حج کی فضیلت

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری


حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو صاحب حیثیت افراد پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ حج اللہ تعالیٰ کی ملاقات کیلئے اس کے گھر کی طرف سفر کرنے، اس کا طواف کرنے اور اس کی خاطر جسم اور مال کی قربانی دینے کا نام ہے۔

یہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی نشانی اور اس کا اظہار ہے۔ حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کے ہاتھوں تعمیر کعبہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا: ’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، وہ تمہارے پاس پید ل اور دبلے اونٹوں پر ہر دور کی گھاٹی سے آئیں گے‘‘ (الحج: 27)۔ اس حکم الٰہی کے بعد حج کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ ، ان کی بیوی حضرت بی بی ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکے بعض مخلصانہ اعمال کوقیامت تک کیلئے مناسک حج میں شامل کردیا۔ ایمان باللہ کے بعد حج سب سے افضل عمل ہے ۔ حج کا ثواب جہاد کے برابر ہے اور حج و عمرہ کرنے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

حج، اللہ سے محبت کی تکمیل

 اور عبدیت کی تصویر

’’عبدیت‘‘ انسانیت کا افضل و اعلیٰ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ کے منتخب اور مخصوص بندوں کا وصفِ خاص ہے، اسی وجہ سے شبِ معراج میں رب العالمین نے رحمۃ للعالمین ﷺ کو اسی وصف سے یاد فرمایا (أَسْریٰ بِعَبْدِہ) ، کلمہ ٔ شہادت میں بھی رسالت سے قبل عبدیت کا ذکر ہے، جس سے مقامِ عبدیت کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عبدیت کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ عبدیت تسلیم و رضا یعنی حکمِ خدا اور مرضی مولیٰ کے سامنے فنائیت اختیار کرنے کا نام ہے۔ ایک بندے کا سب سے بڑا وصف اور وظیفہ عبدیت ہی ہے، جس میں عبدیت نہیں وہ عبد کامل نہیں، اس کا رب اس سے راضی نہیں، اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں، عبادتوں، ریاضتوں اور مجاہدوں کا مطلوب و مقصود یہی ہے کہ بندوں میں عبدیت اور فنائیت کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ تمام اسلامی احکام، اعمال اور عبادات میں یہ شان موجود ہے کہ ان کی صحیح ادائیگی سے ایک بندے میں عبدیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بالخصوص حج جو اسلام کے پانچ ارکان میں آخری اور تکمیلی رکن ہے اس میں اللہ تعالیٰ سے محبت اور عظمت کی تکمیل اور عبدیت و فنائیت کی تصویر ہے۔

حج کا سفر ،عبدیت اور اللہ تعالیٰ

 سے محبت کی علامت ہے 

دیکھئے! جو شخص حجِ بیت اللہ کا ارادہ اور عزم کر کے گھر سے نکلتا ہے تو سفرِ حج کی ابتداء ہی میں وہ گھر بار، کارو بار اور جمیع احباب و رشتہ داروں کو خیر باد کہتا ہے۔ رب کیلئے سب کو چھوڑتا ہے تو عازمِ سفر حج کے سر میں جو سودا سمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہی تو ہے، جس کے حصول کیلئے وہ سفر کی مشقت بخوشی برداشت کرتا ہے، اور سفر بھی وہ جس میں جسم و جان، دل و ایمان اور بحر و بر (خشکی و تری) کے اندیشے موجود ہیں، جن کی وجہ سے بعض اوقات بڑے بڑے حلیم و بردبار بھی صبر و ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے تو سفر کو سقر کہا گیا کہ سفر بھی ایک اعتبارسے امتحان کا ایک حصہ ہے۔ پھر سفرِ حج کا حال یہ ہے کہ اگر کامیابی کے ساتھ ادا ہو گیا، یعنی حج قبول ہو گیا تو اس سے بڑی کامیابی اور سعادت نہیں۔حدیث میں ہے کہ کامیابی کے ساتھ اس سفر سے لوٹنے والا گناہوں سے ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے گویا ماں کے پیٹ سے آج ہی دنیا میں آیاہو۔ حج کا سفر سعادت، عبدیت اور اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے۔ جس میں عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں وہ حج سے محروم رہ جاتا ہے۔ 

حج کی میقات پر عبدیت کا منظر 

پھر سعادت مند لوگ حج میں منزلِ مقصود سے پہلے اس مرحلہ پر پہنچتے ہیں جہاں سے احرام کے بغیر گزرنا جائز نہیں، یہاں پہنچ کر عبدیت کا منظر نظر آتا ہے کہ حج کا یہ مسافر اپنی ساری ظاہری زینت چھوڑ دیتا ہے، خوشبو استعمال نہیں کرتا، وہ پسندیدہ  سلا ہوا کپڑا نہیں پہنتا، نہ سر پر ٹوپی اور پگڑی، نہ جسم پر کوٹی و شیروانی، شاہ و گدا، رئیس و رعایا، حکام و عوام، امیر و فقیر دیکھتے ہی دیکھتے سب کے ہی پوشاک و لباس اور سارے امتیازات مٹ جاتے ہیں۔اس میقات سے اب سب سے بڑے شہنشاہِ مطلق کی راجدھانی کی حدود شروع ہو گئی ہے، اب کوئی راجہ ہے نہ رعایا، بلکہ سب کے سب اسی کی رعایا ہیں اور سارے کے سارے اس مالک الملک، احکم الحاکمین کے غلام ہیں۔

سب کے بدن پر ایک ہی قسم کا کپڑا 

اور زبان پر ایک ہی پکار  

’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَ الْمُلْکَ، لاَ شَرِیْکَ لَکَ‘‘۔ زبانوں پر یہ صدائیں ہیں، تومردوں کے جسم پر دو سادہ چادریں ہیں، گویا دربارِ الٰہی کی حاضری کا یہی لباس ہے، جو کفن، قبر اور حشر کی یاد دلاتا ہے۔ اس حالت میں اس لیے بلایا گیا ہے کہ یہاں طلب ہے تو کفن پوشوں کی یا ان کی جو انہی کی وضع قطع اختیار کر چکے ہیں، ان کی جو جیتے جی مُردوں کا لباس پہن چکے ہیں، آج اس میقاتِ حج سے حجاج کا صرف لباس ہی مردوں کا لباس نہیں بنا بلکہ کہنا چاہیے کہ نفس بھی مُردہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حج کا منظر جو قرآن نے پیش کیا وہ یہ ہے کہ: ’’حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے، نہ کوئی گناہ، نہ کوئی جھگڑا‘‘ (البقرۃ)۔ احرام کا یہ لباس اور اس کی ساری پابندیاں بندوں کی بندگی، بے حیثیتی اور عیش دنیوی سے بے رغبتی کا حقیقی منظر ہے۔

کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر 

اس کے بعد سفرِ سعادت کی اگلی بنیادی منزل اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، یہاں پہنچ کر حجاجِ بیت اللہ فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں، انہیں عبدیت کے سوا کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔ کعبۃ اللہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی رعنائی و دلکشی رکھی ہے کہ وہ منظر آنکھوں اور دل میں سما جاتا ہے، وہاں کے حقیقی انوار کا ادراک تو اہلِ قلب و نظر کرتے ہیں لیکن وہاں کے جلال و جمال کا منظر تو ہم جیسے کم ظرفوں کو بھی نظر آجاتا ہے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ کعبۃ اللہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔

مطاف کا منظر 

اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ کی طرف منسوب مقدس چیزوں سے بھی محبت رکھے، اسی بنیاد پر حجاج بیت اللہ بھی خانۂ کعبہ اور اس کے مقدس مقامات سے عقیدت و عظمت کا معاملہ کرتے ہیں، خانۂ خدا کا دیوانہ وار چکر لگاتے ہیں۔ ہر آن اور ہر لمحہ مطاف میں طواف کا چکر مسلسل جاری رہتا ہے۔

منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کا منظر 

طوافِ بیت اللہ کے علاوہ حج کے دیگر ارکان و اعمال کی ادائیگی کیلئے حجاج بحکمِ خدا کعبہ کو خیر باد کہتے ہوئے 8 ذی الحجہ کو منیٰ، 9ذی الحجہ کو عرفات جہاں اپنے گناہوں کا اعتراف کیا جاتا ہے، پھر رات میں مزدلفہ اور 10ذی الحجہ کو پھر منیٰ کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں کا منظر بھی نہایت پر کیف کہ بظاہر تو جنگل ہے، جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے، جس کی وجہ سے جنگل میں منگل نظر آتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں حجاج و عشاق موجود! اور جسے دیکھئے وہی (مرد) دو سادہ سفید چادروں میں ملبوس۔ نورانی صورتیں، ہر وقت ذکر الٰہی سے تر زبانیںاور زبان پر لبیک لبیک کی صدائیں۔ افعالِ حج کے یہ مناظر اور حجاج کی یہ ساری ادائیں بتلاتی ہیں کہ عشق و محبت کی صحیح اور حقیقی حقدار صرف اور صرف وہی ذاتِ پاک ہے جس نے ہمیں اور کائنات کے ذرّہ ذرّہ کو پیدا کیا۔ اگر چاہنا ہو تو اسی کو چاہو، پکارنا ہو تو اسی کو پکارو، مانگنا ہو تو اسی سے مانگو، ماننا ہو تو اسی کو مانو، کسی کی یاد میں سرگرداں پھرنا ہو تو اسی کی یاد میں سر گرداں پھرو۔ سب کچھ وہی ہے، اور ہم سب اسی کے بندے ہیں، بندگی ہمارا مقصد زندگی ہے، ایک بندہ کا سب سے بڑا کمال عبدیت پیدا کرنا ہے، جس کا ذریعہ عبادت ہے، بالخصوص حج! جیساکہ واضح ہو گیا۔ حق تعالیٰ ہم سب کو یہ سعادت بار بار نصیب فرمائے (آمین)۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔