نرمی و بردباری بندےکو اللہ کا محبوب بنانے والی صفات

تحریر : مفتی محمد قمرالزمان


نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو (البقرہ:263)

’’نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو‘‘ (البقرۃ: 263)۔ انسان کی زندگی میں اس کی حقیقی پہچان اس کا قول اور اس کا فعل ہے۔ اگر انسان کی کل زندگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی ساری حیات سمٹ کر دو چیزوں تک محدود اور مقید ہوجاتی ہے، قول اور فعل۔ قرآن ان دونوں چیزوں کو سنوارنے اور ان کو اعلیٰ و افضل بنانے کیلئے بار بار ترغیبات دیتا ہے کہ ہر انسان اپنے قول کو قولِ احسن کیسے بنائے اور اپنے فعل کو فعلِ احسن کیسے کرے؟

قول کا تعلق زبان سے ہے اور فعل کا ناطہ سارے اعضاء جسد سے ہے، قول جب نرمی سے معمور اور درگزر سے بھرپور ہو جائے تو وہ قولِ حلیم بن جاتا ہے اور فعل جب نیکی سے مزین ہو جائے اور صالحیت سے آراستہ ہو جائے تو فعلِ صالح بن کر انسان کی نجاتِ اخروی کا باعث بن جاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور (متقی) غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں اور اللہ ایسے ہی نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے‘‘ (آل عمران: 134)۔ 

باری تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے خُلقِ حِلم اور خُلقِ رِفق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ﷺ ان (صحابہ) پر نرم دل ہیں اور اگر آپ تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، لہٰذا ان سے درگزر کریں، ان کیلئے استغفار کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کیا کریں‘‘ (آل عمران :159)

اس آیتِ کریمہ نے رسول اللہ ﷺ کے خُلقِ رِفق اور خُلقِ حِلم کو واضح کیا ہے۔ خُلقِ رِفق کو باری تعالیٰ نے ’’لنت لہم‘‘ کے کلمات کے ساتھ بیان کیا ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ لوگوں پر مہربانی اور کرم نوازی کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ دوسرے لوگوں سے محبت و نرمی اور شفقت و مہربانی سے معمور اور مملو سلوک کرنے والے ہیں۔ اسی خُلقِ رِفق کی بنا پر آپ ﷺ دوسرے لوگوں کی بات کو نہ صرف سنتے ہیں بلکہ ان کے مسائل کے حل میں ان کی مدد و نصرت کرتے ہیں اور ہر ممکن دوسرے لوگوں کو نفع پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ نرمی اور نفع رسانی کا عمل ہی آپ ﷺ کے خُلق کو خُلقِ رِفق بنائے ہوئے ہے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن مغفّلؓ سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’بیشک اللہ تعالیٰ نرمی فرمانے والا ہے اورنرمی کرنے والے کو پسند فرماتا ہے اور اسے وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سخاوت کرنے والے کو نہیں دیتا‘‘ (ابن ماجہ:3688)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ’’اللہ ہر معاملے میں نرمی کو ہی پسند فرماتاہے‘‘(ابن ماجہ :3689)۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اْسے زینت عطا کرتی ہے‘‘ (مسند احمد : 25767)۔ حضرت سیدنا سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’بردباری اللہ کی طرف سے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘ (ترمذی شریف: 2019)۔

حضرت سیدنااشج العصریؓ فرماتے ہیں کہ مجھے  نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’اگر تجھ میں دو خصلتیں ہوں تو، تُواللہ تبارک وتعالیٰ کا محبوب بن جائے گا، وہ دو خصلتیں حلم اور بردباری ہیں‘‘، میں عرض گزار ہوا ’’یا رسول اللہ ﷺ! کیا وہ خصلتیں ہم خود اپنے آپ میں پیدا کریں یا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہم میں فطرتًا پیدا فرمایا ہے؟‘‘، نبی کریمﷺ نے فرمایا، ’’نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری فطرت انہی دوخصلتوں پررکھی ہے۔‘‘

حضرت سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ صرف رحیم کو ہی اپنی رحمت عطافرماتا ہے‘‘، ہم نے عرض کی ’’یارسول اللہﷺ کیا ہم سب رحیم ہیں؟‘‘ نبی کریم ﷺ نے ارشاد  فرمایا کہ ’’رحیم (رحم کرنے والا) وہ نہیں جو محض اپنی ذات اور اپنے اہلِ خانہ پر رحم کرے بلکہ رحیم وہ ہے جو تمام مسلمانوں پر رحم کرے‘‘ (شعب الایمان ، رقم 11059)

حضرت سیدنا اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ اپنے رحم کرنے والے بندوں پر ہی رحم فرماتاہے‘‘ 

(بخاری شریف: 1284)

حضرت سیدنا  جریرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا،’’جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا، جو معاف نہیں کرتا اُس کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘ (کنزالعمال: 5963)۔حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمرو فرماتے ہیں کہ میں نے  نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے ’’رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا، معاف کرو تمہیں معاف کیا جائے گا‘‘ (شعب الایمان:7236)

حضرت معاذؓ نے نبی کریمﷺ سے افضل ایمان کے متعلق سوال کیا تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’افضل ایمان یہ ہے کہ تو اللہ کی خاطر محبت رکھے اور اُسی کی خاطر غصہ کرے اور تیری زبان اللہ کے ذکر میں لگی رہے‘‘ پھر انہوں نے پوچھا ’’یا رسول اللہ ﷺ !پھر اس کے بعد ؟ تو رسولِ اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’لوگوں کیلئے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو اورجو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو اسے دوسروں کیلئے بھی ناپسند کرو، جب تم بولو تو اچھی بات کرو یا خاموش رہو‘‘ (مسند احمد : 22193)۔ اللہ تعالی اپنے محبو ب کریم ﷺ کے طفیل ہمیں قرآن و حدیث پر عمل کی توفیق رفیق عطا فرمائے، آمین 

مفتی محمد قمر الزمان قادری، خطیب جامع مسجد احمد مجتبیٰ الفیصل ٹاون لاہور کینٹ ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔