قرآن پاک پڑھنے کے آداب وفضائل
قرآن مجید کو تعظیم اور غور وفکر کے ساتھ پڑھنا چاہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر مہربانی فرمائی کہ اس نے اسے اپنے عظیم عرش سے اس درجہ میں نازل فرمایا کہ مخلوق سمجھ سکے۔ یہاں تک کہ اس کے کلام کے معانی جو اس کی ذاتی صفت ہے، اسے مخلوق کی سمجھ کے درجہ تک پہنچا دیا اور مخلوق کیلئے وہ صفت حروف اور آواز کی لپیٹ میں کیسے ظاہر ہوتی اگر اس کے کلام کی جلالت حروف کے لباس میں مستور نہ ہو تو عرش اور زمین کو اس کے سننے کی تاب نہ ہوتی بلکہ جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے وہ اللہ کی بادشاہی کی عظمت اور نوری شعاعوں سے متفرق ہو جاتا ہے۔
اگر اللہ حضرت سیِّدنا موسیٰ علیہ السلام کو ثابت نہ رکھتا تو وہ اس کے کلام کو سننے کی طاقت نہ رکھتے۔ جس طر ح پہاڑ اس کی ادنیٰ تجلی کو برداشت نہ کر سکا اور ریزہ ریزہ ہو گیا۔ لہٰذا بندے کو چاہئے کہ قرآن مجید کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے دل میں متکلم کی عظمت کو بھی حاضر کرے اور یہ خیال کرے کہ اس کے ذریعے اللہ اس سے کلام فرما رہا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے ’’تلاوت کرنے والے کو چاہے کہ وہ با وضو ہو اور حالتِ ادب میں کھڑا یا بیٹھا ہو اور سب سے افضل نماز میں حالتِ قیام میں قرآت کرنا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’جس شخص نے تین دن سے کم میں مکمل قرآن پاک پڑھا اس نے نہیں سمجھا‘‘ (جامع الترمذی: 2949)
تلاوت کے اندر ترتیل (یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا) مستحب ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک یہ قرآن حزن کے ساتھ اتارا گیا ہے۔ پس جب اسے پڑھو تو حزن (یعنی غم) ظاہر کرو‘‘ (سنن ابن ماجہ :1337)۔
امیر المومنین حضرت سیِّدناعلی المرتضیٰ ؓنے ارشادفرمایا: ’’اگر میں چاہوں تو سورہ فاتحہ کی تفسیرسے ستراونٹ بھردوں‘‘۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجیدکے اسرار ختم نہیں ہو سکتے اور اس کے عجائبات بے شمار ہیں اور یہ چیزیں دل کی پاکیزگی پر موقو ف ہیں۔
اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ’’کام کے دوران قرآنِ کریم پڑھ یا سُن سکتے ہیں یا نہیں؟۔ قرآنِ مجید کی تِلاوت کرنا اور سُننا بہت بڑی سعادت ہے۔ تاہم قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور سُننے کے کچھ آداب بھی ہیں جنہیں بجا لانا ضَروری ہے۔ سورۃ الاَعراف کی آیت نمبر 204 میں اِرشادِ ربانی ہے: ’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سُنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو‘‘۔ رہی بات کام کے دَوران تِلاوت کرنے اور سننے کی تو اس کی دو صورتیں ہیں: اگر اکیلے کام کر رہے ہیں تو کام کے دَوران جب تک ذوق و شوق میسر ہے آپ تِلاوتِ قرآن کر بھی سکتے ہیں اور سُن بھی سکتے ہیں اس میں کوئی حَرج نہیں۔ ہاں! اگر دِل اِدھر اُدھربٹنے لگے تو مَوقوف کر دیں کہ اس صورت میں مکروہ ہے۔ اگر ایسی جگہ ہے جہاں اورلوگ بھی کام کرتے ہیں تو اس صورت میں وہاں بلند آواز سے پڑھنا جائز نہیں کہ یہ آداب ِتلاوت کے خِلاف ہے۔ اگر وہ لوگ نہیں سنیں گے تو پڑھنے والا گنہگار ہو گا۔
فضائل تلاوت کے متعلق احادیث:’’میری اْمَّت کی افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے‘‘ (شعب الایمان للبیہقی: 2022)۔
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5027)
حدیث قدسی،اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ’’جسے تلاوتِ قرآن مجھ سے مانگنے اور سوال کرنے سے مشغول (روک) رکھے، میں اسے شکر گزاروں کے ثواب سے افضل عطا فرمائوں گا‘‘ (کنزالعمال، حدیث: 2437 )
’’تین قسم کے لوگ بروز قیامت سیاہ کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے، انہیں کسی قسم کی گھبراہٹ نہ ہو گی، نہ ان سے حساب لیا جائے گا یہاں تک کہ لوگ حساب سے فراغ ہوں۔ (ان میں سے ایک) وہ شخص ہے جس نے رضائے الٰہی کیلئے قرآنِ پاک کی تلاوت کی اور لوگوں کی امامت کی جبکہ وہ اس سے خوش ہوں‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث: 2002)
’’اہل قرآن اللّٰہ والے اور اس کے خاص لوگ ہیں (اہل قرآن سے مراد: اس کی حفاظت کرنے والے، پابندی سے اس کی تلاوت کرنے والے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہیں) (اتحاف السادۃ المتقین، کتاب آداب تلاوت، ج5، ص13)۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ عرض کی گئی: ’’یارسولﷺ! اس کی صفائی کس چیزسے ہو گی؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تلاوتِ قرآن اور موت کی یادسے‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث: 2014)