اللہ کے مقرب بندوں کی شان
بے شک اللہ تعالیٰ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے،(سورہ یونس:62)
ہم میں سے ہر ایک کا اللہ کے ساتھ ایک تعلق ہے مگر ایک تعلق اللہ خود قرآن کریم میں بتا رہے ہیں ’’وہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کا نام سنتے ہیں تو ان کے دل تڑپ جاتے ہیں‘‘ (سورہ انفال: 2)۔ یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق جوڑنا ہے جس میں گرم جوشی ہو، کوئی اللہ تعالیٰ کا نام لے تو ہم تڑپ جائیں، ہماری نبضیں تیز ہو جائیں۔
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
اللہ تعالیٰ سے یہ گرم جوشی والی محبت کیسے حاصل ہو۔اس کیلئے کثرت ذکر اوراللہ والوں کی صحبت ضروری ہے۔
قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر دے
یہ آگ لگتی نہیں لگائی جاتی ہے
جب دل اور وجود میں اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری ہو گا، اللہ تعالیٰ کے عشق کی آتش سینے میں بھڑکنے لگے گی تب وجلت قلوبھم کی حقیقت حاصل ہو گی۔ پھر وہ گرم جوشی محسوس ہونے لگے گی۔
ارشادباری تعالیٰ ہے! ’’خبردار! بے شک اللہ تعالیٰ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے (سورہ یونس :62 ) ۔
اللہ تعالیٰ نے نماز‘ روزہ‘ حج ‘ زکوٰۃ کے تمام مسائل بیان فرمائے لیکن کہیں لفظ ’’اَلَآ‘‘ نہیں فرمایا مگر جس وقت اولیاء کرام کا ذکر آیا تو لفظ ’’اَلَآ‘‘ ابتداء میں لایا کیونکہ ہمارے ظاہراً معاملات رہن سہن میں ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کون اللہ تعالیٰ کا ولی ہے اور کون نہیں۔ باوجود اس اختلاط کے ان حضرات کا وہ مرتبہ ہے کہ ’’اگر وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں پورا کرتا ہے‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جس نے میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھی اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے‘‘ (بخاری شریف، ج 2، ص 963)۔
معلوم ہوا یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں کہ جن کے گستاخوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اعلان جنگ فرما رہا ہے اور جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اعلان جنگ کرے وہ کبھی نجات نہیں پا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا! ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو‘‘(التوبہ:119)، سچوں سے مراد تقویٰ اختیار کیے ہوئے اہل اللہ و بزرگانِ دین ہیں۔ اس کا علم ایک اور آیت کریمہ سے ہوتا ہے! ’’وہی لوگ سچے ہیں اور وہی تقویٰ والے ہیں‘‘(البقرہ: 177)
اللہ اور بندے کی محبت: صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام کو طلب فرماتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے! ’’اے جبرائیل مجھے فلاں شخص سے محبت ہو گئی ہے۔ قربان جائیں اس جملے پر ذرا اس جملے پر غور تو فرمائیے کہ وہ بے نیاز رب جو خالق ارض و سماوات ہے، فرشتوں کے سردار، روح القدس کو بلا کر اپنا رازِ محبت بتا رہا ہے کہ مجھے فلاں شخص سے پیار ہو گیا ہے۔ اچھا باری تعالیٰ! اب جبرائیل علیہ السلام کیلئے کیا حکم ہے؟ ارشاد ہوتا ہے اب تو بھی اسے اپنا محبوب بنا لے۔
اللہ اکبر، کیا انداز محبت ہے۔ دنیا والے جس سے پیار کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کے محبوب کو نہ دیکھے اور نہ اس سے پیار کرے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ جس سے پیار کرتا ہے، چاہتا ہے کہ سب لوگ اس سے پیار کریں۔
تو پھر جبرائیل علیہ السلام بھی اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ یا الٰہ العالمین، اب کیا کیا جائے۔ پھر عالم ملکوت میں اس راز محبت کو افشاء کر دیا جاتا ہے۔ اور آسمان والوں میں اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اللہ عزوجل فلاں شخص سے پیار کرتا ہے۔ اس لئے اے اھل السماء تم سب بھی اس شخص کو اپنا محبوب بنا لو۔
ذرا غور کریں کہ ایک ہم ہیں کہ مارے مارے پھرتے ہیں کہ کاش کہیں سے محبت الٰہی کی کوئی چنگاری ہمارے دل میں آ جائے۔ اور کسی بہانے عشق کی یہ آگ ہمارے قلوب میں بھڑک اٹھے لیکن ذرا اس شخص کی خوش نصیبی کا تصور کریں کہ جو اس زمین پر ہم سب کے درمیان چل پھر رہا ہے اور عرش عظیم پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اس شخص سے اپنی محبت کے اسرار جبرائیل علیہ السلام کو بتا رہا ہے۔ آسمانوں میں اللہ تعالیٰ اور اس شخص کی محبت کے چرچے ملائکہ کے مابین ہو رہے ہیں۔ پھر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ پھر اس شخص کی مقبولیت کو زمین پر اتارا جاتا ہے اور زمین والے بھی اس سے پیار کرنے لگتے ہیں۔
تو پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں، اس کے محبوب دوستوں کی محبت کی کہانی زمین سے شروع نہیں ہوتی بلکہ یہ تو عالم ملکوت سے شروع ہوتی ہے۔ اگر یہ داستان محبت زمین سے شروع ہوتی تو تب تو ممکن تھا کہ اہل زمیں مل جل کر اس داستاں کو ختم بھی کر لیتے۔محبت کی یہ کہانی تو زمینی کہانی ہے ہی نہیں، یہ تو لامکانی کہانی ہے۔ تو ہم اہل زمیں اس کو کیسے ختم کر سکتے ہیں۔
اللہ کے محبوبوں کی محبت و مقبولیت جو لوگوں کے دلوں میں ڈال دی جاتی ہے اور اس میں کسی کا کوئی کمال نہیں ہوتا کہ یہ سب تو ’’فاذکرونی اذکرکم‘‘ کی جیتی جاگتی تفسیریں ہیں کہ ’’تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا‘‘۔ جن کا ذکر اللہ آسمانوں میں اپنے فرشتوں کے درمیان کرتا ہو ان کا ذکر اس دنیا کے رہنے والے کیسے مٹا سکتے ہیں۔
آئیں ہم بھی اللہ تعالیٰ کی تڑپ اپنے اندر پیدا کریں۔ صرف اللہ ہے جو بھاگ کر آتا ہے، باقی پرچھائیاں کبھی نہیں مل سکتیں۔ اللہ اپنے عشق کی طلب اور محبوبیت عطا کرے۔
دل میں اللہ کی محبت سما جائے اس کیلئے دل میں اللہ کا ذکر کثرت سے کریں۔حدیث میں آتا ہے: ’’جب کوئی اللہ کیلئے کسی سے ملنے جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں‘‘(مشکاۃ المصایح، کتاب الادب ، باب الحب فی اللہ)،اس حدیث میں آگے آتا ہے کہ وہ دعا کرتے ہیں: ’’اے ہمارے رب! یہ آپ کیلئے اس (اللہ والے، بزرگ) سے مل رہا ہے، آپ اس کو اپنے سے ملائیں (یعنی اپنا قرب دے کر اپنا بنالیں)‘‘
خواجہ مجذوبؒ فرماتے ہیں: جو آگ کی خاصیت، وہ عشق کی خاصیت ہے اِک سینہ بہ سینہ ہے اِک خانہ بہ خانہ ہے۔
مفتی محمد قمر الزمان قادری ، خطیب جامع مسجد احمد مجتبیٰ الفیصل ٹاؤن لاہور کینٹ ہیں