دعوتِ ولیمہ، شریعت مطہرہ کی روشنی میں
ولیمہ کرو، زیادہ استطاعت نہ ہو تو ایک بکری ہی کا کر دو۔ (بخاری:5153),نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’سب سے بدترین کھانا اس ولیمہ کا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے، غربا و مساکین کو نظرانداز کیا جائے ’’
نکاحِ مسنونہ کے بعد ہونے والی اجتماعی دعوت کو شرعی اصطلاح میں ولیمہ کہا جاتا ہے، امام ربیعہ ؒ فرماتے ہیں کہ ولیمہ نکاح کے ثبوت و اظہار اور اس کی پہچان کیلئے مسنون قرار دیا گیا ہے۔ شریعت مطہرہ نے نکاح کے ساتھ ولیمہ کو دو وجہ سے مشروع کیا ہے، ایک ولیمہ کے ذریعے نکاح کا اعلان و اشتہار ہو جائے۔نکاح کے گواہ اگر انتقال کر جائیں تو دعوتِ ولیمہ میں شریک لوگ اس نکاح کی گواہی دے سکیں۔ دوسری یہ کہ نکاح اور سفاح (بدکاری) میں کامل امتیاز مقصود ہے۔ اسی لئے ولیمہ کی دعوت کو مسنون ٹھہرایا۔
دعوتِ ولیمہ فرض و واجب نہیں ہے کہ اس کے چھوٹنے پر نکاح پر کوئی اثر پڑے گا بلکہ مسنون عمل ہے۔ شریعت مطہرہ نے اس دعوت کے شرکاء کی نہ تعداد متعین فرمائی اور نہ ہی کھانے کا کوئی خاص معیار۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق شرکاء کی تعداد اور مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کر سکتا ہے۔
دعوتِ ولیمہ کی ادائیگی تقریب نکاح سے لیکر رخصتی کے بعد تک کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے۔ مسنون یہی ہے کہ رخصتی کے بعد ہو (یعنی اگلے دن)۔ دعوتِ ولیمہ میں مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ہونی چاہئے ناکہ شان و شوکت کا اظہار اور نمود ونمائش ۔ دعوتِ ولیمہ اگر شرعی حدودمیں کی جائے تو یقینا ً سنت کی ادائیگی پر یہ تقریب باعث اجروثواب اور ذریعہ ِ برکت ہے۔
دعوتِ ولیمہ کے بارے میں ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو۔ یعنی میوزک و ناچ تماشا، بے پردگی و بے حیائی، مردوں و عورتوں کا اختلاط وغیرہ وغیرہ۔ کوشش ہونی چاہئے کہ غیر شرعی رسومات کو روکا جائے اور اگر آپ انہیں روکنے کی بھی استطاعت نہ رکھتے ہو تو اس قسم کی دعوت میں شرکت کرنے کے بجائے اسے ٹھکرا دینا چاہئے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے دستر خوان پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے جہاں شراب نوشی ہو رہی ہو۔ (ترمذی شریف: 7275)
مسنون دعوتِ ولیمہ
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ کو آزاد فرما کر ان سے نکاح فرمایا،جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے پاس (کھانے کیلئے) جو بھی موجود ہے وہ لے آئے، حضرت انس ؓ فرماتے ہے کہ آپ ﷺ نے چمڑے کا دسترخوان بچھایا، اس پر کسی نے کھجوریں لا کر رکھیں، کسی نے گھی اور کسی نے ستو۔بعض روایات میں دودھ کا بھی ذکر آتا ہے۔ پھر ان سب چیزوں کو ملا کر ’’حیس‘‘ (ایک خاص قسم کا کھانا) بنایا گیا ۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ یہی نبی کریم ﷺ کا ولیمہ تھا۔ (مسلم شریف: 2561، بخاری: 305)
حضور نبی اکرم ﷺ نے اُم المؤمنین سیدہ زینب بنت جحشؓ کے ولیمہ سے بڑھ کر عمدہ ولیمہ کسی اور زوجہ سے نکاح کے موقع پر نہیں کیا۔ راوی (سیدنا انس بن مالکؓ) سے پوچھا گیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ولیمہ میں کیا کھلایا تھا، آپ ؓنے کہا لوگوں کو اس قدر کھلایا کہ لوگوں نے کھانا چھوڑ دیا‘‘ (یعنی لوگوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔(صحیح مسلم:1428)
اسی طرح ایک دوسری روایت میں سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے جب سیدہ زینب بنت جحش ؓ سے نکاح کیا تو مجھے فرمایا کہ ’’جاؤ جو مسلمان ملے اسے بلا لاؤ‘‘ سو میں گیا اور جو ملا اسے بلا لایا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنا مبارک ہاتھ کھانے پر رکھا اور دعا فرمائی ، تمام شرکاء کرام نے کھانا کھایا یہاں تک کہ سیر ہو گئے۔ (مسلم شریف:3508)
اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے اپنی بعض ازواج مطہرات ؓ کا ولیمہ ستو اور کھجور سے بھی کیا ، (بخاری شریف، کتاب النکاح 5172)
بہترین اور بدترین دعوتِ ولیمہ
یاد رکھیں! جس ولیمہ میں مالداروں کو تو بلایا جائے مگر غریبوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو ایسے ولیمہ کو اور اس کے کھانے کو نبی کریم ﷺ نے بدترین قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بدترین کھانا اس ولیمہ کاہے جس میں آنے والوں (غربا و مساکین) کو منع کیا جائے اور نہ آنے والوں (مالداروں) کو بلایا جائے، اور جس نے دعوت چھوڑ دی اس نے اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کی (مسلم شریف 2586) ۔
دوسری روایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’سب سے بدترین کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مالداروں کو بلایا جائے اور فقیروں (تنگ دست،غربا و مساکین) کو نظرانداز کر دیا جائے اور جس نے دعوت ترک کر دی، اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کی (بخاری شریف: 4779)
حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کی شادی ہوئی تو حضور نبی کریم ﷺ نے ان کے لباس پر زردی دیکھی تو ان سے پوچھا : یہ کیا ہے؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے کھجور کی ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر ایک خاتون سے نکاح کر لیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ولیمہ کرو ( اگر زیادہ استطاعت نہ ہو تو) ایک بکری ہی کا کر دو۔ ( بخاری شریف، کتاب النکاح: 5153)۔
ولیمہ میں حرام کاموں سے اجتناب
دعوتِ ولیمہ میں گانا بجانا حرام و ناجائز ہے، لہٰذا نکاح و ولیمہ کی پُرمسرت و پاکیزہ تقریب پر ایسے حرام کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت انس ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آخری زمانہ میں میری امت کے کچھ لوگ بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ ہو جائیں گے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا وہ توحید و رسالت کا اقرار کرتے ہونگے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، ہاں وہ (برائے نام) نماز، روزہ اور حج بھی (ادا) کریں گے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ پھر ان کا یہ حال کیوں ہو گا؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ آلاتِ موسیقی اور رقاصہ عورتوں کے رسیا ہوں گے اور شرابیں پیا کریں گے۔ وہ رات بھر مصروف لہو ولعب رہیں گے اور صبح ہونے پر بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ ہو چکے ہونگے۔ (ابونعیم فی حلیتہ الاولیآء، 119/3)
بُلائے بغیر دعوتِ ولیمہ میں شرکت کرنا
آج کل رواج ہو چکا ہے کہ دعوتِ ولیمہ میں بن بلائے (بغیر دعوت کے) بھی بہت سارے لوگ شریک ہو جاتے ہیں، جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے لوگوں کو چور اور لٹیرا قرار دیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ’’جو شخص بغیر دعوت کے (کھانے کیلئے) گیا، تو وہ چور بن کر داخل ہوا اور لٹیرا بن کر واپس ہوا۔ ( سنن ابی داؤد : 3741) ۔اسی طرح میزبان کی اجازت کے بغیر کسی کو اپنے ساتھ لے جانا بھی شرعاً جائز نہیں ہے، اگر آپ کسی کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں تو میزبان سے اجازت لینا ضروری ہے۔دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں سیرت طیبہﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں،آمین۔
علامہ محمد اُسید الرحمن سعیدعالم دین ہونے کے ساتھ صحافت سے بھی وابستہ ہیں، اخبارات میں لکھنے کے ساتھ ریڈیو وٹی وی سے پروگرام کر رہے ہیں