امجد اسلام امجد: اردوادب کی ہمہ جہت شخصیت
پاکستان میں شعروادب کے منظر نامے پہ جتنی شخصیات پوری توانائی سے ابھر کر سامنے آ ئیں ان میں ایک نام امجد اسلام امجد کا بھی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ان معدودے چند ادیبوں میں شامل تھے جو دنیا بھرمیں پاکستان کی شناخت ہیں تو غلط نہ ہوگا۔اردو شاعری ہو یا نثر، تدریس کا شعبہ ہو یا ہو کالمز لکھنے کی بات ،امجد اسلام امجد اپنے فن میں ماہر اور ایک عہد کی حیثیت رکھتے تھے۔ادب کے ہر میدان میں ایک ہی نام سب سے منفرد اور واضح نظر آتا ہے جو امجد اسلام امجد کا ہے۔
گزشتہ روز خالق حقیقی سے جا ملنے والے امجد اسلام امجد 4اگست 1944ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تاہم ان کے آبا واجداد کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔ والدہ اور والد وہیں سے لاہور آئے ۔ وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کی فیملی دستکاری کے کاروبار سے وابستہ تھی اور ان کی فیملی میں پڑھنے لکھنے کا زیادہ رواج نہیں تھا، میٹرک کے بعد مرد حضرات کاروبار سے وابستہ ہو جاتے تھے۔ ان کے خاندان میں صرف ان کے چچا واحد شخصیت تھے جنہوں نے کالج کی شکل دیکھی تھی جبکہ امجد اسلام امجد اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ان سے پہلے تو کوئی یونیورسٹی نہیں گیا تھا۔
امجد اسلام امجد نے میٹرک مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے کیا۔ بی اے کی ڈگری اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی۔ ایم اے اُردو 1967ء میںاورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔انہوں نے اپنے پروفیشنل کریئر کا آغاز 1968ء میںشعبہ تدریس سے کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دو مختلف ادوار میں ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔1975ء سے 1979ء تک چار سال بطور ڈائریکٹر پنجاب آرٹس کونسل کام کیا۔ اُردو سائنس بورڈ، چلڈرن لائبریری کمپلیکس اور ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
ان کا پڑھنے کی طرف رجحان بچپن سے ہی تھا۔ لاہور کے علاقے فلیمنگ روڈ پر جہاں وہ رہتے تھے یہ لوئر مڈل کلاس کا علاقہ تھا۔ یہاں عالم دین فاضل آقا محمد بیدار بخت کا ایک ادارہ ہوا کرتا تھاجس میں وہ عالم فاضل کا کورس کراتے تھے۔ امجد اسلام امجد کو پڑھنے کا شوق ان کے گھر سے ہی بیدار ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 8 یا 9سال تھی۔ اس کے ساتھ ان کے والد کو بھی ناول وغیرہ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ آنہ لائبریری سے ان کیلئے کتاب لانے کی ذمہ داری امجد اسلام امجد کی ہی ہوا کرتی تھی۔ اس زمانے میں ان کی پڑھنے کی اتنی رفتار تھی کہ ابنِ صفی کا 112صفحے کا ناول سڑک پر چلتے ہوئے مکمل پڑھ لیتے تھے۔ اس طرح ان کی پڑھنے کی عادت پختہ ہوتی گئی۔
انہوںنے اپنی زندگی کے اوّلین سالوں یعنی میٹرک سے بی اے تک کبھی کرکٹر کے علاوہ کچھ اور بننے کا سوچا بھی نہیں تھا لیکن قسمت نے ایسا پلٹا کھایا کہ ایک ایسا نوجوان جو اسلامیہ کالج کا کلر ہولڈر رہا تھا اور جس نے 12 سال بعد گورنمنٹ کالج کو شکست دی تھی، وہ کرکٹ سے دور ہو گیا۔بی اے کا امتحان ہوا تواُردو میں انہیں سکالر شپ مل گیا۔ ان کی فیملی کے چونکہ معاشی حالات اچھے نہیں تھے اور وہ فیملی میں سب سے بڑے تھے اس لئے انہوں نے کرکٹ کو خیرباد کہہ کر اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی جانے کو ترجیح دی۔ففتھ ایئر میں ’’لٹریری سوسائٹی‘‘ پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین بنے اور یہیں سے ان کا ادبی سفر شروع ہوا۔6thایئر میں پنجاب یونیورسٹی کے میگزین ’’محور‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ایم اے اردو میں انہوں نے ٹاپ کیا، اور ایم اے کرنے کے ٹھیک پندرہ دن بعد انہیں بحیثیت لیکچرر نوکری بھی مل گئی۔
ان کاپہلا مجموعہ کلام’’ برزخ‘‘ 1974ء میں شائع ہوا۔ اب تک ان کی کم و بیش 70 کتب اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔’’ریشم ریشم‘‘ ان کے سفر چین کی روداد ہے۔ اس سے پہلے امریکہ، برطانیہ اور ہندوستان کا سفر نامہ ’’شہر در شہر‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔اردو طنز و مزاح میں امجد اسلام امجد کے ڈراموں کی کتاب ’’یانصیب کلینک‘‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
اطہر شاہ خاں جیدی کی وساطت سے ڈرامہ نگاری کی طرف آنے والے امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نگاری میں بہت نام کمایا۔ایسا نہیں ہے کہ ٹی وی پر آتے ہی انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ڈرامہ لکھنے کا کریئر انہوں ریڈیو سے شروع کیا تھا۔ ریڈیو سے چونکہ وابستگی ہو چکی تھی اس لئے ڈرامے سے معمولی سی شد بد ضرور تھی۔ جب ٹی وی کی طرف آنے کی کوشش کی تو اس دور میں نئے آدمی کیلئے وہاں جگہ بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ٹیلی ویژن سے اتنے سینئر اور قابل لوگ وابستہ تھے کہ سارا وقت انہی میں پورا ہو جاتا تھا۔ اشفاق احمد اور منّو بھائی جیسے لوگوں کی موجود گی کی وجہ سے ٹی وی کے انتظامی لوگ بھی ان جیسے نئے لکھنے والوں کو زیادہ لفٹ نہیں کراتے تھے۔ اس لئے ٹی وی پر شروع شروع میں انہیں اچھے خاصے دھکے کھانے پڑے۔پانچ سال تک انہوں نے ٹی وی کیلئے بہت کچھ لکھا جس میں سے ان کے لکھے ہوئے چھوٹے موٹے گیت وغیرہ تو چل جاتے تھے مگر ڈرامہ کسی نے نہیں لکھوایا۔
ان کا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ 73 19ء میں ٹی وی سے نشر ہوا۔1974ء میں ساحرہ کاظمی جو اُس دور میں ساحرہ انصاری ہوتی تھیں بطور گیسٹ پروڈیوسر کراچی سے لاہور آئیں۔ ’’انٹرنیشنل ویمن ایئر‘‘ کی مناسبت سے انہوں نے ٹیلی ویژن کیلئے ’’حوا‘‘ کے نام سے ایک سیریز شروع کی جس کے ایگزیکٹو پروڈیوسر غفران امتیازی تھے۔ پروڈیوسر ساحرہ نے ان سے سیریزکیلئے ’’برزخ‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ لکھوایا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ساحرہ اور راحت کاظمی کی پہلی ملاقات اسی ڈرامے میں ہوئی تھی اور پھر دوستی ہوئی جواُن کی شادی پہ منتج ہوئی۔ اسی سلسلے میں ’’موم کی گڑیا‘‘ کے نام سے دوسرا ڈرامہ بھی ان کا ہی لکھاہوا تھا۔
انہوں نے 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں سرکاری ٹی وی کیلئے متعدد ایسے ڈرامے تحریر کیے جنہوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ یہ وہ ڈرامے ہیں جو شاید ہی کبھی ناطرین کے ذہنوں سے محو ہو سکیں۔ ان کے مقبول ترین ڈراموں میں وارث، دہلیز، سمندر، وقت، رات، فشار، دن، ایندھن سمیت دیگر شامل ہیں۔
امجد صاحب کی آ زاد نظم میں ایک خاص نغمگی ہے، انہوں نے آ زاد نظم میں وہی راستہ اختیار کیا جو ن م راشد،مجید امجد،احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی کا راستہ ہے۔ان کی نظمیں اپنی موسیقیت ہی کی وجہ سے مقبول ہوئیں۔ اکثر اوقات جب وہ کسی مشاعرے میں اپنی نظم شروع کرتے تو لوگ ان کے ساتھ ساتھ پڑھنے لگتے تھے۔وہ اکثر اپنے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ’’ اگر یہ کہا جائے کہ مجید امجد کی شاعری پڑھ کر انہیں نظم کہنے کا سلیقہ آیا تو غلط نہ ہوگا‘‘۔شاعری اور ڈرامہ نگاری میں منفرد پہچان رکھنے والے امجد اسلام امجد مختلف اخبارات میں کالم نگاری بھی کرتے تھے۔
امجد اسلام امجد 5 فروری کو عمرہ کی ادائیگی کے بعد وطن واپس آئے تھے۔ ان کا انتقال رات سوتے ہوئے ہوا، صبح جب انہیں جگانے کی کوشش کی گئی تو ان کا انتقال ہو چکا تھا۔
شعری مجموعے
برزخ، فشار ، ساتواں در ،بارش کی آواز، شام سرائے، اتنے خواب کہاں رکھوں، نزدیک،یہیں کہیں، سحر آثار، ساحلوں کی ہوا، محبت ایسا دریا ہے، اُس پار، رات سمندر میں، زندگی کے میلے میں، پھر یوں ہوا، باتیں کرتے دن۔
دیگرتصانیف
اسباب (حمد، نعت، سلام)، عکس(جدید عربی نظموں کے تراجم) ،کالے لوگوں کی روشن نظمیں (افریقی شعراء کے کلام کا ترجمہ)، خواب سمندر (منتخب کالم)، ہر دن، نیا دن(کالم)، تیسرے پہر کی دھوپ (کالم)، کوئی دن اور(کالم)شہر در شہر(سفر نامہ)، گیت ہمارے ، میرے بھی کچھ خواب ہیں ، نئے پرانے ، وارث ، ہم اس کے ہیں