توکل علی اللہ : انبیاء اکرامؑ کا شعار

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے ، سو وہی اس کو کافی ہے (الطلاق:3)۔ جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے ، وہ ان لوگوں کیلئے ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں (الشوری:36)

اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے،سو وہی اس کو کافی ہے‘‘(الطّلاق:3)۔ قرآن و حدیث میں جا بجا اللہ پر بھروسہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ انسان کو ذرائع و اسباب اختیار کرنے کی ترغیب تو دی گئی لیکن ان پر توکل کرنے سے منع کیا گیا۔ بطور خاص اہلِ ایمان کو تلقین کی گئی کہ وہ صرف اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔ قرآن مجید میں سات مقامات پر ارشاد ہوا ہے، جس میں مومنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ (آلِ عمران: 160)

توکل کا مفہوم :توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات کو سر انجام دینے کیلئے اسباب وتدابیر اختیار کرتے ہوئے ان کی کامیابی کیلئے صرف اللہ تعالیٰ پربھروسہ کیا جائے اوران معاملات کا انجام اس کے سپرد کر دیا جائے۔ یعنی اصل اعتماد، بھروسہ اور دل کا سہارا اختیار کردہ ذرائع و اسباب پر نہ ہو بلکہ خدا کی ذات پر ہو۔ جس کا اللہ پر جتنا ایمان ہوگا ہے اس کا اللہ پر بھروسہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات میں اسے کافی ہو جاتا ہے۔

اسباب و ذرائع اور توکل: قرآن و حدیث کی روشنی میں توکل کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اسباب و ذرائع کو ترک کر دے، ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور انتظار کرے کہ میری کوشش اور محنت کے بغیر اللہ تعالیٰ میرا کام پورا کر دیں گے، مجھے کامیابی نصیب ہوگی یا مجھے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ قرآن و حدیث کی تعلیم یہ ہے کہ انسان اسباب و ذرائع اختیار کرے، حالات کا مکمل جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرے، جو اقدامات کرنے چاہیے وہ اقدامات کرے غرض یہ کہ اپنی طرف سے مکمل تیاری رکھے اور پھر اس کے بعد اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس معاملے کو اللہ پر چھوڑ دے۔

 حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا: میں (اپنی اونٹنی کو)باندھ کر اللہ پر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں؟ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اسے باندھو اور پھر توکل کرو (ترمذی: 2517)۔

 اسی طرح حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ: اہل ِ یمن حج کیلئے جاتے تو زادِ راہ ساتھ نہ لیتے، وہ کہتے تھے’’ ہم توکل کرنے والے ہیں، جب وہ مکہ پہنچتے تو لوگوں سے مانگتے پھرتے، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی’’ اور زادِ راہ لے لو، بے شک بہترین زادِ راہ تقوی ہے‘‘ (بخاری: 1523)۔ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’ ایک سفر میں حضرت معاذ بن جبلؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور گفتگو کے دوران جب رسول اللہ ﷺ نے ان کے سامنے ایک خوشخبری کا ذکر کیا تو حضرت معاذؓ نے پوچھا: کیا میں یہ بات لوگوں کو بتا دوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: انہیں یہ خوشخبری نہ سنائوں، تاکہ وہ اسی پر توکل نہ کر لیں‘‘ (صحیح مسلم:49) یعنی اگر انہیں یہ خوشخبری سنا دی تو وہ عمل کرنا چھوڑدیں گے اس لیے انہیں عمل کرنے دو۔حضرت سہلؒ کہتے ہیں کہ ’’ جو شخص ترک اسباب کو توکل کہتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر اعتراض کرتا ہے‘‘ (قرطبی189/4 )۔ 

اللہ پر توکل کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی، وہ ان لوگوں کیلئے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘ (الشوری:36)۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ پر توکل کو یہاں ایمان لانے کا لازمی تقاضا اور آخرت کی کامیابی کیلئے ایک ضروری وصف قرار دیا گیا ہے۔ توکل کے معنی یہ ہیں کہ: اولاًآدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول،حلال و حرام کے جو حدود، اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کیلئے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی بر حق ہیں اور انہی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔ ثانیاً، آدمی کا بھروسہ اپنی طاقت، قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل، اپنی تدابیر، اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے، اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہو سکتا ہے جب کہ وہ اس کی رضا کو مقصود بنا کر، اس کے مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔ ثالثاً، آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروسا ہو جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کیلئے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں، اور ان ہی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں، اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کر جائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں۔ توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے، اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہو سکتے جن کا وعدہ ایمان لا کر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے۔(تفہیم القرآن،507/4)

اسباب ووسائل اختیار کرنے کی ترغیب: انسان اسباب و ذرائع اختیار کرنے کا مکلف ہے۔ چاہے وہ اسباب بظاہر کتنے ہی کمزور کیوں نہ ہوں۔اس لیے کہ یہ اسباب کی دنیا ہے اور یہاں اسباب و ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ انبیائے کرامؑ کی زندگیوں سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ انہوں نے بھی اسباب و ذرائع اختیار کیے بظاہر وہ اسباب و ذرائع کمزور تھے۔ حضرت ایوبؑ نے جب اللہ تعالیٰ سے اپنی بیماری کی شفا یابی کیلئے دعا کی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا: اپنا پائوں زمین پر مار،یہ ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کیلئے ہے۔ یہاں غور کریں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پر پائو ں سے ٹھوکر مارنے کو کہا، تاکہ وہاں سے چشمہ پھوٹے جس کے پانی سے انہیں شفا نصیب ہو لیکن کیا پاؤں کی صرف ایک ٹھوکرہی سے زمین سے چشمہ پھوٹ سکتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ اس کے بغیر چشمہ جاری نہیں کر سکتے تھے!ضرور لیکن اس دنیا میں اسباب اختیار کرنے پڑتے ہیں اس لیے انہیں بھی اپنی شفا یابی کیلئے سبب اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسی طرح حضرت نوح ؑ کو طوفان سے بچنے کیلئے کشتی بنانے کا حکم دیا گیا (ھود:37)، نبی کریم ﷺ نے ہجرت کے موقع پر مکمل منصوبہ بندی کے بعد ہجرت کا سفر کیا۔ اسی طرح حضرت مریمؑ کو حالتِ زچگی میں کھجور کا تنا ہلانے کا حکم دیا تاکہ ان کی تکلیف کا سدباب کیا جاسکے:’’ تو اس درخت کے تنے کو ہلا، تجھ پر پکی ہوئی کھجوریں ٹپک پڑیں گی، پس تو کھا اور آنکھیں ٹھنڈی کر‘‘ (مریم:25)۔ کھجور کا تنا ہلائے بغیر بھی انہیں کھجور مہیا کی جاسکتی تھی لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی تکلیف کو دور کرنے کیلئے سبب اختیار کرنے کا حکم دیا۔

اسی طرح حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ اگر تم اللہ پرا یسے توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسا کہ پرندوں کودیتاہے، جو صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر واپس ہوتے ہیں‘‘(ترمذی:2344) اس حدیث میں بھی اسباب ووسائل اختیار کرنے کی ترغیب دینے کے بعد اللہ پر توکل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ پرندہ اپنے گھونسلے میں بیٹھ کر پیٹ بھرنے کا انتظار نہیں کرتا بلکہ باہر نکل کر کوشش کرتا ہے لیکن اس کا بھروسہ اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ خدا کی ذات پر ہوتا ہے۔

بھروسہ خدا پر ہو، اپنی صلاحیتوں پر نہیں: انسان جو کام بھی کرے اس کی کامیابی کیلئے اللہ ہی پر توکل کرے اس لیے کہ اسباب کو پیدا کرنے والی ذات خدا کی ہی ہے۔ اگر وہ ان اسباب کو غیر مؤثر کردے تو انسان لاکھ کوششیں کر لے صرف ان اسباب و ذرائع کے سہارے کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ اس آگ سے جلے نہیں حالانکہ آگ کا کام ہی جلانا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو غیر مؤثر کردیا تھا اور اس آگ میں اپنی صفت کے متضاد کیفیت پیدا ہوگئی کہ وہ جلانے اور تپش دینے کے بجائے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی (الانبیاء:69)۔ اسی طرح جب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلا ئی تو چھری نے اپنا کام نہیں کیا (الصافات، 107)۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ اسباب کو اختیار کرتے ہوئے بھی توکل اللہ ہی پر کرے کہ وہی اس میں اثر ڈال سکتا ہے۔

توکل علی اللہ کے فائدے:اللہ پر توکل کرنے کا اجر بھی ہے اور اس کے کئی ایک فوائد بھی ہیں۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات کیلئے کافی ہوجاتے ہیں۔ سورہ الطلاق میں ارشاد فرمایا: ’’اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے‘‘ (طلاق:3) ۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو اللہ پر توکل کرتا ہے وہ اللہ کے پسند یدہ بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔(آلِ عمران: 159 )۔

توکل کرنے کا اجر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو وہ انعامات دیتا ہے جو دنیا کے مقابلے میں بہتر بھی ہے اور ہمیشہ رہنے والے بھی ہیں (الشوری:36)۔جو شخص گھر میں داخل ہوتے وقت کی وہ دعا پڑھتا ہے جس میں توکل علی اللہ کا ذکر ہے توحضرت انس ؓکی روایت کے مطابق اس دعا کی بدولت اسے تین بشارتیں ملتی ہیں۔ دعا کے الفاظ یہ ہیں: اللہ کے نام سے، اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہوئے، نیکی کی توفیق اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ ہی دیتا ہے، تو اس کے جواب میں فرشتہ کہتا ہے، تجھے ہدایت دی گئی، تو محفوظ ہو گیا اور یہ کلمات کافی ہو گئے (ترمذی:3426)۔ 

توکل کا اجر بیان کرتے ہوئے ارشادباری تعالیٰ ہے:’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم انہیں ضرور جنت کے بالا خانوں پر جگہ دیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ہمیشہ ان میں رہیں گے، عمل کرنیوالوں کیلئے کیا ہی اچھا اجر ہے۔ وہ لوگ کہ جنہوں نے صبرکیا اور اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں‘‘(عنکبوت:58،59 )۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہﷺ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا ’’جو آگ سے داغ کر علاج نہیں کرواتے، جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بدفالی نہیں لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری:6541)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔