سسرالی رشتوں کا تقدس, رشتوں کا ادب و احترام نبی کریم ﷺ کی سنت ہے

تحریر : ڈاکٹر کریم خان


ہماری معاشرتی زندگی رشتوں اور قرابتوں کے گرد گھومتی ہے اور ہر فرد ان رشتوں کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔ نکاح کے بعد کچھ رشتے وجود میں آتے ہیں وہ بھی قابل احترام ہوتے ہیں جن کو سسرالی رشتہ کہا جاتا ہے۔ سسرالی رشتہ در حقیقت دو علیحدہ علیحدہ خاندانوں کو ایک دوسرے کا جُز بنا دیتا ہے یعنی یہ رشتہ ایک خاندان کو دوسرے خاندان کے قریب کر دیتا ہے۔ اسلام نے جہاں قریبی رشتوں کے تقدس کا حکم دیا وہاں سُسرالی رشتوں کے احترام کا بھی حکم دیا۔

 مرد و عورت کے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لیے اسلام نے نکاح کا قانون متعارف کروایا ہے اور ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد کچھ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جن کو سسرالی رشتہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔  اللہ نے فرمایا :’’وہی ہے جس نے آدمی کوپانی سے بنایا پھر اس کے (نسلی) رشتے اور سسرالی رشتے بنا دیے اور تمہارا رب بڑی قدرت والا ہے‘‘۔(فرقان:54)

اللہ نے مرد و عورت کو پیدا کیا پھر اس کے لیے نسب کے رشتے دار بنا دیئے پھر کچھ مدّت بعد سسرالی رشتے قائم کر دیے۔ دونوں مل کر ایک مکمل وحدت بنتے ہیں ان کے ہاں بیٹیاں بھی ہوں گی اور بیٹے بھی، کسی کے یہ سسرال بنیں گے اور کوئی ان کے بچوں کے سسرال ہونگے۔اس طرح ایک انسانی معاشرہ معرض وجود میں آئے گا۔ اسلام نے اس شعبہ سے متعلق ایسا قانون اور ضابطہ وضع کیا ہے تا کہ رشتوں کا تقدس پامال نہ ہو۔ محرمات جن کی حرمت بالکل واضح ہو چکی ہو عادتاً انسان ان کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہیں کرتا کیونکہ وہ رشتے قابل عزت اور لائق احترام بن جاتے ہیں۔

اسلامی معاشرے میں قابلِ قبول رویہ پاک دامنی کا ہے اور اس کے برعکس بے حیائی کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ اس کے بالمقابل جہاں تک جدید مغربی معاشرے کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک عورت اور مرد کے تعلق کے لیے نکاح ضروری نہیں اور وہ رشتوں کے تقدس کا خیال بھی نہیں کرتے۔

ساس اور داماد کا رشتہ شریعت کی نظر میں نہایت پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے، ساس کا درجہ بھی ماں کے قریب ہوتا ہے، اسی لئے ان رشتوں کی پاکیزگی کا اسلام میں بڑا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس تقدس کی بنا پر ساس سے نکاح دائمی اور ابدی طور پر حرام ہے۔ 

نکاح ایک مقدس رشتہ ہے جس کو برقرار رکھنا ضروری ہے شریعت اسلامیہ میں یہ بڑے اہم مسائل ہیں جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ عصرِ حاضر میں عریا نی اور فحاشی عروج پر ہے۔ محارم رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ آئے روز اخبارات میں ایسے واقعات شائع ہو رہے ہیں۔ عصر حاضر میں اجتماعی رہن سہن عام ہو چکا ہے اورخاص طور پروہ مقامات جہاں ایک کمرہ ہوتا ہے میاں بیوی اور بچے اکٹھے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ان حالات میں نبی رحمت ﷺ نے امت کی اصلاح کے لیے فرمایا:عمرو بن شعیب ؒ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی رحمت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس برس کے ہو جائیں (تو نماز چھوڑ نے پر) انہیں مارو، نیز ان کے بستر علیحدہ کردو‘‘(مشکوۃ شریف: 539)۔بہن بھائی اگر ایک ہی بستر میں سوتے ہوں تو اس عمر میں ان کے بستر الگ کر دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح والد کو بھی چاہیے کہ اپنی جوان بیٹیوں اور ماں کو چاہیے کہ جوان بیٹوں کے ساتھ نہ سوئے۔

سسرالی رشتہ کی حرمت کا مسئلہ انتہا ئی اہمیت کا حامل ہے۔ لوگوں میں اس مسئلہ کا شعور دینا بہت ضروری ہے کہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد کون کون سے رشتے حرام ہو جاتے ہیں تاکہ ان رشتوں کی حرمت برقرار رہے۔ جاہل عرب کے بعض طبقوں میں رواج تھا کہ باپ کی منکوحات بیٹے کو وراثت میں ملتی تھیں اور بیٹے اُنہیں بیوی بنا لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔ قرآن پاک نے اسے نہایت قابل نفرت فعل قرار دیا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺنے ایسے شخص کو قتل کرنے اوراس کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔

 اسلام نے عورت پربہت بڑا احسان کیا ہے کہ انتہائی بے ر اہ روی کے دور میں انتہائی مضبوط اخلاقی بنیاد فراہم کی۔ عورت کے سب سے محترم مقام یعنی ماں اور اس کی ہر حیثیت یعنی بہن، بیوی اور بیٹی کے لحاظ سے اس کو عزت ملی جبکہ یورپ آج رشتوں کی حرمت کو تباہ کرنے کا کارنامہ سرانجام دے رہا ہے۔ 

عصر ِحاضر میں قریبی رشتوں کے ساتھ بدکاری کے واقعات عام ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں علماء سے رائے لی جائے اور اس پر پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ رشتوں کے تقدس کا لحا ظ رکھا جاسکے۔ عصرِحاضر میں مصاہرت کے مسائل سے عدم واقفیت کی بنا پر رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ آج کے اس نا زک دور میں جب رسم و رواج عام ہیں ،وہ لوگ کیسے اچھی زندگی گزاریں گے جن کا خاندانی نظام خراب ہو چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جن سسرالی رشتوں کی حرمت ہے انہیں واضح کیا جا ئے تا کہ امت کی دین کی طرف رہنمائی ہو سکے۔ 

رشتوں کا تقدس

رشتوں کا توازن برقرار رکھنے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں۔اللہ تعالیٰ کی بنائی ہو ئی یہ کا ئنات خوبصورت اور حسن سے آراستہ ہے۔ اس کائنات کی بقاء و تسلسل کے لیے جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ بھی خوبصورت ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے اور توالد و تناسل کا خوبصورت سلسلہ قائم فرمایا،رشتوں کے متعلق قرآن حکیم میں ہے:’’اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مردو عورت پھیلا دیے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہواور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے‘‘(سورۃ النساء:01)۔

اس آیت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ رشتوں کا لحاظ رکھو کہ کون سے رشتوں سے عقد جائز ہے اور کون سے رشتے ایسے ہیں جن سے عقد یا ازدواجی تعلق جائز نہیں ہے۔

مردو عورت کے درمیان راز

میاں بیوی کے آپس کے تعلق وراز کے بارئے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو‘‘۔ (البقرۃ: 187)

دین اسلام میں زوجین کے باہمی معاملات سے متعلق جو ہدایات دی گئی ہیں اس کی غرض یہی ہے کہ تعلقِ زوجیت مضبوط و پائیدار رہے، اس رشتہ محبت میں مزید پختگی آئے اور ناموافق حالات پیدا نہ ہوں۔ مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ کی نزاکت و حساسیت ہے اس کا دائرہ راز میں رہنا ضروری ہے تب ہی ایک دوسرے کے عیب ظاہر ہونے سے بچ سکتے ہیں اور رشتوں کا تقدس بھی محفوظ رہ سکتا ہے۔

قریبی رشتوں کے ساتھ بدکاری کے واقعات ہمارے معاشرے میں شروع ہو گئے تو اس سے آنے والی نسل پر تباہ کن اثرات مرتب ہو ں گے۔ اس قسم کے واقعات ملک کے مستقبل کو مجروح کر رہے ہیں، اگر سد باب نہ کیا گیا تو رشتوں کا تقدس پامال ہو تا رہے گا۔

قریبی رشتوں کے تقدس کے بارے میں شاہ ولی اللہؒ لکھتے ہیں:’’اگر لوگوں میں یہ دستور ہوتا کہ ماں کو بیٹی کے شوہر کے ساتھ اور مردوں کو اپنے بیٹوں کی عورتوں کے ساتھ اور ازواج کی بیٹیوں کے ساتھ رغبت ہوتی (یعنی نکاح جائز رکھا جاتا) تو اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا کہ اس تعلق کو توڑنے کی کوشش ہوتی یا اس شخص کے قتل کے درپے ہو جاتا جس کی طرف سے خواہش پائی جاتی ہے، اگر آپ قدیم یونان کے اس سلسلہ کے قصے سنیں یا اپنے زمانہ کی ان قوموں کے احوال کا مطالعہ کریں جن کے یہاں یہ مبارک سنت (حرمت مصاہرت) نہیں ہے تو آپ کو وہاں بھیانک ماحول اور گھٹا ٹوپ ظلم و جبر کا مشاہدہ ہوگا۔ پس اس رشتہ داری میں رفاقت لازمی ہے اور پردہ نہایت دشوار ہے اور ایک دوسرے سے حسد کرنا برا ہے اور جانبین سے ضرورتیں ٹکراتی ہیں پس مصاہرت کا مسئلہ ماؤں اور بیٹیوں جیسا ہے یا دو بہنوں جیسا ہے۔

(مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان معروف عالم دین ہیں، سربراہ مدرسہ علمیہ اور صدر اسلامک ریسرچ کونسل، 20 سے زائد کتب کے مصنف ہیں)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔