اسلام میں عیادت کے آداب
اسلام ایک مکمل دین حق ہے اور اس نے اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں بھرپور رہنمائی فرمائی ہے۔ اسلام نے جہاں اللہ کے حقوق پورے کرنے کا حکم دیا وہیں اس نے بندوں کے حقوق کو بھی پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح اسلام نے اگر کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرنے کا ناصرف حکم دیا ہے بلکہ اس عمل کی بہت اہمیت اور بڑا اجر و ثواب بھی رکھا ہے۔
اس عمل خیر کی حیثیت صرف یہی نہیں کہ یہ اجتماعی زندگی کی ایک ضرورت ہے یا باہمی تعاون و غم خواری کا ذریعہ ہے بلکہ اسلام نے اسے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان بھائی کا دینی حق قرار دیا ہے۔ سرکار دو جہاںﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں جن میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جائے۔ حدیث شریف میں آتا ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں، سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا،جنازہ کے ساتھ جانا، اُس کی دعوت قبول کرنا، اُس کی چھینک کا جواب دینا‘‘(صحیح بخاری : 1240، صحیح مسلم : 2162)۔
اس میں شک نہیں کہ بندہ مؤمن کیلئے صحت و تندرستی اور ہاری و بیماری دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء اور آزمائش کی چیزیں ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندے کے ایمان کا امتحان لیتا ہے کہ آیا میرا یہ مؤمن بندہ صرف صحت و تندرستی ہی میں میرا نام لیتا ہے یا مرض و بیماری میں بھی مجھے یاد کرتا ہے؟ ۔اگر بندۂ مؤمن صحت و تندرستی کی طرح ہاری و بیماری میں بھی اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ایسا مؤمن بندہ اپنے رب کے امتحان میں کامیاب اور بامراد ہوگیا ہے اور اگر وہ صحت و تندرستی میں تو اللہ تعالیٰ کا نام لیتا تھا لیکن ہاری و بیماری میں گھبرا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوگیا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ بندہ ٔ مؤمن اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس لئے صحت ہو یا بیماری، خوشی ہو یا غمی، مشکل ہو یا آسانی ہر حال میں اپنے کریم رب کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے مریض بندے کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ اس کی بیمار پرسی اور عیادت کرنے، اس کو خوشی و مسرت دلانے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کو اس کے دوسرے مسلمان بھائیوں پر اس کا ایک لازمی حق ٹھہرا دیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (بندے سے)فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تم نے میری عیادت نہیں کی، بندہ عرض کرے گا اے میرے پاک پروردگار!میں تیری عیادت کس طرح کرتا ، آپ تو تمام جہانوں کے مالک ہیں اور بیماری سے پاک ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا !کیا تجھے معلوم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی، اگر اس بیمار بندے کی عیادت کرتا تو مجھے (یعنی میری رضا)کو اس کے پاس پاتا یعنی تو اللہ کی خوشنودی اور رحمت کا مستحق قرار پاتا‘‘(صحیح مسلم :1465)
پھر نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی تو وہ جنت کے بالا خانے میں ہوگا۔حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے تو وہ جنت کے کھجور کے باغ میں ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے‘‘ (صحیح مسلم:2568)
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مریضوں کی عیادت کیا کرو اور جنازے میں شرکت کیا کرو کہ یہ چیزیں تم کو آخرت کی یاد دلائیں گی‘‘(مسند احمد : 11180)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب کوئی مسلمان کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو جب تک وہ بیٹھتانہیںہے دریائے رحمت میں داخل رہتا ہے اور جب بیمارکے پاس بیٹھتا ہے تو دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا ہے‘‘۔حضرت جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں غوطہ لگایا اور جب وہ بیٹھ گیا تو اُس نے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں جگہ بنالی‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 10834)۔
یاد رہے کہ جہاں بیمار بندہ مؤمن اور مسلمان کی عیادت کرنا سنت ہے تو وہیں کافر اور مشرک بیمار شخص کی عیادت اور اس کی مزاج پرسی کرنا بھی ہمارے پیارے نبیﷺ کی سنت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نوجوان رسول اللہﷺ کی خدمت کرتا تھا، ایک مرتبہ وہ بیمار ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی عیادت کرنے تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ اس کے سرہانے کی طرف جا کر بیٹھے اور اس سے فرمایا: ’’(بیٹا) آپ مسلمان ہو جائو‘‘ وہ یہودی نوجوان اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا جو اس کے پاس کھڑا تھا۔ باپ نے کہا ’’ابوالقاسم (حضور اقدسﷺ ) کا کہنا مان لو! چنانچہ اُس یہودی نوجوان لڑکے نے آپﷺ کا کہنا مان لیا اور مسلمان ہوگیا۔ آپ ﷺ اس کے پاس سے یہ فرماتے ہوئے اٹھے کہ ’’شکر ہے اس ذات کا کہ جس نے اسے جہنم (کی آگ) سے نجات عطا فرمائی‘‘ (صحیح بخاری: 1356)
جب کسی مریض کی عیادت کرنے اس کے گھر جاناپڑ جائے تو عیادت کرنے والے شخص کو چاہئے کہ وہ اس کے گھر جاکر اپنی نظروں کی مکمل حفاظت کرے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک مریض کی عیادت کرنے اس کے گھر تشریف لے گئے، آپؓ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ اس گھر میں ایک عورت تھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے ساتھیوں میں سے (اچانک) ایک شخص کی نظر اس عورت پر پڑگئی تو آپؓ نے (اسے ڈانٹتے ہوئے) فرمایا کہ: ’’اگر تم اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالتے تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہوتا‘‘ (ذم الہویٰ لابن الجوزی:ص 87)۔
اسی طرح عیادت کرنے والے شخص کو چاہیے کہ وہ مریض کے سرہانے بیٹھے کہ یہ عیادت کرنے کا مسنون طریقہ ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی مریض کی عیادت کرنے کیلئے تشریف لے جاتے تو اُس کے سرہانے کے قریب بیٹھتے اس کے بعد اس کو یوں دُعا دیتے ’’میں عرشِ عظیم کے رب، عظمت والے اللہ سے تیرے لئے صحت و تندرستی اور بیماری سے شفاء کا سوال کرتا ہوں‘‘ اگر مریض کی زندگی ہوتی تو وہ بیماری سے شفایاب اور تندرست ہو جاتا۔ (سنن ابی داؤد: 3106)
پتہ چلا کی عیادت ایک بہت بڑی عبادت ہے لیکن آج کل اس نفسا نفسی کے دور میں اس عظیم عبادت سے محروم ہیں۔ یہ ہماری ا پنی غفلت کی وجہ ہے یا پھر دین سے دوری کی وجہ سے لا علم ہیں۔ ہم یہ جانتے نہیں کہ چھوٹی چھوٹی یہ عبادات کتنا بڑا مقام رکھتی ہیں۔ آج کل اس سنت رسول کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ سنت سے دوری کی وجہ سے ہم مشکلات اور تباہی کا شکار ہیں۔
اللہ ہمیں ہر قسم کی بیماری سے بچائے اور اپنے بیمار مسلمان بھا ئیوں کی عیادت کر کے اس اجر سے بھرپور فیض لینے کی توفیق عطا فرمائے اوراللہ اپنے حبیب پاکﷺ کے طفیل ہماری انفرادی و اجتماعی مشکلات کو حل فرمائے، آمین۔