منو کا چوزہ

دوپہر تک بھوری بلی نے محلے کا چکر پورا کر لیا تھا۔ وہ گلیوں سے گزری، دیواروں پر چڑھی، کھلے دروازوں، کھڑکیوں اور روشن دانوں سے اندر جھانکا، بعض گھروں میں داخل ہوئی۔ کچھ لوگوں نے اسے پیار کیا اور کچھ نے کھانے کو پیش کیا۔ بعض لوگوں نے اسے ڈرایا ،دھتکارا، اس پر چیخے اور جوتی اٹھا کر ماری، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور عادت کے مطابق پورے محلے کا چکر لگایا۔
اب دوپہر ہو گئی تھی یہ اس کے آرام کا وقت تھا جس کے لئے اس نے منّو کی چھت کا انتخاب کر رکھا تھا۔ منّو کے گھر کے صحن میں لگے نیم کے گھنے درخت کی شاخوں سے ٹھنڈا سایہ چھت پر بھی آرام دیتا تھا۔ وہ منّو کے گھر کے سامنے پہنچی، گردن اٹھا کراوپر دیکھا، پھرتی سے پائپ پر چڑھی، ساتھ ہی کھڑکی کا چھجا تھا۔ مہارت سے اس پر آئی اور پھر اُچک کر چھت پر جا پہنچی۔ چھت پر درخت کے پتے جمع تھے۔ وہ مزے سے ان پر سوتی تھی، لیکن اس سے پہلے حسب عادت اس نے نیچے جھانک کر دیکھا صحن میں کوئی نہیں تھا۔ چند سوکھے پتے ہوا سے اِدھر اُدھر اڑتے پھر رہے تھے۔باورچی خانے سے کھٹ پٹ کی آواز آ رہی تھی۔ منو کی امی کھانا پکا رہی تھیں، پھر اسے دالان میں منّو کھیلتا نظر آیا۔ وہ بے خیالی میں اسے دیکھتی رہی، اچانک اسے منّو کے پاس ایک چوزہ نظر آیا۔ وہ چونک اٹھی اور چھت کے کنارے پر سرک آئی۔ منّو چوزے سے کھیل رہا تھا۔ بلی کی نظریں چوزے پر جمی تھیں، اگرچہ پیٹ بھرا ہوا تھا، لیکن نازک سا مزیدار چوزہ تو کسی وقت بھی کھایا جا سکتا تھا، موقع اچھا تھا، وہ درخت کے ذریعے نیچے اترنے کیلئے خود کو تیار کر رہی تھی۔
اسی دوران دروازہ کھلا اور دادا جان ظہر کی نماز پڑھ کر گھر آ گئے۔ وہ دالان میں منّوکے پاس ہی بیٹھ گئے اور ہنس ہنس کر اس سے باتیں کرنے لگے۔ بلی نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ اب نیچے اترنا ممکن نہ تھا۔ وہ انتظار کر سکتی تھی۔ منو چوزے سے کھیل رہا تھا، کبھی وہ اسے پکڑ لیتا اور گدگدی کرتا، جب چھوڑتا تو وہ تیزی سے بھاگتا پھر رک جاتا۔ منو پھر اسے پکڑ لیتا۔ بلی نے محسوس کیا کہ چوزہ کچھ سست ہے۔ وہ دیکھتی رہی پھر اندر سے امی کی آواز آئی۔ وہ کھانا کھانے کیلئے بلا رہی تھیں۔ دادا جان اٹھے، منّو کی انگلی پکڑی اور دھیرے دھیرے چلتے اندر چلے گئے۔ چوزہ منّو کے ہاتھ میں تھا۔
بلی نے مایوسی سے آہ بھری، نظریں نیچے ہی لگی تھیں اسے کونے میں بنا پنجرہ نظر آیا۔ اسے یاد آیا چند مہینے پہلے اس میں کئی چوزے تھے۔ وہ تاک میں رہتی اور جب بھی موقع ملتا نیچے چلی جاتی۔ پنجرے کی جالی ایک جگہ سے زنگ آلود ہو گئی تھی۔ ذرا سے دبائو پر وہاں سوراخ ہو گیا تھا اور اس نے ایک ایک کرکے تمام چوزے کھا لئے تھے۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ اب نیند آنے لگی تھی۔ گھر میں بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی، وہ سو گئی۔ نیند میں اسے بہت سارے چوزے نظر آئے جو قطار بنائے چل رہے تھے۔
وہ اٹھی تو شام ہو چکی تھی اس نے سستی سے ایک طویل انگڑائی لی پھر نیچے جھانکا صحن میں دادا جان کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ قریب ہی منّو چوزے سے کھیل رہا تھا۔ امی چائے بنا رہی تھیں جس کی خوشبو صحن میں پھیلی تھی۔ تھوڑی دیر میں امی چائے لے آئیں۔ سب صحن میں بیٹھ کر چائے پینے لگے۔ بلی نے سوچا آج توشکارکا ہاتھ لگنا مشکل ہے۔ وہ حسرت بھری نظروںسے چوزے کو دیکھتی رہی، اچانک اندر سے دادی جان کی آواز آئی۔ وہ ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ اس پر کوئی خاص خبر چل رہی تھی۔ دادا جان اور امی اندر چلے گئے۔ موقع اچھا تھا، منّو چوزے کے ساتھ صحن میں اکیلا تھا۔بلی پھرتی سے آگے بڑھی، بجلی کی تیزی سے درخت پر آئی اور تنے کے سہارے صحن میں اتر گئی پھر منّو نے چیخ ماری۔ امی نے اندر کمرے سے جھانکا۔انہوں نے بھوری بلی کو چوزہ منہ میں دبا کر بھاگتے دیکھا۔ وہ تیزی سے باہر آئیں اور منّو کو گود میں اٹھا لیا۔ دادا جان بھی باہر چلے آئے۔’’کیا ہوا‘‘؟ انہوں نے گھبرا کر پوچھا ’’بلی چوزہ لے گئی‘‘ امی بولیں۔
’’بلی چوزہ لے گئی‘‘؟ دادا جان حیرت سے بولے ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔’’اچھا میں چھت پر دیکھتا ہوں‘‘۔
بلی، چوزے کو منہ میں دبائے چھت پر پہنچی اس نے محسوس کیا چوزہ بے حس و حرکت ہے شاید خوف سے مر گیا تھا۔ اس نے چوزے کو نیچے رکھ کر منہ مارا، کچر کچر سی آواز آئی۔ اس نے حیرت سے الٹا پلٹا کچھ نہ ہوا۔ اس نے ناک سکیڑ کر سونگھا کوئی بو نہ تھی۔ اس نے پھر منہ مارا، لیکن کچھ نہ ہوا، غصے سے اس کے مونچھوں کے بال ہلنے لگے۔’’دھوکا، خواہ مخواہ اتنا وقت برباد ہوا‘‘۔ دادا جان چھت پر پہنچے اور چوزے کو اٹھا لیا اور واپس پلٹ گئے۔ دادا جان مسکرائے، پھر چوزے کو گدگدی کی (چابی بھری) اور زمین پر رکھ دیا۔ پہلے وہ اٹک اٹک کر چلا، پھر تیزی سے دوڑنے لگا۔ امی زور سے ہنسیں ،دادا جان نے ٹوپی اٹھا کر سر پر جمائی اور باہر چل دیئے۔