اتفاق میں برکت ہے!

تحریر : انور سلطانہ


کسی جنگل میں ایک بکری،ہرن اور گھوڑا ایک ساتھ رہتے تھے۔تینوںکی آپس میں بہت اچھی دوستی تھی اور جنگل کے باقی جانور ان کی دوستی اور اتفاق کی مثالیں دیتے تھے ۔

گھوڑا لکڑیاں لے کر آتا،ہرن پانی بھرتا اور بکری کھانا بناتی تھی۔تینوں اپنا کام بڑی ایمانداری سے کرتے اور کبھی ان کا آپس میں جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔

ایک دن گھوڑا لکڑیاں لینے گیا تو راستے میں اس کی ملاقات ایک لومڑی سے ہوئی۔لومڑی نے سلام کیا اور گھوڑے سے سوال کیا’’کیوں گھوڑے بھائی کہاں جا رہے ہو؟‘‘

گھوڑے نے جواب دیا: ’’بی لومڑی! میں لکڑیاں لینے جا رہا ہوں۔سارا دن جنگل سے لکڑیاں جمع کرکے شام کو گھر جائوں گا۔ہرن سبزیاں لائے گا اور پھر بکری ہمیں کھانا بنا کر دے گی‘‘۔

یہ سنتے ہی لومڑی نے کہا: ’’تم کتنے بیوقوف ہو۔تم اتنے خوبصورت جانور ہو ۔اپنے بال تو دیکھو ذرا۔تم کیوں دن بھر اوروں کیلئے اتنی مصبیت جھیلتے ہو؟ــبکری کو دیکھو وہ تو چین سے گھر میں بیٹھے رہتی ہے اور ہرن کا بھی یہی حال ہے۔ تم یوں مارے مارے پھرتے ہو۔اس سے اتنا  بھی نہیں ہوتا کہ باری باری کام کریں‘‘۔

گھوڑے نے جواب دیا: ’’ نہیں ! بی لومڑی ایسی بات نہیں ہے، ہم تینوں نے اپنا کام آپس میں بانٹا ہوا ہے اور ہم سب اپنا کام بہت ذمہ داری سے کرتے ہیں‘‘۔

لومڑی نے مزید پھوٹ ڈلواتے ہوئے کہا: ’’دیکھو! اصول تو یہی ہوا ناکہ ایک دن ہرن لکڑیاں لائے،دوسرے دن بکری اور تیسرے دن تم‘‘۔

یہ کہہ کر لومڑی چلی گئی لیکن اتفاق سے بنے ہوئے گھر میں نفاق کا بیج بوگئی۔گھوڑا اتنا بے وقوف تھا کہ لومڑی کی باتوں میں آگیا اور غصے میں گھر آگیا۔

گھر پہنچ کر اس نے لکڑیوںکو ایک طرف پھینکااورخود منہ پھلا کر ایک کونے میںبیٹھ گیا۔

ہرن سبزیاں لے کر آیا اور بکری نے کھانا بنایا۔ جب دسترخوان بچھا تو ہرن گھوڑے کو کھانے کیلئے بلانے گیا۔

گھوڑے نے منہ بناتے ہوئے کہا: ’’نہیں، میں نے نہیں کھانا‘‘۔

ہرن نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیوں گھوڑا بھائی! کیا ہوا ہے؟آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟‘‘

گھوڑے نے جواب دیا: ’’مجھ سے یہ روز روز کا دھندا نہیں ہوتا۔میری جان مفت کی نہیں ہے کہ میں اکیلا ہی باہرکے سارے کام کروں اور تم چین سے بیٹھے رہو‘‘

بہت بحث کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ کل سے بکری سبزیاں لائے گی ،ہرن لکڑیاں لائے گا اور گھوڑا گھر میں کھانا بنائے گا۔

صبح ہوئی تو گھوڑا کھانا بنانے کیلئے گھر ہی رہا،بکری سبزیاں لینے چلی گئی اور ہرن لکڑیاں جمع کرنے کیلئے نکلا۔ابھی ہرن چند ہی قدم بڑھا تھا کہ اس کاپائوں پھسلا اور وہ کنویں میں جا گرا۔بکری سبزیاں لینے گئی تو اس کو شیر نے دبوچ لیا۔ ادھر گھوڑا نے کھانا بنانے کیلئے چولہے میں آگ جلائی تو ایک چنگاری اڑ کر اس پر پڑی اور اس کے سارے بال جل گئے۔ آخر کار لومڑی کی لگائی گئی آگ سے بسابسایا گھر تباہ ہوگیا۔

تو بچوں کیا سیکھا؟اتفاق میں برکت ہے اور نا اتفاقی ہمیشہ تباہ کرتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭