جنگ ستمبر 1965ء جراعتوں، شجاعتوں کی داستان

تحریر : فارق حارث العباسی


ہر محاذ پر بھارت کو شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا،کئی مقامات پر بھارتی فوج اپنا جنگی سازوسامان چھوڑ کر فرار ہو گئی

جس فوج کی شجاعت و جوانمردی اور طرزِ حرب و حکمت کو دشمن بھی تسلیم کرتا ہو، اس پاک فوج کے بارے میں اپنی ہی قوم اور قوم کے رہنمائوں کی زبان سے ادا کردہ نامناسب الفاظ، غیر اخلاقی رویہ قومی و عسکری وقار اور جوش و جذبہ کو کچل دینے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ایسے فعل یا افعال سے مکمل اجتناب برتنے کی ضرورت ہے جو ملکی سالمیت اور اس کے استحکام کو دائو پر لگا دینے کا باعث و موجب بنے۔65ء کی اس جنگ کے اختتام کے چند روز بعد ہی برطانیہ کے معروف جریدے ’’سنڈے ٹائمز‘‘ نے پاک فضائیہ کی شاندار کارکردگی اور بہترین جنگی حکمتِ عملی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’پاکستانی فضائیہ نے اپنی فضائوں کا مکمل تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی فضائوں کو بھی اس طرح اپنے کنٹرول میں لے لیا کہ وہاں پر بھی ہر سو پاک فضائیہ کے طیارے ہی اڑتے دکھائی دیتے تھے۔ بھارتی پائلٹس پاکستانی شاہینوں سے اس قدر خائف و خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے طیارے فضا میں بلند کرنے سے گریزاں تھے۔ پاکستانی شاہینوں کے سامنے بھارتی طیارے ننھے منے پرندوں کی مانند تھے جو شاہین کو دیکھ کر اِدھر اُدھر چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی حیران کن بات تو یہ ہے کہ وہ بھارتی فوج جو پاکستانی فوج سے کم و بیش تین گنا بڑی اور طاقتور تھی پاکستانی افواج کی جنگی چالوں اور جذبہ و ولولہ کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جذبوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ پاک بھارت کے درمیان ہونے والی یہ جنگ ہمارے لیے بہت سے سوال اور تجربات چھوڑ گئی۔(سنڈے ٹائمز 19ستمبر 1965ء)

ستمبر کی یہ جنگ کوئی معمولی جنگ نہ تھی بلکہ یہ جنگ درحقیقت پاکستان کو ہڑپ کر جانے کی ایک بھیانک کارروائی تھی جس کا پاکستانی بہادر افواج نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ بھارت کو اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ تھا جبکہ افواج پاکستان کو اپنی ایمانی قوت پر۔ 

دنیا بھر کی بڑی عسکری قوتوں نے اس جنگ پر اپنے اپنے انداز اور تجربات کی بناء پر تجزیے شروع کر رکھے تھے اور بہت سی عالمی طاقتوں کا یہ خیال تھا کہ نومولود پاکستان بھارت کی اس فوجی قوت کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ پاک افواج کے جذبۂ شہادت نے دشمن کے تمام ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا اور عسکری تجزیہ کاروں کی آنکھیں بھی خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم نے اپنے سے تین گنا بڑی فوجی قوت اور چار گنا بڑی عوامی طاقت کی اس یلغار کو نہ صرف روک لیا بلکہ شکست فاش سے دوچار کیا کہ اس وقت قوم کے دل اور افواج پاکستان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ یہی وہ امتیازی خصوصیت تھی جس نے ہمیں اس کڑی آزمائش میں سرخرو کیا۔ یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ اس جنگ میں قوم اور فوج کی کیفیت یک جان دو قالب کی مانند تھی اور اسی اجتماعی جوش و جذبے نے دشمن کے غرور و تکبر کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا۔

تقسیم ہندکے وقت سرحدوں سے متعلق پاکستان کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی وہ کوئی معمولی بات نہ تھی ۔ اس کے ساتھ ہی جو اس سے بھی بڑی زیادتی کی گئی وہ ہندوستان کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ تھا جو کشمیری عوام کی مرضی و منشاء کے قطعی خلاف تھا لہٰذا اس ابتدائی دور میں جب کشمیری حریت پسندوں نے ہندوستان کی اس کارروائی کے خلاف مزاحمت کی تو اس پر اقوام متحدہ نے فوری طور پر صلح کرا دی اور یہ فیصلہ دیا کہ کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کیلئے استصوابِ رائے کا حق حاصل ہے۔ ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی پالیسی نے ایک مستقل نزاع کی صورت پیدا کردی۔ یہی نہیں بلکہ حکومت ہند نے واویلا مچانا شروع کر دیا کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے مابین متنازعہ علاقہ نہیں بلکہ ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ حالات بگڑتے بگڑتے اس نہج پر پہنچ گئے کہ ہندوستان نے پاکستانی سرحدوں پر جنگی کارروائیاں شروع کر دیں۔ مئی1965ء میں ہندوستانی فوجوں نے رَن کچھ کی بعض چوکیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر پاکستانی فوج کے مجاہدوں نے ہندوستانی فوجیوں کے چھکے چھڑا دیئے جس پر بھارتی لیڈر لال بہادر شاستری شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے اور کہا کہ ’’ اس کا بدلہ لینے کیلئے اب ہم اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے‘‘۔ 

یہاں ایک بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ستمبر 1962ء میں بھارت اور چین کے درمیان جب جنگ ہوئی تو بھارت کے حمایتی ممالک نے چین کی مخالفت میں بھارت کو بے تحاشا اسلحہ فراہم کیا جن میں سے کچھ ہتھیار تو اس نے چین کے خلاف استعمال کئے مگر لاتعداد ہتھیار استعمال کرنے کا بھارت کو موقع ہی نہ ملا۔ وہ اسلحہ بھارت نے اس جنگ میں پاکستان کے خلاف استعمال   کیا۔بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان عسکری اعتبار سے ایک کمزور ملک ہے۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ایک پلان کے تحت پاکستان کی فوجی قوت کو بھی نہایت قلیل و محدود کردیا گیا تھا اور یہی ضبط بھارت کے سر پر سوار تھا کہ پاکستان اس کا مقابلہ کرنے کی شکست و صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس نے 1965ء کے عین موسمِ بہار میں کشمیر میں کارگل کی چند ایک چوٹیوں پر قبضہ کر لیا لیکن اقوام متحدہ کی مداخلت پر مئی میں اسے یہ چوکیاں چھوڑنا پڑیں ۔ اس کے فوراً بعد ہی اس نے ٹیٹوال ، اوڑی اور چھمب کے علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور پھر گجرات کے قصبہ اعوان شریف پر بمباری کی ۔ اس کے بعد بھارتی فوجیں پونچھ اور حاجی پیر پر قابض ہو گئیں۔ گویا اب ہندوستان رفتہ رفتہ کشمیر کی وادیوں سے نکل کر پاکستان کے علاقوں پر بھی قابض ہونے لگا تھا چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان نے بھی چھوٹی سطح پر جوابی اور مدافعاتی کارروائیوں کا آغاز کیا اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔

یکم ستمبر 1965ء تک پاکستانی افواج نے چھمب جوڑیاں وغیرہ فتح کر لئے۔ پاک افواج جب اکھنور کی طرف بڑھیں تو بھارتی افواج اپنے اِرد گرد کے علاقے چھوڑ کر اکھنور کی طرف بھاگیں تاکہ اسے بچایا جا سکے۔ اب کشمیر کے سرحدی علاقوں اور اہم راستوں پر پاکستانی حملوں اور فوج کا دبائو شدید ہو چکا تھا اور ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ بہت جلد کشمیر فتح ہو جائے گا کہ اچانک 6ستمبر 1965ء کو ہندوستان نے لاہور پر حملہ کر دیا تاکہ پاکستانی فوجوں کی توجہ کشمیر سے ہٹائی جا سکے۔ 6ستمبر کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے قوم اور پاک افواج کے نام ایک خصوصی اور یادگار تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے عزیز ہم وطنو! پاکستان کے کروڑوں عوام کیلئے آزمائش کا لمحہ آن پہنچا ہے۔ہندوستانی افواج نے آج صبح پاکستانی علاقوں کے اندر لاہور پر حملہ کر دیا ہے۔ اس نے ہماری سرحدوں پر حملہ کرکے اپنے مذموم ارادوں کا ثبوت فراہم کردیا ہے کیونکہ ہندوستانی حکمرانوں کو خود مختار اور آزاد پاکستان جس میں مسلمان امن و سکون سے رہ سکیں، یکسر ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اب ہندوستانی حکمرانوں نے اپنی بزدلی کا کھلا ثبوت فراہم کرنے اور منافقتوں کا اظہار کرنے کیلئے اپنی فوجوں کو پاکستان کی مقدس سرزمین پر مارچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہندوستان کی یہ کارروائی باقاعدہ اعلانِ جنگ کے بغیر ہے۔ لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دشمن پر سخت وار کریں اور ہندوستانی استعماریت کو ختم کرکے رکھ دیں۔ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن کی توپوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیجئے! آگے بڑھئے اوردشمن پر کاری ضرب لگایئے‘‘۔

 6ستمبر کے دن پاک افواج نے بھارتی فوج کے 800سے زائد فوجی ہلاک کردیئے اور پٹھان کوٹ پر حملہ کرکے بھارت کے 22طیارے تباہ کردیئے۔7ستمبر کو پاکستانی فوج نے بھارت کے ہر حملے کو بری طرح ناکام بنا دیا اور بھارت کے31طیارے مار گرائے۔ 8ستمبر کو لاہور کے محاذ پر بھارت کو شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا اور بھارتی فوج اپنا جنگی سازوسامان چھوڑ کر فرار ہو گئی۔سیالکوٹ سیکٹر پر پاکستانی فوج نے بھارت کے 25ٹینک تباہ کر دیئے اور پانچ توپوں پر قبضہ کر لیا۔ پاکستانی شاہینوں نے اسی روز سرگودھا میں دشمن کے تین ہنٹر طیارے اور قصور میں دو طیارے مار گرائے۔جودھ پور اور ہلواڑہ میں کامیاب فضائی حملے کرکے بھارتی فضائیہ کا پانچواں حصہ تباہ کر دیا۔ 9/10ستمبر کو بیدیاں کھیم کرن سیکٹر میں دشمن کو کئی میل دور دھکیل دیا۔11ستمبر کو پاکستانی افواج نے فیروز پور سیکٹر میں بھارت کے قصبے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر بھارت کے مزید  36ٹینک تباہ کر دیئے اور دو مزید جٹ طیاروں کو مار گرایا۔

12ستمبر کو سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن کے تمام ٹینک اور 123فوجی گاڑیاں تباہ کر دیں۔ اس شدید نقصان پر پچاس ہزار کے قریب بھارتی فوجی میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان سات دنوں میں پاکستانی افواج نے بھارت کے  187ٹینک تباہ کر دیئے اور کھیم کرن کے محاذ پر فورتھ سیکٹر رجمنٹ نے پاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔16ستمبر تک بھارت کے 336ٹینک اور 91طیارے تباہ ہو چکے تھے۔ 17 ستمبر کو سیالکوٹ محاذ پر مزید41ٹینک اور 14توپیں تباہ کردی گئیں۔18ستمبر کو پاک فضائیہ نے بھارت کے مزید 6طیارے اور 11 ٹینک تباہ کر دیئے۔ اس طرح اس سترہ روزہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کے 110طیارے تباہ کر دیئے جبکہ پاکستان کے صرف 19طیارے تباہ ہوئے۔ پاک افواج نے بھارت کے 475 ٹینک تباہ کئے جبکہ پاکستان کے 165ٹینک تباہ ہوئے۔ بھارت کے 9ہزار 600فوجی موت کے گھاٹ اتارے گئے جبکہ پاکستان کے  1200افسران و جوان شہید ہوئے۔ پاکستان نے بھارت کے 1617مربع میل رقبے پر قبضہ کیا جبکہ بھارت پاکستان کے کسی علاقے پر کوئی خاص قبضہ نہ کر سکا۔ اس جنگ میں مکمل فوجی یکجہتی دیکھنے میں آئی۔23ستمبر کو جب جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تو پوری قوم کو اس بات کا دُکھ تھا کہ جنگ کیوں بند کی گئی کیوں کہ فوج اور قوم نے مل کر دشمن کو دن میں تارے دکھا دیئے تھے۔ دشمن کی حالت دیدنی تھی اور وہ اقوام متحدہ کے آگے لیٹا اس کے تلوے چاٹ رہا تھا کہ اس جنگ کو رکوائیں ورنہ بھارت ختم ہو جائے گا۔ 

یہ تھا وہ جذبہ اور قومی اتحاد جس نے خود سے چار گنا بڑی قوت کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ آج ایک بار پھر ہمیں ایسے ہی اتحاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہ کر سکے۔ نہ پاک افواج کے جذبۂ ایمانی میں کوئی کمی ہے اور نہ ہی قوم کی حب الوطنی پر کوئی شک، بس اگر کمی ہے توقیادت کی جو ان دونوں قوتوں کو آپس میں یک جان دو قالب کر سکے۔

فاروق حارث العباسی سیاسی و عسکری تجزیہ نگار، محقق ، کشمیر لبریشن موومنٹ کے سابق سپریم کمانڈر ہیں، قومی خدمات کے ساتھ سیاسی و صحافتی میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں، موقر جریدوں میں ان کی تحریریں شائع ہوتی ہیں

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔