سہیل اصغر: ایک بڑا فنکار ، تھیٹر کے ابتدائی دنوں میں لوگ انہیں ملتان کا قوی خان کہتے ہیں

تحریر : سعید واثق


گزشتہ دنوںسہیل اصغر کے انتقال کی خبر سنتے ہی ٹی وی ناظرین اور ان کے مداحوں کے دماغ میں کتنی ہی دیر تک ایک ہی جملہ گونجتا رہا۔’’ ایک روپا،ایک روپا‘‘ ایک روپے کے عوض لوگوں کوسرکس دکھانے والا یہ باصلاحیت فنکار اب کسی نئے رول میں نظر نہیں آ ئے گامگر جو کام وہ کر گیا اسے بھلانا کسی طور ممکن نہیں۔

سہیل اصغر کے والدین توانہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن وہ بن فنکار گئے۔ا یم اے انگریزی کرنا شروع کیا تو اس کے چار پیپر زکلیئر ہوگئے ، 3 رہ گئے تھے۔ پھر ریڈیو میں آکر جب پیسے ملنا شروع ہوئے تو اِسی شعبے میں آگے بڑھتے چلے گئے۔

وہ کہا کرتے تھے ’’میں نے 76ء میں ریڈیو پاکستان سے آغاز کیا۔ ساتھ ہی ساتھ تھیٹر کرتا تھا پھر 79ء میں مجھے ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی تھی، پھر میں کزنز کے ساتھ ملکر بزنس کی طرف چلا گیا۔ دو تین برس اس میں لگے۔ اس کے بعد آخر میں مکمل طور پر ڈراموں ہی کی طرف آگیا۔ 1988ء تک ملتان میں ریڈیو جوکی کے طور پر کام کرتے رہا‘‘

 والدین نے اس شعبے میں آنے پر ان کی قطعی مخالفت نہیں کی ۔کہتے تھے، ’’جب میرا ریڈیو پر پہلا پروگرام آن ایئر ہوا تو میرے والد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے تھے، وہ بہت آرٹسٹک ذہن کے آدمی تھے۔ وہ تو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر پر کلر بھی خود ہی کرلیتے تھے‘‘۔اس کے بعد سہیل اصغر نے تھیٹر کے ڈراموں میں اداکاری  شروع کردی۔

’’تھیٹر کی طرف لانے والوں میں اپنے دوست شوکت کا نام لینا چاہوں گا ۔ میرااس طرف آنے کا ارادہ نہیں تھا، میں تو ایم اے کی کلاسز لیتا تھا۔ شام کو ہم ساتھ بیٹھتے تھے ایک دِن اُس نے میرا راستہ روک لیا اور کہا کہ تم تھیٹر میں چل کر کام کرو۔ایک دِن تھیٹر پر کام کیا تو لوگوں کی داد ملنا شروع ہوگئی پھر میرا دِل بڑا ہوگیا۔ پھر اطہر شاہ خان جیدی کے بے شمار ڈرامے کئے، لوگوں نے بہت داد دی، میرے کام کو کافی سراہا گیا۔ میں نے ملتان میں رہتے ہوئے، منور سعید، عابد علی اور فردوس جمال کے ساتھ تھیٹر کیا۔جب میں ملتان میں تھیٹر کرتا تھا تو لوگ مجھے کہتے تھے کہ یہ ہمارے ملتان کا قوی خان ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات تھی۔ قوی خان اپنے دور کے ہر دوسرے ڈرامے اور فلموں میں چھائے رہے ۔

لاہور منتقل ہونے کی بات یوں بتاتے۔

 ’’اکثر لوگ کہتے تھے کہ تم لاہور آکر کام کرو لیکن مجھے ڈر لگتا تھا کیونکہ وہاں تو بڑے بڑے اداکار تھے۔ ایک دِن ایسا آیا کہ میں این او سی لیکر لاہور چلا گیا، وہاں مجھے مختلف پروڈیوسرز سے ملوایا گیا۔ مجھے کام ملنا شروع ہوگیا۔ وہیں نصرت ٹھاکر صاحب بھی ریڈیو ڈرامہ کرنے آتے تھے۔ اُن کے ساتھ ایک دو ڈرامے کئے پھر اُنہوں نے مجھے ٹی وی میں بلالیا وہاں میں نے کوئی آڈیشن نہیں دیا اور سیدھا ڈرامہ کرلیا۔ پھر ڈراموں میں کام چلتا چلا گیا۔ ‘‘

سہیل اصغرنے ان گنت ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کی ، وہ نصرت ٹھاکر اور یاور حیات کو اپنا استاد کہتے تھے۔  سرکاری ٹی وی پر وہ ہر دوسرے ڈرامے میں کاسٹ ہوتے تھے۔ ملتان چھوڑ کر لا ہور کے رہائشی بنے ۔ جب رفتہ رفتہ ڈرامہ انڈسٹری کراچی شفٹ ہو گئی تو کراچی کے رہائشی بن گئے، یہاں آکر انہوں نے اپنی فیملی کو بھی بلا لیا۔

 وہ کہتے تھے’’ فنکار کہیں کا بھی ہو اور کہیں بھی رہتا ہو وہ اپنے فن کی بدولت جانا پہچانا جاتا ہے ‘‘

سہیل اصغر کے بقول ابتدا میں ان کے سبھی ڈرامے اچھے تھے۔ البتہ ’’پیاس‘‘،’’ خواہش‘‘، ’’چاند گرہن’’،’’ لاج ‘‘اور ’’ملکہ عالیہ‘‘ با کمال ڈرامے تھے ۔جب ’’پیاس‘‘ ڈرامہ مقبول ہوا تو انہیں فلموں کی آفرز آنا شروع ہوگئی تھیں ۔ ’’جنگجو گوریلے‘‘ ان کی پہلی فلم تھی، اس کے بعد ’’اسلحہ‘‘ اور چند دیگر فلموں میں بھی کام کیا۔ 

 فلموں ے متعلق وہ کہتے تھے۔

’’میں نے بہت احتیاط سے مگر اچھے اداروں کی فلموں میں کام کرنا شروع کیا لیکن مجھے کافی مایوسی ہوئی کیونکہ جس دور میں ہم فلموں میں آئے وہ دور فلموں کیلئے اچھا نہیں تھا۔ وہ 90ء کا سلطان راہی کا دور تھا اور تمام فلموں میں ’’کھڑاک‘‘ ہوتا تھا جبکہ ہم ریڈیو، ٹیلی ویژن، تھیٹر سے گزر کر آئے تھے، ہم یہی کوشش کرتے رہ گئے کہ فلموں میں حقیقت کا رنگ نظر آئے مگر ایسا نہ ہوسکا ،پھر اس دور کی فلمیں بھی مرنا شروع ہوگئیں ۔ ‘‘

 2012ء میں سہیل اصغر کو تمغۂ امتیازکیلئے نامزد کیا گیا لیکن انہوں نے وصول نہیں کیا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ اگر مجھے یہ اعزاز ملنا تھا تو 1992ء میں ’’چاند گرہن‘‘ کے بعد مل جاتا۔ اب میں کسی فٹ پاتھ پر بھی بیٹھ جائوں یا چھوٹے سے لیکر بڑے بڑے ہوٹل تک چلا جائوں ہر جگہ لوگ مجھے اتنا پیار کرتے ہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، میرے لئے سب سے بڑاایوارڈ سرکاری ٹی وی کے تین ایوارڈ ہیں اور تین ایوارڈز بہت کم لوگوں کے پاس ہیں۔‘‘

سہیل اصغر کو1998ء میں 10 سالہ تقریب میں’ ’ خواہش‘‘ میں ’ ’ایک روپا، ایک روپا‘‘ والے کردارپر پہلا ایوارڈ ملا تھا۔ دوسرا لاہور اسٹیشن کا ڈرامہ تھا ’’کاجل‘‘ اس پر ملا اور تیسرا کراچی میں حیدر امام کا ڈرامہ تھا اس پر دیا گیا۔

سہیل اصغر کی دو بیٹیاں ہیں جو شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹا علی سہیل ہے،جو میوزیشن ہے۔ علی خود پروڈکشن بھی کرتے ہیں۔ میوزک کے حلقوں سے وابستہ لوگ علی سہیل کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ عمیر جسوال کے اکثر شو ز میںگٹار بھی بجاتے نظر آتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

اچھے بچے نہیں لڑتے

راجو اور شانی ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر جھگڑا کرتے نظر آتے تھے۔ ان دونوں کے گھر والے ان سے بہت تنگ تھے۔ دونوں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑتے اور بدلا لیتے نظر آتے تھے۔

چاند پری

چاند پری ایک خوبصورت اور پراسرار مخلوق تھی جو چاند پر رہتی تھی۔ اس کی سفید ریشمی بال، چمکدار آنکھیں اور روشنیوں سے سجا ہوا لباس اسے واقعی جادوئی دنیا کی شہزادی بناتا تھا۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

مکڑیاں جالے کیسے بنتی ہیں؟ مکڑی کے جالے میں کچھ تار چپکنے والے اور کچھ نہ چپکنے والے ہوتے ہیں۔ مکڑی سب سے پہلے جالے کا ڈھانچہ نہ چپکنے والے تاروں سے تیار کر تی ہے جو ’’پاگاہ‘‘ (Foothold)کا کام کرتے ہیں۔اس کے بعد وہ باقی جال کو ایسے تاروں سے مکمل کرتی ہے جو انتہائی چپکنے والے ہوتے ہیں۔

حرف حرف موتی

٭… گناہ، کسی نہ کسی صورت میں دل کو بے چین رکھتا ہے۔ ٭… کامیابی کا بڑا راز خود اعتمادی ہے۔

ذرامسکرایئے

سخت سردی کا موسم تھا، ایک بیوقوف مسلسل پانی بھرے جارہا تھا۔ ایک صاحب نے پوچھا ’’ تم صبح سے اتنا پانی کیوں بھر رہے ہو، آخر اتنے پانی کا کیا کرو گے؟‘‘ بیوقوف بولا: ’’ پانی بہت ٹھنڈا ہے، گرمیوں میں کام آئے گا‘‘۔٭٭٭

پہیلیاں

مٹی سے نکلی اک گوری سر پر لیے پتوں کی بوری جواب :مولی