یادرفتگان: پطرس بخاری: اردو ادب کے منفرد مزاح نگار

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


’’ہاسٹل کے چوکیدار سے ہم نے کہا کہ ہمیں کل علی الصبح جگا دینا۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی اس نے اتنی زور سے ہمارے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ ہم تو کیا ہماری قسمتِ خوابیدہ تک جاگ اٹھی‘‘۔

یہ پطرس بخاری کے ایک مزاحیہ مضمون کی وہ شگفتہ تحریر ہے جس سے ایک مزاح نگار کے طور پر ان کے مقام اور مرتبے کا پتہ چلتا ہے۔ اُردو کے مزاحیہ ادب میں پطرس بخاری کے علاوہ کرنل محمد خان، شفیق الرحمان، ابن انشاء، حاجی لق لق اور مشتاق احمد یوسفی نے بہت نام کمایا۔ یوسفی صاحب کی مزاحیہ تحریروں میں جو نکتہ آفرینی ملتی ہے اس میں پطرس بخاری کی جھلک موجودہے۔

 یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام سید احمد شاہ بخاری تھا۔وہ صرف مزاح نگار ہی نہیں بلکہ انہوں نے کئی دوسرے موضوعات پر بھی کتابیں لکھیں۔ وہ ایک صداکار اور سفارتکار بھی تھے۔ یہ ان کا اعزاز تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 

ان کے مزاحیہ مضامین کی کتاب ’’پطرس کے مضامین‘‘ نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں ’’کلیات پطرس‘‘،’’ پطرس کے خطوط‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔’’پطرس کے مضامین‘‘ میں ان کے 11مزاح پارے ہیں جو اعلیٰ درجے کے ہیں اور اس میں ان کا مشاہدہ اور نکتہ آفرینی عروج پر ہے۔ ان کے مضامین ’’مرزا کی بائیسکل‘‘،’’کتے‘‘ اور’’ سویرے جو کل میری آنکھ کھلی‘‘ اُردو کے مزاحیہ ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔

پطرس بخاری ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے پشاور کے ایڈورڈ مشن سکول سے تعلیم حاصل کی اور پھر وہ لاہور آ گئے جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج (اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی) میں انگریزی ادب پڑھا۔ پطرس بخاری برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے ایمانول کالج کیمرج سے تعلیم حاصل کی۔پھر وہ لاہور آ گئے اور 1927ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے۔ وہ بڑے ذہین اور قابل آدمی تھے۔ ان کے بھائی زیڈ اے بخاری پاکستان کے نامور صدا کار تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فیض احمد فیضؔ، ن م راشد اور کنہیا لال کپور بھی ان کے شاگردوں میں شامل تھے۔ 

1950ء میں جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو پطرس بخاری بھی ان کے ہمراہ تھے۔ لیاقت علی خان کی تمام تقریریں اور عوامی اعلانات پطرس بخاری کے زورِ قلم کا نتیجہ تھے۔ نیویارک میں بخاری صاحب ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ وہ گھر میں چار زبانیں بولتے تھے جن میں مقامی بولی، فارسی، اُردو اور پشتو شامل ہیں۔

’’پطرس کے مضامین‘‘ کو اردو کے مزاحیہ ادب کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ مضامین 1927ء میں شائع ہوئے۔ اگرچہ یہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں منظر عام پر آئے لیکن ان کی تازگی اور شگفتگی آج تک قائم ہے۔

پطرس بخاری کو یونانی فلسفے پر بھی عبور حاصل تھا۔ انہوں نے ایک معرکہ آرا مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’’قدیم یونانی بادشاہ اور ان کے افکار‘‘ ۔یہ مضمون 1919ء میں لاہور کے ایک جریدے میں شائع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 21برس تھی۔ 

انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنے وطن کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ اس وقت اقوام متحدہ کا ادارہ اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں تھا۔ انہوں نے جس طرح یونیسف کا کیس لڑا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دراصل یونیسف کو بند کرنے کیلئے اجلاس منعقد کئے جا رہے تھے کیونکہ بظاہر یہی لگتا تھا کہ یونیسف نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہیں لیکن پطرس بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یونیسف کی ضرورت ترقی پذیر ملکوں میں یورپی ممالک سے زیادہ ہے اور خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ترقی پذیر ملکوں میں یونیسف کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ان کے مؤثر دلائل نے امریکی صدر روز ویلٹ کو بھی متاثر کیا اور وہ بھی یونیسف کے حوالے سے اپنے ملک کا موقف بدلنے پر مجبور ہو گئے۔ اُس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل رالف جے بنچے تھے۔ انہوں نے پطرس کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ احمد بخاری درحقیقت ایک لیڈر اور فلسفی تھے۔ اگرچہ ان کی عمر زیادہ نہیں تھی لیکن لگتا تھا کہ وہ ایک کمال کے مدبر ہیں۔ وہ دنیا بھر میں امن کے متلاشی لوگوں کی اُمنگوں کی ترجمانی کرتے تھے۔

یہ عظیم مزاح نگار 5دسمبر 1958ء کو امریکہ میں انتقال کر گئے اور ان کی تدفین بھی وہیں ہوئی۔ اُردو کا مزاحیہ ادب پطرس بخاری کا ہمیشہ ممنون رہے گا۔

 

پطرس بخاری کے مضامین سے چنداقتباس

 

 

’’ خدا کی قسم ان کتوں میں وہ شائستگی دیکھی کہ عش عش کر کے لوٹ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔