ماں، بیٹی کی بہترین سہیلی
کم بولو، دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں گفتگو کرو، خاموشی بھی ایک زیور ہوتی ہے: مائوں کی بیٹیوں کو تلقین
کبھی آپ نے مرغی کو دیکھا جو خطرہ بھانپتے ہی چوزوں کو اپنے پروں میں سمو لیتی ہے۔ اگر نہ دیکھا ہو تو قدرت نے انسان کے روپ میں ماں کو اتنا ہی حساس،ہمدرد اور گداز شخصیت عطا کی ہے اسے دیکھ لیجئے۔ کیسے ہی غموں کے پہاڑ ٹوٹیں، آزمائشیں ہوں یا آسانیاں، ماں اور بیٹی کا تعلق ایسا ہی شیرینی میں گندھا ہوتا ہے۔ یوں تو ماں کیلئے بیٹیاں اور بیٹے دونوں ہی برابر اولادیں ہوتی ہیں۔ یہ محض معاشرتی رویئے اور جہالت پر مبنی انداز فکر ہوتا ہے جس کے سبب ہی گھرانے میں اولاد نرینہ کو افضل قرار دے دیا جاتا ہے اور بیٹیوں کو بوجھ تصور کر لیا جاتا ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ عورت کیلئے یہ بہت ہی مبارک ہے کہ اس کی پہلی اولاد بیٹی ہو‘‘۔
جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’ اے لڑکی تو زمین پر اتر، میں تیرے باپ کی مدد کروں گا‘‘۔ ایسے گھر میں اللہ تعالیٰ فرشتے بھیجتے ہیں جو آکر کہتے ہیں’’ اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو اور وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ ’’ یہ کمزور جان ہے جو کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے ساتھ شامل حال رہے گی‘‘۔
عورت کے کئی روپ ہو سکتے ہیں ماں، بیٹی، بہن، بھابھی، بھتیجی، بھانجی، دوست، سہیلی، نانی، وادی، بہبو اور ہر روپ میں صبر و ایثار، مہرو وفا اور صفت و عصمت کا پیکر ہوتی ہے۔ ماں کی برد باری اور سنجیدگی سے بیٹی بھی سبق سیکھتی ہے۔ صدمات ہوں یا خوشیاں، ماں حوصلے کی چٹان بنی رہتی ہے۔ اچھی مائیں صرف اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہو کر اپنی پریشانیوں کا حل چاہتی ہیں۔ اچھی بیٹیاں بھی اپنے منہ سے کسی کی غیبت یا حسد کے جذبات سے بھرپور لفظ نہیں کہتیں۔ پچھلے وقتوں میں مائیں بیٹیوں کو تلقین کیا کرتی تھیں کہ کم بولا کرو، دھیمے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں گفتگو کرو، خاموشی بھی ایک زیور ہوتی ہے۔ چڑ چڑا پن، بدگوئی، بدتمیزی اور غصہ عورت پر نہیں جچتا۔ اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کیلئے نرم روی اور صلح جوئی کا انداز اختیار کرنا اچھا ہوتا ہے۔ آج کل بھی بہت سے گھرانوں میں بیٹے کا رشتہ طے کرتے وقت بڑی بوڑھیاں بیٹی کے ساتھ ساتھ ماں کے اخلاق، کردار، گفتگو انداز رہن سہن اور رویوں کو مدنظر رکھتی ہیں، کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا وہ کیوں، کس لئے کرتی ہیں؟
اس لئے کہ ماں ہی وہ ستون ہے جس پر خاندان کی تہذیبی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اسی کے ناتواں کاندھوں پر منتقل کی جاتی ہے۔ وہ کمزور ہو تو بھی اولاد کیلئے زمانے کے سامنے سینہ سپر ہوتی ہے۔ اولاد کو جہاں جہاں ضرورت پڑے چٹان کی طرح آہنی بازوئوں میں سمیٹ کر رکھتی ہے۔ خود سختیاں سہہ لیتی ہیں، دھوپ میں زندگی گزار لیتی ہیں مگر نسلیں سنوار دیتی ہیں۔ اولاد کے آرام ، ترقی کے خواب، ترقی کے وسیلے ڈھونڈنا اور اپنی ذات کی نفی کرکے بچوں کو پروان چڑھانا اور بیٹیوں کو سگھڑاپے کی دولت سے نوازنا اسی ماں کی ودیعت ہوتا ہے۔
آج کی تعلیم یافتہ ماں اس صدی کا بیش بہا انعام ہے وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی بچوں کی تربیت کا بیڑا اٹھا رہی ہے۔ وہ کام کر کے چاہے وہ ملازمت ہو یا تجارت اپنے بچوں کی کفالت بھی کر رہی ہے۔ اسے وقت کی بہتر تقسیم کا ہنر آتا ہو تو اولاد خاص کر بیٹیوں سے قربت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ بیٹیاں پھول ہوتی ہیں۔ اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ ان سے محبت اور شفقت سے پیش آنا بہت ضروری اس لئے بھی ہے کہ پاکستانی معاشرہ، مردانہ معاشرہ ہے۔ اس کے باوجود اپنے مردانہ وار کام سے دنیا بھر میں اپنے وطن کا نام روشن اور سبز ہلالی پرچم بلند کرنے والی پاکستانی مائوں اور بیٹیوں کی کمی نہیں۔
مادر ملت فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو تک درجنوں ایسی حوا کی بیٹیاں ہیں جو اپنے کردار اور عمل سے رہتی دنیا تک کیلئے خود کو امر کر چکی ہیں۔ لہٰذا بے چارگی کی ادا ایک جانب رکھ کر اپنا کرئیر بنانے کی کوشش جاری رکھنا ضروری ہے اور وہی خواتین کامیاب بھی ہوتی ہیں جو رشتوں کے تقدس کو برقرار رکھ کر اپنی شناخت خود بناتی ہیں جب ہم بیٹی کو ماں کا پر تو اور ماں کو اس کی پرچھائیں کہتے ہیں تو واضح کر دیتے ہیں کہ دراصل ماں کے سائبان سے ہی بیٹی کو جذباتی سہارا ملتا ہے۔ یہ رشتہ شیرینی میں گندھ کر ماں اور بیٹی کے تعلقات کو وضع کرتا ہے زندگی ختم بھی ہو جائے تب بھی یہ محبت، یہ التفات اور روحانی تعلق سدا استوار رہتا ہے۔