نیکیوں میں سبقت ، ایمان کا تقاضہ

تحریر : مفتی محمد اویس اسماعیل


پس تم نیکیوں کی طرف دوڑو (البقرہ 148) ، نیکیوں میں سبقت لیجانے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے بار بار تلقین کی

’’دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کیلئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘(الحدید:21)۔

قرآن و حدیث میں اہلِ ایمان کو نیکیاں کرنے کی بار بار ترغیب دی گئی اور اس کے لیے مختلف اجر و ثواب کا وعدہ کر کے اس کی رغبت پیدا کی گئی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر نیکیاں کرنے کے ساتھ ساتھ نیکیوں میں پہل کرنے، نیکی کرنے کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور اس معاملے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ اس پر حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ 

قرآن و حدیث کی تعلیمات: نیکیوں  میں سبقت کرنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ نے بار بار تلقین کی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: ہر ایک کیلئے ایک رخ ہے جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔ جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پالے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے (البقرہ،148)۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ الخیرات آیا ہے۔ اس کا واحد الخیر ہے۔ خیرات کا  لفظ اردو میں جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے عربی میں اس کا وہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ہر قسم کی نیکی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ہر وہ کام جو شریعت کے مطابق کیا جائے اور مقصد محض رب کی رضا ہو۔ الخیرات میں شامل ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسر سعدیؒ لکھتے ہیں: نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا حکم، نیکی کرنے کے حکم پر ایک قدر زائد ہے، کیونکہ نیکیوں کی طرف سبقت، نیکیوں کے کرنے، ان کی تکمیل، تمام شرائط کے ساتھ ان کی ادائیگی اور اسے جلدی کرنے پر مشتمل ہے۔ جو کوئی اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت لے جائے گا۔ پس السابقون (سبقت کرنے والے) مخلوقات میں بلند ترین درجے پر فائز ہوں گے۔(تفسیر سعدی،72)

اسی طرح قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ارشاد فرمایاگیا: ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ  خدا ترس لوگوں کیلئے مہیا کی گئی ہے‘‘(آلِ عمران:133)۔

 جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں ان کا اجر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں، وہی تو مقرب لوگ ہیں۔ نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے‘‘ (الواقعہ:10-12)۔ سورہ الواقعہ کی اس آیت مبارکہ میں السابقون کا تذکرہ ہے، اس کی مز ید تشریح اس حدیث مبارک سے ہوتی ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اہل جنت اپنے اوپر کے بالا خانے والوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے مغربی یا مشرقی گوشہ کے قریب ایک روشن ستارہ کو دیکھتے ہوں اس فضیلت کی وجہ سے جو ان کے درمیان ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! وہ تو انبیائؑ کے مقامات ہیں ان کے علاوہ وہاں کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا تو آپﷺنے ارشاد فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے! وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی وہ وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ (بخاری: 3256)

مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں: سابقین (آگے والوں) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی اور حق پرستی میں سب پر سبقت لے گئے ہوں، بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے ہوں، خدا اور رسول ﷺکی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے ہوں، جہاد کا معاملہ ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کا یا خدمت خلق کا یا دعوت خیر اور تبلیغ حق کا، غرض دنیا میں بھلائی پھیلانے اور برائی مٹانے کیلئے ایثار و قربانی اور محنت و جانفشانی کا جو موقع بھی پیش آئے اس میں وہی آگے بڑھ کر کام کرنے والے ہوں۔ اس بنا پر آخرت میں بھی سب سے آگے وہی رکھے جائیں گے۔ گویا وہاں اللہ تعالیٰ کے دربار کا نقشہ یہ ہوگا کہ دائیں بازو میں صالحین، بائیں بازو میں فاسقین، اور سب سے آگے بارگاہ خداوندی کے قریب سابقین۔ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا: جانتے ہو قیامت کے روز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سایہ میں جگہ پائیں گے؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے۔ 

فرمایا ’’وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا انہوں نے قبول کر لیا، جب ان سے حق مانگا گیا انہوں نے ادا کر دیا، اور دوسروں کے معاملہ میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو خود اپنی ذات کے معاملہ میں تھا۔ (مسند احمد)۔ 

 اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بندہ مؤمن کو  نیکی کے ہر کام میں پہل کرنی  چاہیے جس کی وجہ سے وہ السابقون کی فہرست میں اپنا نام درج کروا سکے۔ 

اسی طرح نماز جمعہ کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ جب نمازِ جمعہ کے لیے پکارا جائے تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف(الجمعہ: 9) اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا: اس نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں وہ تم کو آزمانا چاہتا ہے لہٰذا تم نیک کاموں میں سبقت کرو تم سب کو اللہ ہی کی طرف واپس جانا ہے۔(المائدہ:48)

 اسی طرح ایک حدیث مبارک میں رسول اللہ ﷺ نے  نیک کام میں مسابقت پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں نماز پڑھنے کا کتنا اجر ہے پھر ان کے لیے قرعہ اندازی  کے سوا کوئی چارہ نہ رہے تو وہ ضرور قرعہ انداز ی کریں‘‘۔ (مسلم:437) 

انبیاے کرامؑ اور مؤمنین کی خصوصیت : اسی طرح قرآن مجید میں دومقامات پر انبیائے کرامؑ اور اہل ِ ایمان کی ایک ایسی خصوصیت کا ذکر کیا گیا ہے جو ان دونوں گروہوں میں مشترک ہے۔ اور وہ ہے نیکیوں میں سبقت حاصل کرنا۔ انبیاے کرامؑ کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: ’’یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔ (الانبیاء: 90) اور اہل ِ ایمان کے متعلق ارشاد فرمایا گیا: ’’بے شک وہ لوگ جو اپنے رب کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں، جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، اور جن کا حال یہ ہے کہ جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل ان کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پالینے والے ہیں۔ (المؤمنون: 57-61)

صحابہ کرامؓ کا کردار: صحابہ کرامؓ نبی کریم ﷺ کے براہ راست تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مال و آپ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جو خوشخبری دی تھی وہ سنانے آیا ہوں۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ ابوبکر ؓ تم سے سبقت لے گئے ہیں، یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا کہ اگر انہوں نے یہ کام کیا ہے تو وہ نیکیوں کے معاملے میں ہمیشہ سبقت کرنے والے ہیں۔ (مسند احمد:265) 

اس حدیث سے ایک  بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ نیکی کا تصور محض عبادات تک محدود نہیں بلکہ ایک جامع تصور ہے، جیسے کسی مسلمان بھائی کو خوش کرنا بھی نیکی ہے۔ دوسری بات یہ کہ صحابہ کرام ؓ نیکیوں کے معاملے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔

پس عقلمند وہ ہے جو نیکی کرنے کے معاملے سستی نہ دکھائے، نیکی کرنے میں پیچھے رہ جانے والوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے نیکی میں سبقت کرنے والوں سے مقابلہ کرے۔ وقت، صحت، جوانی،فراخی اور زندگی کو غنیمت جانتے  ہوئے نیکی کرنے کا جو موقع ہاتھ آئے وہ کر گزرے۔ 

مفتی محمد اویس اسماعیل ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، الاخوان مجلس ِ افتاء کراچی ہیں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔