جھوٹ بولنے والوں کا انجام قرآن و احادیث کی روشنی میں
جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے (ترمذی : 1979)
ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری : 6095)
حضور اکرم ﷺ کی ذات ہی خوبیوں والی ہے، اس لیے آپﷺ کی زندگی کو اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا ہے اور قرآنی اخلاق کا مجسمہ قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام صفات میں سے بعض ایسی صفات بھی ہیں جنہیں اہل ایمان تو کیا آنحضور ﷺ کے جانی دشمن بھی تسلیم کرتے تھے ان میں سے ایک سچائی ہے۔ جب آپﷺ نے قریش کے سامنے دعوتِ اسلام کا آغاز فرمایا تو پوری تاریخ میں کہیں اس بات کا ثبوت نہیں ملے گا کہ آپﷺ کے مخالف، دشمن یا کسی اور کافر نے آپﷺ کو جھوٹا کہا ہو، حتیٰ کہ ابوجہل بھی آپﷺ کی توحید کی تعلیم کے جواب میں یہ کہتا تھا کہ اے محمدﷺ میں آپﷺ کو جھوٹا نہیں کہوں گا، حتیٰ کہ آپﷺ کے مخالفین آپﷺ کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے۔
اس عملی انداز سے نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہم دنیا میں اسلام پھیلانا چاہتے ہیں اور یہ ہماری آرزو ہو کہ کفار بھی اسلامی تعلیمات کو سچ اور صحیح مان لیں تو اس کے لیے مجسمہ سچائی بن جانا ہو گا۔ جھوٹا شخص لوگوں میں اپنا اِعتمادضائع کرکے ذلیل بھی ہوتا ہے اور اللہ کریم کی نوری مخلوق یعنی فرشتے بھی ایسے شخص کے پاس نہیں آتے، جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے‘‘ (ترمذی،باب ماجاء فی الصدق والکذب، حدیث:1979)۔معلوم ہوا کہ جس طرح اس مادی عالم میں مادی چیزوں کی خوشبو اور بدبو ہوتی ہے اسی طرح اچھے اور بُرے اعمال اور کلمات میں بھی خوشبو اور بدبو ہوتی ہے جس کو اللہ کے فرشتے اسی طرح محسوس کرتے ہیں، جس طرح ہم یہاں کی مادی خوشبو اور بدبو محسوس کرتے ہیں۔
جھوٹ کی بعض قسمیں تو انتہائی سخت گناہ لازم کر دیتی ہیں کتب حدیث میں ہے کہ ایک دن حضور ﷺ صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے اور فرمایا جھوٹی گواہی کا اتنا ہی گناہ ہے جتنا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا اور پھر آپﷺ نے سورہ حج کی یہ آیت تین مرتبہ تلاوت فرمائی:’’یعنی بت پرستی کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو‘‘(الحج:30)۔اس آیت میں خدائے عزوجل کے طرزِ کلام سے معلوم ہو رہا ہے کہ بت پرستی اور جھوٹ کہنا دونوں برابر ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کیلئے ’’اجتنبوا‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ’’یعنی تم بچو‘‘ اسی طرح جھوٹی قسم کھانا اور دوسرے کو جھوٹی قسم کھا کر مارے‘ وہ اللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر پیش ہو گا۔
یہ تو جھوٹ کی وہ شکلیں تھیں جنہیں ہمارے معاشرہ کے سمجھ دار افراد بھی بُرا سمجھتے ہیں لیکن یہاں جھوٹ کی ایک ایسی شکل بھی ہے، جسے اہل معاشرہ جھوٹ ہی نہیں سمجھتے بلکہ اسے مختلف نام دے کر اچھا سمجھتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ان سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی۔ عبداللہ بن عامر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے پکارا ، جلدی سے آئو میں تجھے کچھ دوں گی، حضور ﷺنے فوراً میری والدہ سے پوچھا تم اس بچے کو کیا چیز دینا چاہتی ہو والدہ نے کہا میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’یاد رکھنا اگر اس کہنے کے بعد تم بچے کو کوئی چیز نہ دیتیں تو تمہارے نامۂ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔‘‘
اس ارشاد سے آپ ﷺنے امت کو ایک اہم سبق سکھایا کہ بچوں کو بہلانے کے لیے بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے اس کی بڑی اہم حکمت یہ ہے کہ ماں باپ اگر بچوں سے جھوٹ بولیں اگرچہ ان کا مقصد بہلانا ہی ہو پھر بھی بچے اس سے جھوٹ بولنا سیکھیں گے اور وہ بھی یہی سمجھیں گے کہ کبھی کبھار جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سنی سنائی باتیں لوگوں تک بغیر تحقیق کے پھیلانا بھی جھوٹ میں داخل ہے ۔معاشرہ میں افواہیں بھی اس طرح پھیلتی ہیں اور لوگ ذہنی کوفت اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس کا الگ گناہ ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے، اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری: 6094)
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اس شخص کیلئے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کیلئے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کیلئے جو خوش خلق ہو‘‘(ابوداؤد : 4800)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بیشک خدا اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (الزمر: 3)، دوسری جگہ آتا ہے ’’اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔‘‘(التوبہ:119)،اللہ رب العزت ہمیں جھوٹ بولنے سے بچائے اور پوری زندگی سچ بولنے کی توفیق اور دنیا و آخرت میں سچوں کا ساتھ عطا فرمائے۔آمین