی نہیں ایک سچے مسلمان اور درد دل رکھنے والے انسان کی طرح لیاقت علی خانؒ کی سب سے بڑی خواہش اس وقت عالم اسلام کو متحد دیکھنے کی تھی اسی عزم کی ترجمانی کیلئے انہوں نے کراچی میں فلسطین کے مفتی اعظم سید امین الحسینی کی زیر صدارت عالم اسلامی کا اجلاس طلب کیا۔اخوت اسلامی کو زندہ رکھنے اور پاکستان کو اسلامی ممالک سے متعارف کرانے کا یہ بڑا قدم تھا اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل خدمت اسلام کے جذبے سے کس قدر معمور تھا۔

وہ نواب زادہ تھے، دہلی میں ان کی جائیداد تھی، کرنال میں جاگیر تھی لیکن پاکستان میں کوئی ذاتی گھر تھا نہ جائیداد۔ شہادت کے وقت ان کے بنک میں صرف چند روپے تھے۔ اس قلندر کا ذکر کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کراچی میں 26دسمبر 1943ء کو فرمایا تھا ’’اگرچہ وہ ایک نواب زادہ ہیں لیکن عوام الناس میں سے ایک ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اور نواب بھی ان کی مثال بنیں گے‘‘۔

 ان کے دور وزارت عظمیٰ میں پاکستان کے تمام مرکزی بجٹ اضافی آمدنی کے تھے، نیز تجارت کے شعبے میں بھی توازن پاکستان کے حق میں تھا۔امور خارجہ میں لیاقت علی خانؒ نے مغرب اور اس کی ایک سپر طاقت کی مخالفت کے باوجود عوامی جمہوریہ چین کی نوزائیدہ ریاست کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی تعلقات بھی قائم کردیئے تھے۔لیاقت نہرو پیکٹ انسانی حقوق سے جڑی ہوئی لیاقت علی خانؒ کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہے۔لیاقت علی خانؒ نے امریکہ کی خواہش کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایران کی تیل کی صنعت امریکہ کو دلانے اور کوریا کی جنگ میں افواج پاکستان کو بھیجنے سے انکار کرکے مکمل غیر وابستہ وغیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا تھا ۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے جاپان پر عائد تاوان کی رقم جو پاکستان کے حصہ میں آئی تھی معاف کردی تھی ۔

 16اکتوبر 1951 ء کو جب ان کا طیارہ چکلالہ ائیر پورٹ پر پہنچا تو ان کا فقید المثال استقبال کیاگیا۔اس روز راولپنڈی میں میلے ٹھیلے کا سماں تھا۔ رش اس قدر تھا کہ دور دور تک انسانی سر نظر آرہے تھے ۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعدجب وہ سٹیج پر پہنچے اورتقریرکا آغاز کرتے ہوئے ابھی انہوں ’’برادران ملت‘‘ ہی کہا تھا کہ بد بخت سیداکبرکی گولی کا نشانہ بن گئے۔ ان کے اگلے الفاظ یہ تھے’’مجھے گولی لگ گئی ہے، خدا پاکستان کی حفاظت کرئے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے زندگی کی آخری ہچکی لی۔ مادر وطن پر جان نچھاور کرنے کا جو سچا وعدہ قائد ملت نے کیا تھا پورا کر دکھایا۔انہوں نے کہا تھا کہ وقت پڑنے پر میں اپنی جان اپنی قوم و وطن کی آبرو پر قربان کر دوں گااور انہوں نے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا۔

لیاقت علی خانؒ عوامی تمنائوں کے مظہر تھے، لوگوںکے دلوں میں مچلتی لا محدود تمنائوں کے ترجمان تھے، کچلے ہوئے محروم انسانوں کی امیدوں کا سہارا تھے۔ انہیں بین الاقوامی استعمار ، سرمایہ دارانہ نظام ، عالمی صیہونیت اور بد نام زمانہ سامراج نے اپنے اندر ون ملک گماشتوں کی مدد سے راولپنڈی میں موت کے گھاٹ اتارا، کیونکہ وہ سامراج دشمن انقلابی فکر کے حامل تھے۔

لیاقت علی خانؒ کے قتل کا سانحہ ہماری قومی تاریخ کا ایسا المیہ ہے جن پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ ان کے قتل کی سازش آج تک معمہ بنی ہوئی ہے۔ امریکی اور برطانوی سراغ رسانوں کی خدمت حاصل کرنے کے باوجود متعلقہ قانونی ادارے اپنے دامن پر لگنے والے اس سیاہ داغ کو مٹانے میں ناکام رہے ہیں۔ 

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک عام آدمی قتل ہو جائے تو درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور جن کیخلاف جرم ثابت ہو جائے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے وزیراعظم کے قتل کی تحقیقات ہی ناتمام ہے۔ لیاقت علی خانؒ کواس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اور ان کے قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بڑی گہری سازش تھی جس میں اپنے اور بیگانے دونوں شریک تھے۔ ان کی شہادت کے موقع پر قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم نے درست کہا تھا ۔

مسلمانوں کا محسن تھا لیاقت 

مسلمانوں نے اس کو مار ڈالا

(محمد ارشد لئیق گزشتہ دو دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین اور کالم شائع ہوتے رہتے ہیں، آجکل روزنامہ ’’دنیا‘‘ سے منسلک ہیں۔)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔