خاموشی میں سلامتی ،جو خاموش رہا وہ نجات پاگیا

تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن


اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک عضو ایسا بنایا ہے جس سے ہم اپنے دل کی بات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اپنے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کو بتلا سکتے ہیں اور وہ عضو ’’زبان‘‘ ہے۔ اسے اگر قابو میں رکھا جائے تو انسان دنیا و آخرت میں کامیاب ہوتا ہے اور اگر اس کو فضول، جھوٹ، غیبت، چغلی، فحش گوئی، بدعہدی، گالم گلوچ، طنز و تشنیع، تمسخر وغیرہ میں استعمال کیا گیا تو انسان کا وقار، اعتماد اور ذاتی حیثیت معاشرے سے ختم ہو جاتی ہے اور وہ جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔

شیطانی حملوں سے حفاظت: اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن قرار دے کر اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور خاموشی ایسی چیز ہے جو انسان کو شیطانی حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ جب بندہ اپنی زبان کو خاموش رکھے گا تو ان تمام گناہوں سے بچ جائے گا جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ ایسے انسان سے شیطان مایوس ہو گا اور وہ اس کے مکرو فریب اور وساوس سے بچ جائے گا۔ 

 

دینی امور میں مددگار: دینی امور میں خاموشی معاون و مددگار بنتی ہے اس لیے کہ جب شیطان سے حفاظت ہو گی تو ذکراللہ، تلاوت، وعظ و نصیحت، درود پاک، امر بالمعروف، نہی عن المنکر وغیرہ الغرض تمام دینی امور کی ادائیگی میں آسانی ہوگی۔ 

خاموشی میں سلامتی: حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ وہ سلامتی کے ساتھ زندگی گزارے توخاموش رہنے کا خوب اہتمام کرے۔(المعجم الاوسط للطبرانی، الرقم: 1934)

ہر شخص سلامتی والی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن وہ اُس طریقے کو اپنانے کیلئے آمادہ نہیں جس سے سلامتی ملتی ہے۔ وہ طریقہ رسول اللہ ﷺ نے خاموش رہنے کو قرار دیا ہے۔

خاموشی میں دانائی: حضرت ابوالدرداءؓ سے مروی ہے کہ خاموشی حکمت ہے اور اس کو اختیار کرنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، الرقم: 921)، ہر وقت فضول  بولتے رہنا بے وقوفی اور کم عقلی کی علامت ہے۔ اس کے مقابلے میں موقع محل کے مطابق سنجیدگی سے گفتگو کرنا حکمت و دانائی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ حکمت و دانائی والے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں۔ 

خاموشی میں رحمت: حَیْوہ بن شُرَیْح کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ابی حبیبؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (بلاوجہ) بولنے والے کو آزمائش کا اور خاموش رہنے والے کو رحمت کا منتظر رہنا چاہیے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، الرقم: 912)، بغیر ضرورت کے غیر ضروری باتیں کرنا انسان کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈال دیتا ہے اور یہ چیز باعث زحمت ہے جبکہ ان آزمائشوں سے چھٹکارا پانے کیلئے غیر ضروری باتوں سے خاموشی اختیار کرنا باعث رحمت ہے۔

خاموشی میں نجات: حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔ (جامع الترمذی، الرقم: 2501)،ایسے مقامات جہاں بولنے سے فساد پیدا ہوتا ہو وہاں خاموش رہنے میں نجات ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ جہاں خاموش رہنے سے فساد پھیل رہا ہو وہاں حکمت و دانائی سے بول کر فساد کو دور کرنا ضروری ہے۔ یعنی جیسے خاموشی کے مقام پر خاموش رہنے میں نجات ہے اسی طرح بولنے کے مقام پر بولنا بالخصوص فتنوں کی سرکوبی کیلئے مصلحت اور دلائل کی قوت کے ساتھ گفتگو کرنا بھی باعث نجات ہے ایسے موقع پر خاموش رہنا دینی حمیت و غیرت کے خلاف ہے۔

خاموشی اور تنہائی کا معیار: حضرت عمران بن حطانؒ کہتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں گیا تو وہاں پر حضرت ابو ذر ؓ کالے رنگ کی چادر سے گوٹھ مارے اکیلے تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا اے ابوذرؓ! یہ تنہائی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ برے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہترجبکہ بری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 4639)

کم بولنا حکمت ہے: حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبتی عطا کی گئی ہے اور کم سے کم بولنے کی نعمت عطا کی گئی ہے تو تم اس کے قریب رہو اس لیے کہ وہ دانائی اور حکمت کی باتیں دل میں ڈالے گا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، الرقم: 1885)، معلوم ہوا کہ خاموشی اختیار کرنے اور باوقت ضرورت بولنے والے کو اللہ تعالیٰ حکمت کی نعمت سے مالا مال فرماتے ہیں۔ ایسے شخص کے ساتھ رہنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تاکہ اس کی صحبت کا اس پر بھی اثر ہو۔

اسلام کی خوبی: حضرت علی بن حسینؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی خوبی میں یہ بات بنیادی طور پر شامل ہے کہ انسان فضول باتوں اور فضول کاموں کو چھوڑ دے۔ (جامع الترمذی: 2318)، معلوم ہوا کہ ہر وہ بات اور کام جس کا تعلق دنیاوی فوائد سے نہ ہو یا وہ کسی دینی فائدے سے وابستہ نہ ہو وہ لایعنی میں شامل ہے ہاں اگر کوئی ایسی بات اور کام ہے جس کا تعلق دین سے ہے یا پھر وہ بات اور کام تو دنیاوی ہے لیکن جائز امور میں شامل ہے تو اسے لایعنی نہیں کہا جا سکتا۔ حدیث مبارک میں جس سے بچنے کو اسلام کی خوبی قرار دیا جا رہا ہے وہ پہلی قسم ہے۔ 

نیکی اور برائی کا مدار: حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’روزانہ جب انسان بیدار ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء  زبان سے کہتے ہیں، اے زبان ہمارے معاملے میں اللہ سے ڈرنا بے شک ہمارا تیرے ساتھ تعلق ہے، اس لیے کہ اگر تو درست رہی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی درست رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھے پن اور کج روی کا شکار ہو گئی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی گناہ بن جائیں گے۔ (ترمذی، باب ماجاء فی حفظ اللسان: 2407)، معلوم ہوا کہ زبان مدار ہے ۔ استعمال درست تو باقی اعضاء سے نیک اعمال صادر ہوں گے۔ استعمال غلط تو باقی اعضاء سے برے اعمال سرزد ہوں گے۔

زیادہ گناہوں کی وجہ:حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کے زیادہ تر گناہ زبان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی، الرقم: 4584)

جب تک زبان کا رخ درست نہیں ہوتا انسان گناہوں میں مبتلا رہتا ہے اور جب زبان کا رخ درست ہوتا ہے تو بندہ گناہوں سے باہر نکل آتاہے۔ 

اچھی بات یا پھر خاموشی: حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی باتیں کہے یا پھر خاموش رہے‘‘(صحیح بخاری، حفظ اللسان : 6475)

کاش میں گونگا ہوتا: سیدنا ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ کاش میں اللہ کے ذکر کے علاوہ کچھ نہ بول سکتا، گونگا ہوتا۔(المرقاۃ المفاتیح )

غیبت اور چغلی کی تلافی: اگر کبھی بولنے میں کوئی بات خلاف شریعت منہ سے نکل جائے تو فوراً اس پر توبہ کریں ،ساتھ اس متعلقہ شخص سے بھی معافی مانگنا ضروری ہے۔

روزانہ ایک وقت مقرر کر کے دن بھر کی اپنی باتوں کا حساب لگائیں کہ میں نے کتنی مفید باتیں کی ہیں اور کتنی فضول باتیں؟ آپ خود اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ خاموشی میں کتنے فوائد ہیں۔ 

اللہ کریم ہمیں زبان کی حفاظت کرنے اور مفید باتیں کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین 

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین

 اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭