ڈاکٹر رشید امجد کی علامتی افسانہ نگاری

تحریر : نادیہ عنبر لودھی


اردو افسانے کو جدت سے روشناس کرایا، پہلا افسانوی مجموعہ ’’بیزار آدم کے بیٹے‘‘ 1974ء میں شائع ہوااُردو افسانے سے محبت کا گہرا رشتہ استوار کرنے والے رشید امجد 5 مارچ 1940ء کو سری نگر مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد راولپنڈی میں مقیم رہے۔ ان کی زندگی کے سفر کا اختتام بھی اسی شہر میں ہوا۔ وہ ایک اعلیٰ ظرف انسان، بے مثال استاد، بہترین مدیر، زبردست مرتب و محقق اور بے حد اہم افسانہ نگار ہی نہیں بہت معتبر نقاد بھی تھے۔

 ان کے تنقیدی مضامین کی پہلی کتاب ’’نیا ادب‘‘ 1969ء میں شائع ہوئی گویا ان کی شخصیت کا پہلا حوالہ تنقید ہے۔ ’’رویے اور شناختیں‘‘، ’’یافت و دریافت‘‘، ’’شاعر کی سیاسی و فکری روایت‘‘، ’’اقبال فکر و فن‘‘، ’’مرزا ادیب شخصیت و فن‘‘ اور ’’تعلیم کی نظریاتی اساس‘‘ جیسی کتابیں ان کی تنقیدی بصیرت کی گواہ ہیں۔ ’’میرا جی شخصیت و فن‘‘ ان کاپی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو کتابی صورت میں شائع ہوا۔ تحقیقی اور تنقیدی اعتبار سے یہ ایک بلند پایہ کام ہے جس میں میرا جی کی باطنی و روحانی تنہائی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کے ہاں مادیت اور ماورائیت کے امتزاج کا ذکر کیا گیا ہے۔ 

انہوں نے کئی جلدوں میں پاکستانی ادب کا انتخاب بھی کیا، اردو کا مزاحمتی ادب بھی مرتب کیا۔ جدید اردو افسانے کی روایت پر بھی بہت کچھ لکھا اور اپنے تنقیدی افکار سے تخلیقی کاروں کی ایک پوری نسل کو فیض یاب کیا۔ جس طرح اچھی تنقید کسی فن پارے کے اسرار تک پہنچ کر اس کا طلسم کھولتی ہے اسی طرح ڈاکٹر رشید امجد بھی اپنا تخلیقی جوہر دریافت کرکے اپنی کہانیوں اور کرداروں کے ذریعے اپنے وجود میں پوشیدہ احساسات کو روشنی میں لائے یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں عام طور پر کوئی واقعہ کہانی کی بنیاد نہیں بنتا بلکہ وہ کسی خیال یا احساس پر افسانوں کی بنیاد کھڑی کرتے ہیں۔

’’بیزار آدم کے بیٹے‘‘ ان کا اولین افسانوی مجموعہ ہے جو 1974ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تسلسل کے ساتھ ان کے دیگر افسانوی مجموعے شائع ہوتے رہے جن میں ’’ریت پر گرفت‘‘، ’’ سہ پہر کی خزاں‘‘، ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘، ’’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘، ’’کاغذ کی فصیل‘‘، ’’گمشدہ آواز کی دستک‘‘، ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘، ’’صحرا کہیں جسے‘‘ اور ’’دکھ ایک چڑیا ہے‘‘ شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کی دو کلیات ’’عام آدمی کے خواب‘‘ اور ’’دشتِ نظر سے آگے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔ 2020ء میں ان کی کہانیوں کا آخری مجموعہ ’’کہانی نے خواب دیکھا‘‘ نذر قارئین ہوا۔ 2003ء میں ’’تمنا بے تاب‘‘ کے نام سے خود نوشت منظر عام پر آئی۔

اس قدر وقیع ادبی سرمایہ اگلی نسلوں تک منتقل کرنے والا کوئی عام تخلیق کار نہیں ہو سکتا اسی لئے ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ان کے افسانوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا۔

’’رشید امجد  کا افسانہ، جدید اردو افسانے کا محض نمائندہ نہیں، اس کا تاریخی بیانیہ بھی ہے۔ ان کے افسانوں میں جدید اردو افسانہ، ایک نئی جہت میں اپنی تاریخ اور روایت کی تشکیل کرتا ہے۔ یہ جہت انسانی شناخت کے جدید اور اسی وجہ سے کثیر الاطراف  سفر سے عبارت ہے‘‘۔

رشید امجد کی پہلی کہانی ’’لیمپ پوسٹ‘‘ کے عنوان سے ’’ادب لطیف‘‘ ستمبر 1960ء کے شمارے میں چھپی تھی۔ 1965ء میں انہوں نے یہ کہانی علامتی رنگ میں دوبارہ لکھی جو ’’اوراق‘‘ کے شمارے اکتوبر1966ء میں شائع ہوئی اور یہیں سے ان کے ہاں علامتی پیرایۂ اظہار کا آغاز ہوا۔

ساٹھ کی دہائی میں سیاسی جبر کی فضا، حقیقت پسندی اور مقصدیت کے رجحان سے گریز، بڑھتی ہوئی تنہائی اور جذباتی انتشار اور عالمی ادبی رویوں سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش نے اردو کے افسانہ نگاروں کو بھی علامت نگاری کی طرف مائل کیا جس کی وجہ سے معنی اور اسلوب کی سطح پر اردو افسانے میں توسیع کے امکانات پیدا ہوئے، داخلیت اور باطنی کشمکش کو اہمیت دی گئی، افسانے کو اکہرے پن سے نجات ملی تو اس میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوئی۔ ہندوستان اور پاکستان کے کچھ افسانہ نگار علامت نگاری کی طرف  مائل ہوئے۔ 

ان کے مزاحمتی افسانوں میں ’’گملے میں اُگا ہوا شہر‘‘، ’’پت جھڑ میں مارے گئے لوگوں کے نام‘‘،’’ بگل والا‘‘، ’’بادشاہ سلامت کی سواری‘‘ اور ’’پژمردہ کا تبسم‘‘ ہماری قومی سیاسی و سماجی صورتحال کے مختلف زاویوں کو منعکس کرتے ہیں۔’’ ایک کہانی اپنے لیے‘‘ مسئلہ کشمیر کے اور’’مجال خواب‘‘ نائن الیون کے تناظر میں لکھے گئے افسانے ہیں۔’’ سمندر قطرہ سمندر‘‘ حال اور ماضی، دو زمانوں میں سانس لیتے ہوئے انسان کی کہانی ہے اور ’’یاہو کی نئی تعبیر‘‘ انسانی ترقی کی سمت اتارہ کرتا ہے تاہم بقول مبین مرزا ’’افسانہ نگار نے انسانی احوال کو جس نکتے سے بھی اجاگر کیا ہے وہ فی الاصل فرد یا کردار کی وجودی جہت سے منسلک ہے یا اس کی توسیع ہے‘‘۔

نادیہ عنبر لودھی شاعرہ ، ادیبہ اورنثر نگار ہیں،آپ کی تحریریں اور کالم مختلف جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں

 

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5 برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔