علم اور عمل ، علم جب تک عمل سے واصل نہ ہو ، وجود پر وارد نہیں ہوتا
علم اور عمل وہ تو ام حقیقتیں ہیں، ان میں سے ایک کی نفی کر دی جائے تو دوسری حقیقت بھی آشنائے دوام نہیں ہوتی
علم اپنی اصل میں ایک بحر بیکراں ہے اور انسانی علم اس میں تیرتے ہوئے ایک بجرے کی مانند ہے۔ عمل کے بغیر اس کی قسمت میں ساحل مراد نہیں! وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے، انسان کے خلاف ایک فرد جرم بن جاتا ہے۔ علم حاصل کرنا فرض ہے تو اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ واجبات ترک کر دیئے جائیں تو نوافل کام نہیں آتے ،علم پر عمل کر لیا جائے تو علم ایک اثاثہ بن جاتا ہے وگرنہ واجبات بلکہ واجب الادا قرضہ جات!!
علم اور عمل وہ تو ام حقیقتیں ہیں۔ ان میں سے ایک کی نفی کر دی جائے تو دوسری حقیقت بھی آشنائے دوام نہیں ہوتی۔ علم جب تک عمل سے واصل نہ ہو، وجود پروا رد نہیں ہوتا اور جب تک وجود پر وارد نہ ہو، قابل بیان نہیں ہوتا اور جب تک قابل ’’بیان‘‘ نہ ہو، دوسروں کیلئے قابل عمل نہیں ٹھہرتا۔ دراصل علم صرف زبانِ حال سے بیان ہوتا ہے۔
عمل کے بغیر علم ایسے ہی ہے، جیسے کسی ریستوران کی سیڑھیوں پر رکھے ہوئے پلاسٹک کے گملوں میں کاغذ کے گلاب راہ چلتے لوگوں کی نظر لبھائیں، لیکن ماحول کو خوشبو وار نہ کر پائیں! علم اور عمل میں وہی تعلق ہے، جو پھول اور خوشبو میں ہوتا ہے۔ وہ علم جس پر عمل نہ ہو، محض معلومات کا’’خزانہ‘‘ہے۔ ایسے خزانے انسانی دماغوں سے کہیںزیادہ بہتر اور منظم طور پر لائبریریوں اور کمپیوٹروں میں’’محفوظ‘‘ ہوتے ہیں۔ درحقیقت علم وہی ہے، جو وجود پر وارد ہو جائے اور یہی وہ علم ہے جو وجود کو جمود سے نکال کر وجد میں داخل کر دیتا ہے۔
ایک بے سمت اور بے مصرف ذہنی مصروفیت کا نام علم نہیں! حصول علم کا ایک مقصد حاضر و موجود سے نجات بھی ہے۔ ایک صاحب علم کو خود سے نجات کا علم بھی آنا چاہیے۔ وہ علم جو وجود کی کشش سے نجات نہ دے سکے، اس سے نجات پانے کی دعا کرنی چاہیے۔ وہ علم جو انسان کو لطافت کی بہشت سے نکال کر کثافت کی زمین پر ہبوط کر دے، اس پر توبہ واجب ہے کہ یہی وہ علم ہے جو نفس پر ظلم ایجاد کرتا ہے۔ علم خود شناسی بھی ہے اور خود احتسابی بھی! ستم یہ ہے کہ ہمارا سارا’’علم‘‘ اپنی مہلت علم سمیت دوسروں کے اعمال کا احتساب کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ یوں زندگی خرچ ہو جاتی ہے اور خاطر تک جمع نہیں ہو پاتی! دن کی روشنی کا علم اگر ہماری رات میں چراغاں نہ کر سکے، تو روشنی کا علم کس کام ٹھہرا!
جب انسان اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو وہ علم دینے والے سے بے وفائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ بے عمل انسان وقت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، باعمل شخص وقت کے اسی سیل رواں کو موڑ دیتا ہے۔ پہیم عمل کرنے والی قومیں وقت کے تیز دھارے کو آبشاروں ، جھیلوں اور ندیوں کی شکل دے کر جہان رنگ وبو میں رنگا رنگ گل کاریاں پیدا کر دیتی ہیں۔ بے عمل قوم ہر سال کسی سیلاب بلا کا شکار ہوتی ہے۔
علم کے بعد بے عمل، دراصل اپنے ہی علم پر بے یقینی کا اعلان ہے۔ علم پر یقین نہ ہو، تو عمل کی طرف قدم نہیں بڑھتا، عمل کی شاہراہ پر چلنے والے اپنے علم کو عین یقین کی آنکھ سے دیکھ لیتے ہیں، اسے مشاہدہ کہتے ہیں۔ مشاہدے کے بعد مجاہدے میں مداومت کا عمل دو قدم ہے۔ اس طریق پر چلنے والے مسافر چلتے چلتے خود سنگ میل کی صورت ہو جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر قافلے اپنا قبلہ درست کرتے ہیں اور نئے سرے سے ہمت باندھتے ہیں!!
انسان کو علم اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ فنا سے بقا کی طرف ہجرت کر سکے، حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں’’ اگر علم کا مدعا خوشنودی ٔ خلق ہے تو حجاب اور اگر علم کا منشاء رضائے حق ہے تو نور، بلکہ نور علیٰ نور!!‘‘
ایک دنیا دار آدمی اس لئے علم حاصل کرتا ہے کہ لوگوں کو مرعوب کر سکے۔ لوگ دولت اور حکومت سے بھی خلق خدا کو مرعوب کرتے رہتے ہیں ایسے لوگوں کو جاہل کہا جاتا ہے۔ وہی عام سے کام جو لوگ دولت اور حکومت سے کرتے رہتے ہیں، اگر علم کو ذریعہ بناتے ہوئے کیے جائیں، تو جہالت کے اس درجے کو کیا کہیں گے؟ اگر حصول علم کا مقصد مادی منفعت ہے تو ایسا علم، نفع بخش نہیں ہوگا، گھاٹے کا سودا نکلے گا!! علم اگر صرف جان لینے کی تمنا تک محدود رہے تو جان لے کر رہے گا!! آج کے دور کا علم معاشیات لوگوں سے معیشت چھین لینے کا ہنر سکھاتا ہے۔
موجودہ دور کا علم طب، معالجین کو صرف بیماریوں کی تشخیص کرنے اور ادویات تجویز کرنے کا لائسنس فراہم کرتا ہے، انہیں مریضوں سے ہمدردی کی تعلیم نہیں دیتا۔ بیماروں سے زیادہ بیماریوں میں دلچسپی لینے والا معالج شفا کے تصور سے ناآشنا ہے۔ معالج کا اخلاص اور اخلاق ہی مریض کیلئے شفا کی نوید ہوتی ہے ۔
غلطی سے ہم ٹیکنیکل تعلیم کو علم سمجھے بیٹھے ہیں، حالانکہ فنی تعلیم محض ایک ہنر ہے۔ ہنر مند افراد جب تک خدمت کا ہنر نہیں سیکھتے، ان کی ہنر مندی نو سر بازی کی ایک ترقی یافتہ شکل بن جاتی ہے۔ علم جب تک قربانی دینے کا ہنر نہ سکھائے، منفعت بخش نہیں ہوتا نہ اپنے لیے، نہ مخلوق خدا کیلئے! جو علم رب کی طرف سے آئے گا، وہ مخلوق کی ربوبیت کرے گا!
انسان جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے، اس پر اخلاق اور روحانیت کی تعلیم بھی اسی انداز اور رفتار سے واجب ہوتی چلی جاتی ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے موٹروے پر دوڑنے والی گاڑیاں لوہے کی پٹڑی پر پھسلنے والی سبک رفتار بلٹ ٹرین اور ہوا کے دوش پر تیرنے والے جمبو جیٹ اگر نظم و ضبط کے پروٹوکول کی پاسداری نہ کریں تو نتائج خوفناک مرتب ہوتے ہیں۔ گلوبل ویلیج میں انفرادی غلطی کا نتیجہ اجتماعی نکلتا ہے اس طرح، پہلے کی طرح آج بھی تعمیر ملت کیلئے فرد کی اصلاح فرد اً فرداً ضروری ہے!
ڈاکٹر اظہر وحید معروف ادیب اور متعدد
کتب کے مصنف ہیں، زیر نظر تحریر ان
کی کتاب’’حرف آغاز‘‘سے اقتباس ہے