مجھے پکار و،میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا،(المومن:60) دعا: عین عبادت
دعا سے بڑھ کر کوئی چیز خدا کے نزدیک قابل عزت نہیں(مسنداحمد:8748)’’کون ہے جو بے قرار و بے کس کی پکار کو سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف و پریشانی کو دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ تم بہت کم نصیحت و عبرت حاصل کرتے ہو(النمل:62)۔
انسان کی فطرت میں ہے کہ جب وہ کسی مصیبت اور آزمائش میں گرفتار ہوتا ہے اورتمام دنیاوی اسباب سے وہ مایوس ہو جائے تو پھر ایک ایسی ان دیکھی طاقت سے امید لگاتا اور دعا کرتا ہے کہ جس کے متعلق اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ تمام اسباب سے بڑھ کر اور تمام طاقتوں سے مضبوط ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہی طاقت اس کا سہارا بھی بنے گی اور اسے مصیبت سے نجات دے گی۔ وہ ان دیکھی طاقت مختلف مذاہب میں مختلف ناموں سے موجود ہے حتیٰ کہ وہ لوگ جو کسی خدا کے قائل نہیں وہ بھی’’قدرت‘‘ کے قائل ہیں۔ ان سب کے برعکس مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ایک ان دیکھی طاقت خدا کی ذات ہے، وہی ہے جو بے قرار و بے کس کی دعاؤں کو سنتا بھی ہے اور اس کی تکلیف و پریشانی کو دور بھی کرتا ہے۔
اللہ ہی سے کیوں مانگیں
سوال یہ ہے کہ باقی سب طاقتوں کو چھوڑ کر صرف خدا کی ذات سے دعا کیوں مانگی جائے؟ اس لیے کہ صرف خدا کی ذات ہی وہ ایک ہستی ہے جو انسان کی دعا سنتی بھی ہے اور اس کا جواب بھی دیتی ہے۔ خدا کے علاوہ کسی اور ہستی میںیہ طاقت نہیں کہ وہ انسان کی پریشانیوں کو دور کر سکے اور اس کی حاجات کو پورا کر سکے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’انہیں (خدا کے علاوہ اور خداؤں کو) پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے‘‘(فاطر:14)۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعا کے جواب میں پکار کر کہہ نہیں سکتے کہ تمہاری دعا قبول کی گئی یا نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہاری درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ ایک شخص اگر اپنی درخواست کسی ایسے شخص کے پاس بھیج دیتا ہے جو حاکم نہیں ہے تو اس کی درخواست رائیگاں جاتی ہے، کیونکہ اس کے ہاتھ میں کوئی اختیار ہی نہیں ہے،اگر درخواست اس ہستی کے پاس بھیجی جائے جو واقعی حاکم ہو، تو اس پر لازماً کوئی نہ کوئی کارروائی ہوگی۔ قطع نظر اس سے کہ وہ قبول کرنے کی شکل میں ہو یا رد کرنے کی شکل میں۔ (تفہیم القرآن،ج4،ص226)، اس لیے اپنی حاجات اور ضروریات صرف خداہی کے سامنے پیش کرنی چاہئیں تاکہ انہیں سنابھی جائے اور ان پر کارروائی بھی ہو۔
کیا رب کی ذات ہماری دعاؤں کی محتاج ہے؟
جب خدا کی ذات اتنی زبردست قوت کی مالک ہے اور اس کے علم میںبھی ہوتا ہے کہ میرا فلاں بندہ کسی مشکل میں ہے تو پھر اس سے دعا مانگنے کی کیا ضرورت ہے، بغیر مانگے عطا کیوں نہیں کرتا؟ کیا خدا کو ہماری دعاؤں کی ضرورت ہے؟ یہ بات یقینی ہے کہ ہماری ضروریات اور حاجات کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے اور اسے ہماری دعاؤں کی محتاجی بھی نہیں ہے، وہ بن مانگے بھی عطا کردیتا ہے لیکن قرآن و حدیث کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کا اسوہ اس بات پر شاہد ہے کہ بندوں کو خود اپنی حاجات کا شعور ہو اور وہ اپنی عاجزی اور کمزوری کا اعتراف دعا کی صورت میں کرے کہ یہ عمل خدا کو خوب پسند ہے۔ ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’دعا سے بڑھ کر کوئی چیز خدا کے نزدیک قابلِ عزت نہیں ہے (مسند احمد، 8748)۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ’’کہہ دو میرا رب تمہاری پرواہ نہیں کرتا، اگر تم اسے نہ پکارو‘‘(الفرقان: 77)۔ یعنی اگر انسان دعا مانگنا چھوڑ دے تو اس سے خدا کی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دعا ایک عبادت
دُعا جہاں بندے کی طرف سے خدا کے حضور اپنی عاجزی کے اظہار کی ایک صورت ہے وہیں دعا خود ایک بندگی کا عمل ہے جو کہ بندے سے مطلوب بھی ہے۔ جیسے نماز، روزہ وغیرہ عبادت کی مختلف صورتیں ہیں اسی طرح قرآنِ مجید میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے اور جو دعا نہیں کرتے انہیں متکبرین میں شمار کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘(الغافر:60)۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ خدا کے حضور دعا مانگنا عین عبادت ہے، اس سے منہ موڑنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے۔
اس کی مزید وضاحت نبی کریمﷺ کی احادیث سے ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ (ترمذی:3373)
ہر عبادت کا مغز دعا ہے۔ جس طرح مغز کے بغیر انسان بیکار ہے اسی طرح تمام نیک اعمال دعا کے بغیر ادھورے ہیں۔ حضرت انسؓکی روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’دعا عبادت کا مغز ہے (ترمذی:3371)۔
اسی لیے تمام نیک اعمال کے بعد ان کی قبولیت کے لیے دعا کرنے کا ہمیں طریقہ سکھایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ جب خانہ کعبہ کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے اور تعمیر بیت اللہ کا عظیم الشان کام سرانجام دے رہے تھے تب بھی وہ یہی دعا کررہے تھے۔ ’’اے ہمارے رب اسے تو قبول فرما بے شک تو ہی سننے جاننے والا ہے‘‘(البقرہ:127)
دعا رب سے تعلق کا فوری اور مؤثر ذریعہ
دعا کے ذریعے بندہ اپنے رب سے براہِ راست فوری رابطہ کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ’’ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘(ق:16) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا(المومن : 60)۔
ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ دعا کے ذریعے خدا سے فوراً تعلق جڑتا ہے اور اس سے جو دعا مانگی جائے اسے وہ قبول بھی کرتا ہے۔ خدا کو یہ پسند ہے کہ اسے آہستہ آواز میں اور گڑگڑا کرپکارا جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف:55)
احادیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت کی تین صورتیںہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یا تو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے (ترمذی:13381)۔
تقدیر اور دعا
دعا کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میںہے اور ہر چیز تقدیر میں لکھی جا چکی ہے، وہ اپنے علم اور غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کرچکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہے گا تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘ اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دُعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہوگئے ہوں۔
بندے تو بلاشبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو، بہرحال ایک فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی وبالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج4، ص 420)۔
نبی کریم ﷺ کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا قضا کو ٹال سکتی ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی سوائے دعا کے (ترمذی:2139) ،یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔
(مفتی محمد اویس اسماعیل ایگزیکٹیو
ڈائریکٹر، الاخوان مجلس ِ افتاء کراچی ہیں)