اور اعتبار ٹوٹ گیا
اسد علی کو اللہ تعالیٰ نے دولت، جائیداد، اولاد، صحت غرض سب نعمتیں عطا کی ہوئی تھیں۔ وہ بہت خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ گائوں کا نمبردار وڈیرہ ہونے کے باوجود اس میں غرور و تکبر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
وہ نہایت شریفانہ اور ایمانداری کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے اپنے بچوں کی تربیت بھی بہت اچھی طرح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے بڑے دونوں بیٹے اس کی طرح سے شریف اور ایماندار تھے۔ گائوں کے لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت اچھا اور مثالی تھا۔ سارا گائوں اسد علی اور اس کے بڑے بیٹوں اختر علی، اکبر علی کے گن گاتاتھا۔
بدقسمتی سے اس کا چھوٹا بیٹا کچھ برے دوستوں کی وجہ سے اپنے بھائیوں سے مختلف تھا۔ گائوں کے لوگوں کو بلاوجہ تنگ کرتا۔ اس کے علاوہ دن رات بہت زیادہ امیر بننے کے خواب دیکھتا۔ اس کا والد اسے سمجھاتا کہ دولت ہی سب کچھ نہیں، ایمانداری اور انسانوں سے حسن سلوک اور بھلائی ہی انسان کے کام آتی ہے۔ لیکن وہ باپ کی بات پر کان نہ دھرتا اور اس سے گستاخی سے پیش آتا۔ اکثر اپنے والد کو اپنے حصے کی جائیداد دینے کیلئے کہتا، بار بار تقاضا کرتا، لیکن اس کا باپ اس کے کاموں اور کردار کی وجہ سے اسے جائیداد دینا نہیں چاہتا تھا۔اس نے ایک دن گھر میں ذرا سی بات پر جھگڑا کیا اور ڈٹ گیا کہ مجھے ابھی اور اسی وقت جائیداد سے حصہ چاہئے۔ چودھری اسد علی اس کے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ چکا تھا، آخر اس نے دونوں بڑوں بیٹوں اور اسے جائیداد بانٹ کر دے دی۔
اب چونکہ سب کی رہائش، کھانا پینا، جائیداد، لین دین سب کچھ الگ تھا تو وہ اپنی اپنی زندگی جینے لگے۔ بڑے دونوں بھائی پہلے کی طرح حوصلہ مند، صابر و شاکر اور انسان کے خیر خواہ بن کر زندگی گزار رہے تھے لیکن چھوٹے کو صبر نہ آیا اس نے اور زیادہ امیر بننے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے منصوبے سوچنا شروع کردیئے۔
جب فصل پک گئی تو اناج بیچ کر اس نے کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بہت سی دولت اکٹھی کر سکے چاہے جس طریقے سے بھی ہو۔ اس نے شہر جا کر ایک بڑی دکان بنا لی اس کے ذریعے وہ لوگوں کو تھوک پر مال بیچتا تھا۔ اس نے جان بوجھ کر شروع میں سب کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے ایمانداری سے کام کیا۔ جب اس نے دیکھا کہ اب اس پر لوگ اعتماد کرنے لگے ہیں تو اس نے چیزوں میں ہیرا پھیرا شروع کردی ان کے وزن میں کمی بیشی کرنے لگا۔
اس کے بھائیوں اور والدین کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اسے بہت سمجھایا کہ ناجائز منافع خوری، مال میں کمی اور ملاوٹ اچھی بات نہیں۔ اس کے والد کو اس بات کا بہت غم ہوا کہ انہوں نے خود ساری زندگی ایمانداری اور محنت سے گزاری اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تلقین کی لیکن آج ان کا اپنا بیٹا بے ایمانی اور بددیانتی پر اتر آیا ہے۔ اس بات کو دل کا روگ بنا لیا اور بیمار پڑ گئے اور طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔
اس نے کاروبار کو وسعت دی اور لوگوں سے اجناس خرید کر ملوں، کارخانوں کو دینے لگا لیکن جب اس کے لالچی دماغ نے پلٹا کھایا تو وہ لوگوں سے اجناس خرید لیتا اور قیمت دینے کیلئے بہانے بناتا۔ اسی طرح دکانداری کے معاملے میں شروع کے چند سال تو لوگ اس کے سابقہ اعتبار اور اعتماد کی وجہ سے اس سے لین دین کرتے رہے لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہو رہا ہے تو انہوں نے اس سے کاروباری لین دین ترک کرنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اس کا کاروبار سرد پڑتا گیا۔ گائوں میں بھی اس کا لین دین ختم ہوتا گیا۔ اب اس پر ایک وقت ایسا آیا کہ سب نے اس پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا۔
اب وہ کنگلا ہو چکا تھا اور در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا تھا، پچھتاوے کی وجہ سے وہ پاگل ہو چکا تھاجبکہ اس کے بھائی جنہوں نے ایمانداری، دیانتداری اور محنت کو اپنا اشعار بنایا وہ اچھی ، بہتر اور عزت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔