رشتوں کا احترام ، سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں
رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا،اپنی ہمت کے بقدر اُن کے ساتھ تعاون کرنا،ان کی خدمت کرنا،اُن کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنا اوران کی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات سے سرشار رہنا شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی کہلاتاہے اور رشتہ داروں کے ساتھ بدخلقی و بدسلوکی کے ساتھ پیش آنے کو قطع رحمی کہا جاتا ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلے کے طور پر صلہ رحمی کرتا ہے، بلکہ اصل میں صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جب کوئی قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑے۔“(حدیث 949)
رسول اللہﷺ نے فرمایا ”کوئی بندہ تم میں اس وقت تک سچا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔(بخاری:13، مسلم :72)
شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی واجب اور قطع رحمی حرام ہے۔ قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں صلہ رحمی کی تاکید اور قطع رحمی کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
صلہ رحمی قرآن مجید کی روشنی میں:ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں، جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (سورة البقرة:27)
ایک اورارشاد ربانی ہے ” اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو ،اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراو¿، اور والدین کے ساتھ نیکی (حسنِ سلوک) کرو ،رشتہ داروں اور یتیموں ،مسکینوں اور قریبی ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور پاس بیٹھنے والے(رفیقِ سفر ، اہلیہ) اور مسافر اور اپنے غلاموں کے ساتھ بھی (نیکی کرو)، بے شک اللہ پسند نہیں کرتا اِترانے والے ،بڑائی کرنے والے شخص کو۔ (سورة النسائ: 36)
سورة رعد میںارشاد ربانی ہے کہ” وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے ، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا اور نماز قائم کی ، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے انجام کا گھر ہوگا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے آباء، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ”سلام ہو تم پر“ بسبب تمہارے صبر کرنے کے، سو کیا ہی خوب ہے انجام کا گھر ۔ ( 2 2,23,24,25)
اسی طرح سورة نور میں ارشادِ ربانی ہے کہ” اور جو لوگ تم میں صاحب ِ فضل اور صاحب وسعت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ (خیرات) نہیں دیں گے، انہیں چاہئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے“(سورة النور :22 )۔
صلہ رحمی احادیث مبارکہ کی روشنی میں: احادیث مطہرات میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ حضرت انس ؓسے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا ”جس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کی روزی کشادہ کی جائے اوراس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے رہنا چاہئے“۔(صحیح بخاری، جلد سوئم، 944)
رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ”نہ قطع تعلقی کرو،نہ دشمنی کرو اور نہ بغض رکھو اور نہ ایک دوسرے سے حسد کرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جا اور کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال منقطع رکھے“(صحیح بخاری:6065)
امیرالمومنین سیدنا ابوبکرصدیق ؓ سے مروی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا: ”سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کرکوئی گناہ ایسا گناہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں فوراً اس گناہ کے کرنے والے کو سزا دے اور اس کے ساتھآخرت میں بھی سزا دے“ (جامع ترمذی: 2511)۔ سیدالانبیاءخاتم المرسلینﷺ کا فرمان عالیشان ہے: ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا (صحیح مسلم:6520)۔خاتم الانبیاءتاجدار کائنات ﷺ کا فرمان ہے: ”ہر جمعرات اور جمعہ کی شب اولادآدم کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں، پس قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔“(مسند امام احمد بن حنبل: 10672)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا”میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے کیا توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ آپ ﷺ نے پوچھا! کیا تیری ماں زندہ ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا ”نہیں“۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تیری خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں! آپﷺ نے ارشاد فرمایا جاو¿ اس سے جا کر حسن سلوک کرو ( اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرما دینگے) (سننِ ترمذی )۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ بزرگ وبرتر ارشاد فرماتاہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں، میں نے رحم یعنی رشتے ناطے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمٰن کے لفظ سے نکالا ہے، لہٰذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتے ناطے کے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناطے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو (اپنی رحمت خاص سے) جدا کردوں گا“(مشکوةالمصابیح:420) ۔
تم لوگ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی اگر لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو(ترمذی، حدیث: 3014)۔
قطع رحمی صلہ رحمی کی ضد ہے،مطلب ہے رشتے ناطے کاٹنا،اس کی عملی زندگی میں بہت سے صورتیں ہیں مثلاً،رشتہ داروں سے بدگمانی کرنا،ان کی غیبت کرنا،چغلی کھانا،ان سے بدزبانی سے پیش آنا،ضرورت کے وقت رشتہ داروں کی مدد نہ کرنا،جو جس مرتبے کا رشتہ ہے اس کا لحاظ نہ رکھنا، میٹھی زبان کے بجائے سخت گوئی سے کام لینا،باہم میل ملاقات نہ رکھنا،خوشی یا غم یا کسی اور اہم موقع پر شرکت نہ کرنا یا اُنہیں اپنے ہاں شریک نہ کرنا،تحائف قبول نہ کرنا،دعوت قبول نہ کرنا،بیماری کے موقع پر عیادت نہ کرنا اورحسد کرنا وغیرہ وغیرہ۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیںپر
خدا مہرباں ہو گا عرش ِبریں پر
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جو کوئی یہ چاہے کہ قبر میں اپنے باپ کو آرام پہنچائے اور والد کی خدمت کرے تو باپ کے انتقال کے بعد اس کے بھائیوں(اپنے چچاو¿ں) کے ساتھ وہ اچھا برتاو¿ رکھے جو رکھنا چاہئے (صحیح ابن حبان)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺسے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے اقارب ہیں، میں ان سے جوڑ پیدا کرتاہوں مگر وہ مجھ سے توڑتے ہیں، میں ا±ن پر احسان کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے بدی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حلم وبردباری سے پیش آتا ہوں مگر وہ مجھ سے جہل و جفا سے پیش آتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : ”اگریہی حال ہے جو تم نے بیان کیا تو ت±و ان کے منہ پر راکھ ڈالتاہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تم کو ان پر غالب رکھے گا جب تک ت±و اس حالت پر رہے گا“(مسلم شریف )
جنت میں لے جانیوالا عمل: حضرت عبداللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپﷺ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں میں پڑے وہ یہ تھے کہ ”لوگو! ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرو ا،للہ تعالیٰ کی رضاجوئی کیلئے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو اور رات کے ان لمحات میں(نوافل) نماز ادا کیا کرو جب عام لوگ نیند کے مزے لے رہے ہوں، یاد رکھو ان! امور پر عمل کر کے تم حفاظت اور سلامتی کیساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاو¿ گے۔ (ترمذی شریف )
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا محتاج کی خدمت کرنا صدقہ ہے مگر اپنے کسی عزیز کی مدد کرنا دو امورپر مشتمل ہے، ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔ حضرت سلمان بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا صدقہ عام مسکینوں فقیروں کو دینے سے تو صرف صدقہ کا ثواب ملتا ہے مگر اپنے رشتہ داروں کو دیا جائے تو اس میں دوہرا اجر وثواب ہے، ایک صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا“(ترمذی شریف)۔
مسکین قرابت دار کا پہلا حق : صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائے گا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں۔ حضرت ابوطلحہؓنے اپنا باغ صدقہ کیا تو نبی کریم ﷺنے فرمایا : ” میں سمجھتا ہوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو “۔ حضرت طلحہ ؓ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا“ (بخاری ومسلم )۔
قطع رحمی کی سزا دنیا میں: حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا میں دیں، سوائے قطع رحمی،سرکشی و بغاوت کے۔ (بخاری شریف )
قطع رحمی کرنے والے کے اعمال مردود: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے خود نبی کریمﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر جمعرات کو اللہ تعالیٰ کے حضور بنی آدم کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں مگر ان میں سے قطع رحمی کرنے والے کا عمل قبول نہیں ہوتا۔ (مشکوٰةشریف )