یاد رفتگان، ابھی تو میں جوان ہوں، حفیظ جالندھری :گیت نگاری میں بھی یکتا ، خالق قومی ترانہ پاکستان کی 39 ویں برسی پر خصوصی تحریر

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


حبیب جالب نے برملا اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ حفیظ جالندھری نے سب سے پہلے اردو گیت لکھا

حفیظ جالندھری ان شاعروں میں سے ہیں، جنہوں نے بالخصوص پاکستان بننے کے بعد اپنی شاعری کا لوہا منوایا۔ انہوں نے معترضین کی خاطر خواہ پروا نہ کی اور ان کے تمام اعتراضات کے باوجود اپنی روش کو جاری رکھا اور یہی وجہ ہے کہ بالآخر ان کے معترضین بھی ان کو ماننے پر قائل ہوگئے اور انہوں نے تسلیم کر لیا کہ حفیظ جالندھری ایک بڑے شاعر ہیں۔ قومی ترانے کی منظوری نے ان کی شہرت   اور مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا۔ 

حفیظ جالندھری کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو موسیقی پر بھی پوری دسترس رکھتے تھے۔ قومی ترانے کے ضمن میں بھی حفیظ جالندھری کو اس لئے کامیابی ہوئی کہ اس وقت صرف قومی ترانے کی دھن بنائی جا چکی تھی۔ شاعروں کے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ان کو موسیقی کا علم نہ تھا اور موسیقاروں کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ ان کو شاعری کا پتہ نہیں تھا۔ حفیظ جالندھری دونوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے کامیاب رہے اور اس خوبصورتی سے اس دھن میں الفاظ کو سمویا کہ دنیا سن کر دنگ رہ گئی۔ اس طرح پانچ سو سے زائد موصول ہونے والے ترانوں میں حفیظ جالندھری کا ترانہ قبول کر لیا گیا اور وہی آج ہمارا قومی ترانہ ہے، جو دنیا بھر میں ہماری پہچان ہے اور ہر جگہ، خاص موقع پر پڑھا اور بجایا جاتا ہے۔ 

اس وقت سر تمہید کا مطلب یہ ہے کہ ہم آج آپ کے ساتھ جس موضوع پر بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ حفیظ جالندھری، ان کی شخصیت اور شاعری میں موسیقیت ہے۔ حفیظ جالندھری کو اردو ادب میں جس وجہ سے زیادہ مقام حاصل ہے وہ ان کی گیت نگاری ہے۔ انہوں نے گیت کی صنف کو ایک ایسے عروج پر پہنچایا ہے جو اس سے پہلے شاید کبھی اردو زبان میں نہیں تھا۔ حفیظ جالندھری کی گیت نگاری کا ذکر ہو تو یہ گیت سب سے پہلے سامنے آتا ہے جو شاید ان کی پہچان بن چکا ہے۔ 

’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ 

اس گیت کی روانی اور اس کی موسیقی دیکھیے تو یوں ہے کہ جیسے کوئی آدمی برف پر پھسلتا ہی چلا جا رہا ہو کہیں کسی جگہ پر رکاوٹ یا بہاؤ میں کوئی مزاحمت ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔اردو میں گیت نگاری کی ابتدا اگرچہ دکنی زمانے میں ہی ہو چکی تھی لیکن وہ گیت اس طرح کے تھے کہ ان کو پوری طرح سے شاید گیت کہنا بھی آسان نہیں۔ اس کے بعد گیت کو خاص طور پر جب ڈراموں اور فلموں میں استعمال کیا گیا تو اس سے گیت کی شکل اور صورت نکھر کر سامنے آئی۔ بالخصوص امانت لکھنوی نے بہت رچاؤ اور موسیقی سے بھرے گیت لکھے۔ 

موری اکھیاں پھر کن لا گیں

کیا ہوا یار کدھر گئی سکھیاں

انکھیاں پھرکن لاگیں

نینن می دلدار بست ہے

یہ آنکھیں الماس پرکھیاں

انکھیاں پھرکن لاگیں

ان گیتوں کی زبان کو دیکھیں تو وہ ہمیں بہت نامانوس محسوس ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ حفیظ جالندھری کے گیتوں کی زبان دیکھیں تو وہ بہت ہی ہماری جانی پہچانی زبان ہے۔ حفیظ نے اپنے گیتوں میں جو ہندوستان کی مقامی زبان ہے اس کو استعمال کیا ہے اور اسی لئے ہمیں وہ باتیں وہ اشعار اور وہ جذبات اپنے دل سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

لو پھر بسنت آئی 

پھولوں پر رنگ لائی 

چلو بے درنگ 

لب آب گنگ 

بجے جل ترنگ 

من پر امنگ چھائی 

پھولوں پر رنگ لائی 

لو پھر بسنت آئی 

حفیظ جالندھری نے اپنے گیتوں میں نہ صرف ہندوستانی جذبات کو استعمال کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بسنے والی ہر مخلوق اور ہر مظہر کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے اور ان کی شاعری کو پڑھ کر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کے سامنے جو کچھ نظر آتا تھا ،وہی خیالات ،وہی جذبات، وہی مظاہر وہ اپنی شاعری میں جو کہ تو بیان کر دیتے تھے۔گیت کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ یہ ایک نسوانی صنف سخن ہے تو حفیظ نے اس کا دائرہ وسیع کیا ہے اور اس کو نسوانیت سے نکال کر ایک عام انسان کے جذبات کا پیروکار بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں حفیظ کے گیتوں میں ایک ایسی نغمگی اور ایک ایسی سادگی نظر آتی ہے جو شاید کسی اور گیت نگار کے ہاں ہمیں نظر نہیں آتی۔ہندی الفاظ ہندی استعارات ہندی سوچ اور ہندی فکر کو شاعری کا حصہ بنایا ہے جو صرف نسوانی شاعری سے مخصوص نہیں ہے۔انہوں نے ہندوستان کے مظاہر کو اس خوبصورتی سے گیتوں کا روپ دیا ہے کہ ہمیں اب ان سے اپنی مٹی کی مہک آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

کھیتوں کا ہر چرندہ 

باغوں کا ہر پرندہ 

کوئی گرم خیز 

کوئی نغمہ ریز 

سبک اور تیز 

پھر ہو گیا ہے زندہ 

باغوں  کا ہر پرندہ 

کھیتوں کا ہر چرندہ

جیت بنیادی طور پر فراق اور ہجر کا استعارہ ہے۔میں اپنے عاشق سے دور ہو جانے والی معشوقہ یا محبوبہ موت کے ذریعے آپ سے ان جذبات کا اظہار کرتی ہے جو وہ اپنے عشق کی دوری میں محسوس کرتی ہے۔ حفیظ کے گیتوں پر اگر نظر ڈالیں تو ان میں یہ بات ہمیں پوری طرح سے نظر آتی ہے اور ایک برہن کے ہاڑے اور پکار صاف سنائی دیتی ہے۔یہ وہی محبت کا جذبہ ہے جو ہجر کے بغیر ادھورا رہ جاتا ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو محبوب کے ساتھ ساتھ پھر آگے بڑھ کر پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وہ پوری کائنات پر حاوی ہو جاتا ہے۔اس میں صرف مخاطب محبوب ہی نہیں رہ جاتا بلکہ پوری کائنات بن جاتی ہے۔حفیظ نے اپنے گیتوں میں ایسے ہجر، وچھوڑے اور فراق کو وہ زبان عطا کی ہے جس سے دوری کا یہ احساس مجسم ہو کر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔حفیظ کے گیتوں میں ہجر سے پیدا ہونے والی اس کسک کی ایک جھلک دیکھیے 

آم پہ کوئل کوک اٹھی ہے  

سینے میں اک ہوک اٹھی ہے 

بن جاؤں نہ کہیں سودائی 

جانوروں کی رام دہائی 

چبھتی ہے نس نس میں 

دل ہے پرائے بس میں

حفیظ جالندھری کے ہاں محبت کا جذبہ کائنات کا ایک زندہ مظہر ہے اور اسی پر اس دنیا کا مدار ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے گیتوں میں محبت کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خود بھی محبت کے قائل ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی کے اس عمل میں شریک ہوکر کائنات کے اس بڑے بنیادی نظام کا حصہ بن سکیں جس کے توازن کے لیے محبت شرط اولین ہے۔حفیظ کے گیتوں کا ایک بڑا موضوع محبت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم حفیظ کے گیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں زیریں سطح پر بھی محبت کی لہریں نظر آتی ہیں اور بیرونی سطح پر بھی یہی محبت ہلکورے لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔دوسروں کو محبت کی طرف مائل اور محبت کا قائل کرنے کے لئے جالندھری نے گیت کو بطورآلہ استعمال کیا ہے۔ان کے گیتوں میں محبت کی یہ دعوت بہت پر کشش ہے۔یہ مثال دیکھیے !

اپنے من میں پریت بسا لے 

اپنے من میں پریت 

من مندر میں پریت بسا لے 

او مورکھ او  بھولے بھالے 

دل کی دنیا روشن کر لے 

اپنے گھر میں جوت جگا لے 

پریت ہے تیری ریت پرانی

بھول گیا او بھارت والے

پریت ہے تیری ریت

 حفیظ کے گیتوں کی خصوصیات اور خوبیوں کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں نہیں ہو سکتا لیکن یہ بات درست ہے کہ حفیظ نے اردو زبان میں گیتوں کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا ہے۔ان کی زبان دانی پر بھی بہت لے دے ہوئی لیکن بالآخر سب کو حفیظ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ حفیظ نے ایک ماہر پہلوان کی طرح سب مخالفین کو پچھاڑا اور اپنی شاعرانہ عظمت کی دھاک بٹھائی۔عظمت اور بڑائی کے اس سفر میں بڑا حصہ ان کے گیتوں کا ہے۔اسی لئے حفیظ خود کہتے ہیں !

حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے 

بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

ڈاکٹر عرفان پاشا یونیورسٹی آف ایجوکیشن فیصل آباد کیمپس کے شعبہ اردو سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں، ادب اور سماجی موضوعات پر ان کے مضامین و کالم مختلف اخبارات اوررسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں، چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭