فکر اقبالؒ کی روشنی میں مثالی معاشرے کی تشکیل

تحریر : ڈاکٹر طاہر حمید تنولی


علامہ اقبالؒ کے نزدیک مثالی معاشرہ وہ ہے جو انسانی اقدار کے احترام پر استوار ہو اور ہر شخص کو اس کے حقوق سے سرفراز کیا جائےتوحید کا اصول اپنانے کے بعد صحرائی بدو روحانی بلندیوں پر پہنچے اور فاتح عالم بن کر قیصروکسریٰ کے وارث بن گئے

علامہ اقبالؒ کی نثری تحریروں اور شاعری میں ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے خدوخال ملتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی فکر مسلم معاشرے کے احیاء اور ایسی تشکیل کی آئینہ دار ہے جو جدید دنیا کیلئے ایک نمونہ ہو۔ ایسا معاشرہ جو اپنی بنیادوں پر مستحکم انداز سے استوار ہو اور دور جدید کے تمام تقاضوں سے بھی عہدہ برآ ہو سکتا ہو۔  جدید دنیا کی علمی و سماجی اور معاشرتی ترقی نے پہلے ادوار کی نسبت میں نہ صرف تقاضے بدل دیے بلکہ معاشرتی تشکیل کیلئے نئے سوالات بھی کھڑے کیے۔ علامہ اقبالؒ نے اسی سبب سے ایسے مثالی معاشرے کی تشکیل کیلئے جس میں ان سب سوالات کے جوابات بھی ہوں اور دور جدید کے تقاضوں کا حل بھی ’’مرغدی‘‘ کا نام استعمال کیا۔’’ مرغدین‘‘ اقبالؒ کا وہ مثالی معاشرہ ہے جس کی طرف ایک قدم 1930ء میں دیئے گئے خطبہ الہ آباد میں الگ وطن کے قیام کا وہ مطالبہ ہے جو علامہ اقبالؒ نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کیلئے کیا۔ 

علامہ اقبالؒ کے نزدیک مثالی معاشرہ وہ ہے جو انسانی اقدار کے احترام پر استوار ہو۔ اس معاشرے میں ہر شخص کو اس کے حقوق سے سرفراز کیا جائے۔ ایسا معاشرہ صرف توحید کی اصول پر ہی قائم ہوسکتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے نزدیک توحید کا اصول رنگ و نسل، علاقہ جغرافیہ، زبان اور دوسرے امتیازات کا قلع قمع کرتا ہے۔ جب توحید کے اصول پر کوئی معاشرہ قائم ہوتا ہے تو اس میں سب کو احترام انسانیت کی بنیاد پر برابر حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے علامہ اقبالؒ توحید کو نہ صرف فرد کی انفرادی روحانی ترقی کیلئے اساسی اصول سمجھتے ہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی فلاح و بہبود کیلئے بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔ اپنے شہرہ آفاق خطبات میں اس خطبے جس کا عنوان اسلام میں اصول اجتہاد ہے علامہ اقبالؒ نے اسلام سے پہلے کی دنیا کی سیاسی اور سماجی حالت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اسے ایک ایسے عظیم الشان درخت کی مانند قرار دیا جو تہذیب اور ثقافت کے اعلیٰ ثمرات کا حامل ہو لیکن اندر سے دیمک زدہ ہو چکا ہو اور وہ تباہی کے قریب ہو۔ پھر انہوں نے شہنشاہ جولین کا حوالہ دیا جو اپنے وسیع و عریض انتظامات سلطنت کیلئے کسی ایسے سماجی اصول کی تلاش میں تھا جو اس کی سلطنت میں بسنے والے مختلف علاقوں، قبیلوں اور نسلوں کے لوگوں کو ایک سیاسی وحدت میں پرو سکے۔ اس مقصد کیلئے اس نے مسیحی عقائد کی طرف رجوع کیا لیکن جب ان کے ذریعے اس کا یہ مقصد پورا نہ ہوا تو پھر وہ دوبارہ قدیم رومی دیوتاؤں کی طرف لوٹ گیا۔ 

علامہ اقبالؒ نے لکھا کہ عین اس وقت جب انسانیت ایک ایسے وحدت کی ضمانت دینے والے اصول کی تلاش میں تھی اسلام کا ظہور ہوا اور توحید کے روحانی اصول نے لوگوں کو قبیلوں اور دیگر تقسیمات کی سطح سے اٹھا کر ملت کی وسیع تر وحدت میں منظم کر دیا۔ اس طرح تخت و تاج، رنگ و نسل اور علاقہ و زبان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وفاداریاں ختم ہو گئیں اور ایک ذات واحد سے وفاداری کا رشتہ استوار ہوا۔ قبائلی مفادات کے محدود دائروں میں زندگی بسر کرنے والے تہذیب سے نا آشنا لوگ نہ صرف دنیا کی مثالی اور آخری بڑی تہذیب کے بانی قرار پائے بلکہ ان کیلئے ساری زمین کو مسجد قرار دے دیا گیا۔

علامہ اقبالؒ کا مثالی معاشرہ اسلام کا قائم کردہ ابتدائی معاشرہ ہے جس میں توحید کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کا دستور اللہ کا عطا کردہ ہے۔ ریاست مدینہ کے دستور میں جو دنیا کا پہلا تحریری دستور بھی ہے، اصول معیشت اور معاشرت کی وضاحت کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ فروعی مسائل کے حل کے لئے مشاورت کا اصول رکھا گیا جس میں خلیفہ کو باہمی رضامندی سے منتخب کیا جاتا تھا۔ریاست مدینہ میں لوگوں کی رضامندی سے منتخب ہونے والا خلیفہ صحیح معنوں میں عوام کا خادم تھا۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے جواب دہی کیلئے پیش کرتا تھا۔ خلیفہ سے ایک عام آدمی بھی پوچھ سکتا تھا کہ اس نے کوئی شے کیسے اور کہاں سے حاصل کی۔ ریاست مدینہ میں لوگوں کو آزادی حاصل تھی اور مسلم اور غیرمسلم کی تقسیم کے بغیر ان کے تمام حقوق محفوظ تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاشرہ اس وقت مسلم دنیا سے ناپید ہو گیا جب خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی۔ اگرچہ جدید دنیا نے جمہوریت کی صورت میں عوامی رائے اور خواہشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظام حکومت کے قیام کی ایک صورت پیدا کر لی اور علامہ اقبالؒ بھی جمہوریت کو موجودہ حالات میں ایک متبادل نظام سمجھتے تھے لیکن وہ اس کے نقائص سے بھی آگاہ تھے۔ مغرب میں جمہوریت جس طرح پھیلی وہ دراصل ایک فریب تھا۔ رائے عامہ کی نمائندگی کرتے ہوئے جو لوگ برسر اقتدار آئے وہ امرا اور جاگیردار ہی تھے۔ انگلستان میں جاگیرداروں نے شاہ جان کو بے بس کر کے میگنا کارٹا کی دستاویز پر دستخط کروائے۔ اس طرح مغرب میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا اس میں طاقتور جاگیرداروں اور امرا کا طبقہ ہی عوامی نمائندگی کا لبادہ اوڑھ کر اقتدار میں آیا۔ علامہ جمہوریت کہ اس نقشے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام 

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری 

 دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب 

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری 

 مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق 

طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری 

ایسے حالات میں جب کہ مغرب میں جمہوریت کے نام پر جاگیرداریت اور سرمایہ داریت اقتدار پر قابض تھیں اور مشرق میں برصغیر کی ہمسائیگی میں اشتراکیت کے نام پر انسان کی انفرادیت کی نفی کی جارہی تھی اور اس کی آزادی تقریر و تحریر کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ علامہ اقبالؒ روٹی کپڑے اور مکان کی سہولت کو ہی محض اور واحد نصب العین قرار دینے کے قائل نہیں تھے اور معاشی و سماجی ترقی کی بنیاد روحانی اور اخلاقی انقلاب پر رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک اللہ اس کی حاکمیت پر ایمان انفرادی اور اجتماعی ارتقاء کا رہنما اصول ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جو فلسفہ اور نظریہ حیات اللہ کے انکار پر استوار ہوگا وہ ناقص اور ناپائیدار ہو گا۔ علامہ اقبالؒ نہ تو مغربی جمہوریت سے مطمئن تھے نہ روسی اشتراکیت سے۔ حتی کہ خود ان کے دور کا مسلم معاشرہ بھی روایتی مذہب پرستی کا شکار ہو کر اسلام کی حرکی روح سے عاری ہو چکا تھا۔ سیاسی اور معاشی نظام ایمان اور تقویٰ سے بے نیاز ہو چکے تھے:

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی 

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

ان حالات میں علامہ اقبالؒ نے ایک مثالی معاشرے کا خاکہ پیش کیا اور یہ معاشرہ انہیں اپنے روحانی اور وجدانی سفر اور سیر افلاک کے دوران مریخ پر نظر آیا۔ علامہ اقبالؒ جاوید نامہ میں اپنے اس روحانی اور وجدانی سفر کی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔ وہ فلک قمر، فلک عطارد اور فلک زہرہ سے ہوتے ہوئے فلک مریخ پر پہنچتے ہیں۔ ان کے مرشد رومی ان کے ساتھ ہیں اس سفر میں وہ خود کو زندہ رود کہتے ہیں۔ یہاں ایک مرغزار میں انہیں ایک رصدگاہ نظر آتی ہے۔ رومی زندہ رود کو بتاتے ہیں یہ مقام زمین سے مماثلت رکھتا ہے اور یہاں کے باشندے زمین کی بستیوں کی طرح ہی گلی کوچوں میں رہتے ہیں اور مغربی اقوام کی طرح علوم اور فنون کے ماہر ہیں۔ وہ علم و ہنر میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ انہیں زمان اور مکان پر حکمرانی حاصل ہو چکی ہے۔ وہاں موت جسم کے مرنے سے واقع نہیں ہوتی۔ ان کو قبل از وقت اپنی موت کا علم ہو جاتا ہے اور وہ جسم کو روح میں جذب کر لیتے ہیں۔ ابھی رومی اور زندہ رود یہ باتیں کر ہی رہے ہوتے ہیں کہ رصد گاہ سے ایک مریخی عالم نکلتا ہے۔ اس عالم کی داڑھی برف کی طرح سفید ہے اور وہ اپنے حلیے بشرے سے بہت دانا و بینا اور عالم نظر آتا ہے۔ اس کا چہرہ اور آنکھیں غور اور فکر کے آثار کی حامل ہیں۔ بوڑھا زندہ رود اور ان کے مرشد رومی کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اور انہیں بتاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک حصہ زمین پر گزار چکا ہے۔ یہاں وہ ایران یورپ مصر  ہند امریکہ چین اور جاپان کی سیر کر چکا ہے۔ اس طرح اہل مریخ زمین والوں کے حالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس کے بعد مولانا رومی اور زندہ رود مرغدین شہر کی سیر کرتے ہیں جس کا نقشہ علامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا ہے۔

مرغدین شہر کی عمارات بہت بلند و بالا ہیں، یہاں کے رہنے والے خوش گفتار خوش شکل نرم خو اور سادہ خوش ہیں۔ انہیں صرف روزی کمانے کی فکر ہلکان نہیں کرتی۔ وہ کیمیائے آفتاب کے راز دار ہیں۔ جس طرح اہل زمین آب شور سے نمک حاصل کرتے ہیں اسی طرح وہ سورج کی شعاعوں سے سونا اور چاندی اخذ کر لیتے ہیں۔ وہاں علم اور ہنر کا مقصد خدمت ہے۔ وہاں کسی شخص کی عظمت کو جانچنے کا پیمانہ دولت اور روپیہ پیسہ نہیں۔ وہاں کوئی دینار اور درہم سے آگاہ نہیں۔ یہ بت وہاں کی بستیوں میں نہیں پائے جاتے۔ وہاں مشینوں کا دیو طبیعتوں پر بوجھ نہیں بنتا۔ نہ ہی وہاں کا آسمان فیکٹریوں کے دھوئیں سے سیاہ ہے۔ وہاں کے کسان محنتی ہیں۔ ان کے چراغ روشن رہتے ہیں اور وہ جاگیرداروں کی لوٹ کھسوٹ سے محفوظ ہیں۔ یہاں کے لوگ کاشتکاری کرتے ہیں لیکن وہ اجڈ، گنوار اور بد تہذیب نہیں کہ پانی کیلئے ایک دوسرے کو قتل کر دیں۔ یہاں ہر کاشتکار کو پورا پورا صلہ ملتا ہے کیونکہ مریخ کے معاشرے میں جاگیرداریت کا وجود نہیں۔یہاں فوج ہے نہ پولیس، یہاں نہ کشت و خون ہوتا ہے نہ یہاں جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ یہاں کے بازاروں میں آوارہ اور بے کار لوگوں کے ہجوم نہیں ہوتے، نہ ہی وہاں بھیک مانگنے والوں کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ حکیم مریخی زندہ رود کو بتاتا ہے کہ یہاں نہ کوئی سائل ہے نہ مفلس، نہ آقا  اور نہ ہی غلام بلکہ سب بھائی بھائی ہیں۔ 

علامہ اقبالؒ نے مثالی معاشرے میں موجود فتنوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ مرغدین کی سیر کے دوران علامہ اقبالؒ نے ایک کھلے میدان میں ایک مجمع میں کا ذکر کیا جس سے ایک عورت خطاب کر رہی تھی۔ اس کا  چہرہ بظاہر چمکدار لیکن اس کا دل سوز و گداز سے محروم تھا۔ وہ عورت مرد و زن کے باہمی تعلقات پر تقریر کر رہی تھی اور اسرار بدن فاش کر رہی تھی۔ اس کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ عورتوں کو ازدواج سے بچنا چاہیے تاکہ وہ ماں بننے اور بچوں کی پرورش کی زحمت سے بچی رہیں۔ حکیم مریخی نے اس عورت کا تعارف کرواتے ہوئے زندہ رود کو بتایا کہ یہ مریخ سے نہیں بلکہ شیطان اسے یورپ سے اٹھا لایا ہے اور یہ فرنگن خود کو نبیہ کہہ کر لوگوں کو بہکاتی ہے۔

 اقبالؒ کے نزدیک ایک مثالی معاشرہ وہ ہے جس میں اعلیٰ انسانی اخلاقی اور معاشرتی اقدار موجود ہوں اور وہاں وہ فتنے نہ ہوں جو یورپ کی جدید سائنسی اور علمی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں اور انسان انسانیت سے بتدریج محروم ہوتا جا رہا ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک ایک مثالی معاشرہ وہ ہے جس میں ہر شخص کے حقوق محفوظ ہوں اور معاشی وسائل صرف چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہوں بلکہ دولت پورے معاشرے کی تعمیر اور ہر فرد کی نشونما کا ذریعہ ہو:

قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم 

بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار 

اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور 

فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار 

انساں کی ہوس نے جنھیں رکھا تھا چھپا کر 

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں 

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار 

جو حرف 'قل العفو' میں پوشیدہ ہے اب تک 

اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭