کشمیر کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت
اذان کی تکمیل کیلئے 22افراد کی شہادت،14اگست 1931ء کو ’’کُل ہند یوم کشمیر‘‘ منانے کا اعلان ہوا 1339ء سے 1818ء تک مقبوضہ کشمیر پر مسلمان حکمران رہے ،1819ء میں رنجیت سنگھ نے لشکر کشی کی ،1846ء میں برطانوی سامراج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا
کسی سے بھی پوچھا جائے کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا اور یہ کب شروع ہوا؟تو سب یہی حقیقت بتاتے ہیں کہ1947ء میں بھارت نے تقسیم اور آزادی کے بنیادی فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی فوجیں زبردستی کشمیر میں اتار دیں۔تب ہی سے کشمیری عوام ہر طرح کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے جدوجہد آزادی کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ جواب درست ہے لیکن یہ جواب ادھورہ ہے۔ صدیوں پہلے کشمیر کی سرزمین نورِ اسلام سے منور ہونا شروع ہو گئی تھی۔ 1339ء سے 1818ء تک کی تقریباً پانچ صدیاں وہاں باقاعدہ مسلم سلطنتیں قائم رہیں۔ 1819ء، یعنی آج سے تقریباً دو سو تین سال قبل رنجیت سنگھ لشکر کشی کرتے ہوئے وہاں قابض ہو گیااور مسلمانوں کے خلاف حکومتوں کا ایک دور شروع ہوا۔
1846ء میں برطانوی سامراج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا، اور اس قبضے میں ساتھ دینے والے مہاراجہ گلاب سنگھ معاہدہ کرتے ہوئے 75 لاکھ روپے کے عوض پوری سرزمینِ کشمیر اور اس کی ساری آبادی اس کے ہاتھوں فروخت کر دی۔ کشمیری عوام بالخصوص مسلمانوں کی آزمائش میں مزید اضافہ ہو گیا اور اس کے خلاف گاہے بگاہے احتجاج اور مزاحمت بھی ہوتی رہی۔
تاریخ کشمیر میں 29اپریل 1931ء ایک ایسا دن ہے جسے آج تک جاری جدوجہد کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔کشمیر میں اس دن عید الضحیٰ کا دن تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں فرزندانِ توحید نمازِ عید ادا کرنے گھروں سے نکلے۔ میونسپل کمیٹی جموں کے باغ میں ادا کی جانے والی نماز کے خطبے کے دوران امام صاحب نے حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت بیان کرتے ہوئے ہر ہر دور میں ظلم اور باطل کے خلاف کلمہ حق کہنے والوں کا ذکر کیا۔ اسی ضمن میں حضرت موسیٰؑ اور فرعون کا ذکر بھی آیا۔ وہاں موجود ڈی آئی جی رام چند نے اس واقعہ کو مہاراجہ کے خلاف جذبات بھڑکانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے خطبہ عید ختم کرنے اور نماز ادا کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ ابھی بندشِ خطبہ کے اس نادر حکم نامہ پر مسلمانوں کے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوئے تھے کہ 4جون 1931ء کو جموں پولیس لائنز ایک مسلمان کانسٹیبل کو قرآن ِ کریم کی تلاوت کرتے دیکھ کر ایک ہندو کانسٹیبل نے برا بھلا کہتے ہوئے قرآنِ کریم کی بے حرمتی کر دی۔ اس واقعہ کے باعث پورے کشمیر کے مسلمانوں کے درمیان غم و غصے کے لہر دوڑگئی۔ شہر شہر احتجاج ہونے لگا۔ انہی احتجاجی پروگراموں میں سے ایک کے دوران کشمیر میں سیاحت کیلئے آیا ہوا ایک نوجوان عبدالقدیر خان بھی شریک ہو گیا۔ ایک غیر کشمیری مسلمان کا لب و لہجہ سن کر سب اس کی طرف متواجہ ہوئے اور اس کی جذباتی تقریر سے متاثر ہوئے۔ لیکن مقامی انتظامیہ نے عبدالقدیر خان کو فوراً گرفتار کرتے ہوئے اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا۔ معاملہ کے نوعیت ایسی تھی کہ ہر شہری کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ مقدمہ کی سماعت کا موقع آیاتو عوام کی بڑی تعداد کمرہِ عدالت میں جمع ہو گئی۔ انتظامیہ نے اس صورت میں آئندہ سماعت سینٹرل جیل سری نگر کے اندر ہی کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر 13جولائی 1931ء کی سماعت کی تاریخ مقرر کی گئی۔ جیسے ہی مقررہ دن آیا بڑی تعداد میں مسلمان جیل کے باہر جمع ہو گئے۔ یہی وہ دن تھا جب کشمیر کی تاریخ کا ایک منفرد اور ایمان افروز واقعہ پیش آیا۔
جیل کے اندر سماعت جاری تھی اور باہر عوام کی بڑی تعداد جمع تھی۔ اسی دوران نمازِ ظہر کا وقت ہوا تو ایک نوجوان نے قریبی دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کر دی۔ ابھی اس نے اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ پولیس نے گولی چلاتے ہوئے اس نوجوان کو شہید کر دیا۔اگلے ہی لمحے اس شہید موذن کی جگہ دوسرا نوجوان کھڑا ہوااور اذان دینے لگا،پولیس نے اسے بھی شہید کر دیا۔ پھر شہدائے اذان کاتانتا بندھ گیا۔ اذان کی تکمیل تک22 نوجوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان 22شہدائے اذان میں سے صرف 2افراد پچاس سال سے زائد عمر کے تھے، 13 نوجوان 19 سے 25سال کے تھے اور7 شہداء 25سے 50 سال کے درمیان تھے۔
اس واقعہ کی باز گشت کشمیر ہی میں نہیں پورے بھارت تک پہنچی۔پورے ہندوستان سے مسلمان علماء شملہ میں جمع ہوئے اور ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی وجود میں آئی۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال خود اس اجلاس میں شریک ہوئے اور کمیٹی کے رکن بنائے گئے۔اجلاس میں 14اگست 1931ء کو ’’کل ہند یومِ کشمیر‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا۔ 14اگست1931ء کو ہندوستان کے طول و عرض میں مظاہرے اور جلسے منعقد ہوئے۔ لاہور میں ہونے والے جلسے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد شرکاء جمع ہوئے اور علامہ محمد اقبال نے ان سے خطاب کیا۔
مسئلہ کشمیر کے تمام پہلو اور حقائق بہت اہم ہیں۔ تقسیم اور آزادی ہند کے تاریخی اصول کے مطابق اس غالب مسلم اکثریتی علاقے کو پاکستان ہی کا حصہ بننا ہے۔ پاکستان کے تمام دریا کشمیر ہی سے بہتے ہیں۔ کشمیر کے تمام راستے پاکستان ہی کی جانب کھلتے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے دریاؤں پر ایک کے بعد ایک ڈیم کی تعمیر کرتے ہوئے پاکستان کے دریاؤں کو خشک اور زمینوں کو بنجر کر دینا چاہتا ہے۔ بارشوں کے موسم میں وہ ان ڈیموں کے ذریعے پاکستان کو ڈبو نے کا اختیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔
کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی متعدد قراردادیں ہندوستانی وعد وں اور عالمی برادری کو منہ چڑا رہی ہیں۔ دونوں پڑوسی ایٹمی ریاستوں کے مابین کشمیر ہی کے مسئلے پر کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور مزید کا خدشہ ہے ۔ کئی صدیوں پر محیط اس جدوجہد کو اس زاویہ سے دیکھنا بھی بہت اہم اور ضروری ہے کہ کشمیری عوام ہر دور میں سازشوں اور کڑی آزمائشوں کا سامنا کرتے رہے ۔ اپنے اور پرائوں کے ہاتھوں انہیں بہت دکھ جھیلنا پڑے ۔ خود کشمیری قیادت میں سے کئی لوگ اقتدار یا دولت کی لالچ کا شکار ہو کر کشمیر پر قابض قوتوں کے ساتھ مل گئے اور دشمن کی زبان بولنے لگے۔ برطانوی سامراج ہوں یا آج کی عالمی طاقتیں، ان کی تمام تر حمایت کشمیریوں کے حقوق غضب کرنے والوں کے ساتھ رہی۔ برطانوی سامراج نے اپنے عہد کے آغاز میں بھی کشمیر کا سودا کیا اور 1947ء میں یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے بھی ہندوستانی افواج کیلئے گرداس پور کا خصوصی راستہ فراہم کرتے ہوئے انہیں کشمیر پر قابض کروا دیا۔ اقوام متحدہ کی تاریخی قرار دادوں کو کاغذ کے حقیر ٹکڑوں سے زیادہ اہمیت نہ دیئے جانے کی ذمہ داری بھی انہی عالمی قوتوں پرعائد ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں بھارت میں قابض مودی کی ہندوتوا پالیسی نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کی نئی داستاں رقم کی۔ آج جب ہندوستان کا متعصب وزیراعظم کشمیر کی خصوصی قانونی اور دستوری حیثیت کو خاک میں ملاتے ہوئے کشمیریوں سے ان کی شناخت اور جذبہ آزادی تک چھین لینا چاہتا ہے، تو یہی عالمی طاقیتں پھر اس کی پیٹھ تھپک رہی ہیں ۔
5اگست 2019ء کو بھارت کی متعصب ہندو حکومت نے دستوری ترامیم کے ذریعے سازشوں اور ظلم و ستم کا جو نیا دور شروع کیا ہے، وہ اہل کشمیر سے ان کا تشخص اور جذبہ سلب کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا لالچ بھی ہے۔ پورے ہندوستان سے بھارتی شہریوں کو کشمیر میں لا کر بساتے ہوئے وہاں مسلم اکثریت ختم کر دینے کا ناپاک ارادہ بھی ہے۔ یہ عین اسی طرح کی کوشش بھی ہے جو گزشتہ پوری صدی کے دوران دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں ڈھوتے ہوئے، وہاں اہلِ فلسطین کو اجنبی بنا کررکھ دینے کیلئے کی جا رہی ہے۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ اہلِ فلسطین کے دل سے بھی جذبہ آزادی ختم کرنا تو دور کی بات کم بھی نہیں کی جا سکی۔اہلِ کشمیر کی قربانیوں اور جدوجہد کی تاریخ بھی یہ واشگاف اعلان کر رہی ہے کہ بھارتی سورماؤں کی سازشیں اور شہادتوں کا سفر کتنا بھی خوف ناک نہ ہو جائے اہلِ کشمیر اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ کشمیر میں لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود کشمیر میں مسلسل بھارتی پابندیاں وہاں مسلم عوام کے اسی یقینِ فتح اور قابض بھارتی افواج کے خوف کا ایک ثبوت ہے۔
جب کشمیر میں ہندوؤں کی حکومت کمزور ہونے لگی تو دوسرے طرف ہندوستان میں صوفیائے کرام اور اولیا اللہ کی کاوشوں سے اسلام کی اشاعت تیز ہونے لگی۔ میر سید علی ہمدانی اور آپ کے ساتھ آئے تقریباً سات سو سے زائد پیروکاروں نے کشمیر میں اسلام کی ترویج و تبلیغ کی خدمات سر انجام دیں اور کشمیریوں کی دینی و روحانی تربیت ان کے دلوں کو زندہ کیا جس کی تاثیرہے کہ وہ آج بھی اسی طرح زندہ ہیں۔
خاندان شاہ میر کی دو سالہ دورِ حکومت کا خاتمہ1586ء میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر کو مغل سلطنت میں شامل کر کے کیا۔ مغلوں کے بعد کشمیر پر افغان مسلمانوں نے حکومت کی۔ کشمیر میں روشن اسلامی دور حکومت کا خاتمہ 1819ء کو سکھوں نے کیا۔ صوفیاء کے روشن کردہ اسلام کے چراغ کشمیر میں آج بھی روشن ہیں اور وہاں کا تہذیب و تمدن ان کی تعلیمات اور فلسفہ کی عکاسی کرتا ہے۔ لوگ آج بھی اپنے علاقے میں موجود خانقاہ یا مسجد میں اکٹھا ہو کر علاقے کے مسائل کو حل کرتے ہیں۔
کشمیر کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جس علاقے پر بھارت آج اپنا ناجائز حق جتاتا ہے وہ درحقیقت کبھی بھی کسی بھی طرح سے اس کا حصہ تھا ہی نہیں۔یہ انگریزوں اور ہندوئوں کے مذموم عزائم تھے جن کو پورا کرنے کے لیے قانون تقسیم ہند میں غیر قانونی تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے بھارت نے اِس سر زمین پر قبضہ کیا، جس زمین کے ٹکڑے سے بھارت کا کوئی زمینی رابطہ نہ تھا اور نہ کوئی مماثلت۔کشمیر میں بسنے والے تقریباً پچہتر فیصد مسلمانوں کا مذہب ، تہذیب و تمدن ، رسومات ہندوئوں سے الگ تھا۔ یہ ایسی بنیادیں تھی جس کی وجہ سے مسلمان اور ہندو کبھی ایک نہیں ہو سکے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ کشمیریوں نے مسلم دور حکومت کے خاتمے کے بعد کسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اورتقسیم ہند کے وقت بھی وہ بھارت کے ساتھ الحاق کے مخالف تھا۔ مگر جغرافیائی اعتبار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اس حصہ کو تاریخ میں برصغیر کی مرکزی حکومت نے کم ہی کنٹرول کیا ہے سوائے مسلمان حکمرانوں کے جو ایک کامل دلیل ہے کہ یہ خطہ زمین مسلمانوں سے جڑا ہے ۔ تاریخی ، تہذیبی ، تمدنی ، مذہبی و دینی ، روحانی ، ثقافی ، خونی ، سیاسی ، سماجی اور ہر ایک رشتے کی گہرائی میں کشمیر کا کوئی لنک بھارت سے نہیں بنتا۔ مذکورہ تمام رشتے جب کسی قوم سے میل و رغبت نہیں کھاتے تو حیرت ہے کہ وہ ملک کشمیر پہ زبردستی کیوں قابض رہنا چاہتا ہے ۔
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
کشمیری عوام نے اپنے حق خود ارادیت کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ کشمیریوں نے اس تحریک کو اپنا خون دے کر زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ جہدِ مسلسل ایک دن رنگ ضرور لائے گی اور کشمیری آزاد فضاؤں میں اپنے رب کا شکر بجا لا رہے ہوں گے۔ ہم سب کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ کبھی اور کسی صورت اپنے نبیﷺ کے امتی کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوریں گے۔ اور اس ضمن میں ہم سب کو اپنا اپنا فرض ادا کرنے کی ضرورت ہے۔