ڈیجیٹل مردم شماری بھی متنازع۔۔۔

تحریر : عابد حسین


پاکستان پیپلز پارٹی ،سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور اب ایم کیوایم پاکستان کے اعتراضات کے بعد آخر کار سندھ میں ڈیجیٹل مردم شماری بھی متنازع ہو گئی۔ اس سے قبل سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے پیدل مارچ کا کراچی میں اختتام بھی ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف جدوجہد شروع کرنے کے اعلان سے ہواتھا۔

 ایم کیو ایم پاکستان نے ڈیجیٹل مردم شماری کے اب تک کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے غیر جانبدار اور نجی عملے کے ذریعے دوبارہ مردم و خانہ شماری کا مطالبہ کردیا ہے۔سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں قائم حکومت کے تحت ہونے والی مردم شماری میں گھپلے سامنے آرہے ہیں۔جو اعدادوشمار اب تک سامنے آئے ہیں وہ قابل قبول نہیں ہیں۔ عملے کو جو وقت دیا گیا ہے وہ اتنے بڑے شہر کا سروے کرنے کے لیے ناکافی ہے،عملہ سرکاری احکامات کا پابند ہے اور سرکار پیپلز پارٹی کی ہے۔انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی کو مردم شماری کے ڈیٹا تک رسائی دی گئی ہے۔ اگر مردم شماری شفاف نہ ہوئی تو آنے والے انتخابات کیسے شفاف ہوسکتے ہیں؟

کچھ روز قبل پیپلز پارٹی کے تحت ہونے والی ملٹی پارٹیز کانفرنس میں بھی اسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا جاچکا ہے۔اس کانفرنس میں مشترکہ طور پر اعلان کیا گیا تھا کہ اگر مردم شماری سے متعلق سندھ کے خدشات ختم نہ ہوئے تو اس کے نتائج قبول نہیں کئے جائیں گے۔مردم شماری میں خامیوں کو دور کرکے غیر ملکی تارکین وطن کو الگ خانے میں رکھا جائے، جن گھروں کو شمار کیا جا رہا ہے ان گھرانوں کو رسید فراہم کی جائے ، ڈیجیٹل مردم شماری کا ڈیٹا سندھ کے ساتھ شیئر کیا جائے۔اس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ شفاف مردم شماری مکمل ہونے کے بعد ملک میں ایک ساتھ نئے انتخابات کروائے جائیں۔مبصرین کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے تحفظات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ بنیادی نکتہ عام انتخابات کے التواکے گرد گھوم رہا ہے، مزید یہ کہ صرف حکمران پارٹی کو ڈیش بورڈ تک رسائی کے بعد اعدادوشمار مشکوک ہوجائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان وفاقی حکومت کا حصہ ہیں اور ڈیجیٹل مردم شماری وفاق کے ماتحت ادارے کررہے ہیں ،اس لیے ان دو جماعتوں کو اپنے تحفظات کا مرکز پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ کو بنانا چاہیے نہ کہ اپوزیشن جماعتوں کی طرح میڈیا کانفرنسز کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہیں۔ وفاقی محکمہ شماریات اور دیگر وفاقی ادارے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ایک قومی فریضہ انجام دے رہے ہیں جس میں وفاقی سطح پر خامیوں کی نشاندہی کرکے انہیں درست راستے پر لایا جاسکتا ہے اس لیے ہر خدشے کا حاصل عام انتخابات کا التوا والا مطالبہ سمجھ سے باہر اور غیر جمہوری سا لگتا ہے۔

سندھ میں ڈیجیٹل مردم شماری کے متنازع ہونے کے ساتھ ساتھ ابھی تک بلدیاتی انتخابات کے نتائج بھی نامکمل ہونے کی وجہ سے روز بروز متنازع ہوتے جارہے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد میں میئر کون بنے گا؟یہ سوال اب بھی برقرار ہے اور ہر گزرتے دن ابہام کی شکل اختیار کررہا ہے۔امکان ہے کہ سرکاری حتمی نتائج مکمل ہونے اور بقیہ گیارہ نشستوں پر الیکشن کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی۔ گوکہ اب تک کے نتائج کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی میئر کراچی کی دوڑ میں سب سے آگے ہے تاہم جماعت اسلامی کی مضبوط مزاحمت کے نتیجے میں بقیہ گیارہ نشستوں کے الیکشن کے نتائج بازی پلٹ سکتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے نئے انتخابی شیڈول کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رہنما پیپلزپارٹی سعید غنی نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے خط پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے کسی کو جنت کے خواب نہیں دکھائے تھے بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ لیے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم میدان خالی نہ چھوڑتی تو جماعت اسلامی کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ کراچی کی میئر شپ کسی کو خیرات میں نہیں دینگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے کورنگی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں کہا تھا کہ کراچی اور حیدرآباد میں اگر ’’ جیالا میئر ‘‘ہوگا تو کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سیاسی جلسوں اور میڈیا کانفرنسزمیں مخالف جماعتیں اسی جوش و جذبے سے دے سکتی ہیں تاہم میئر کسے بننا چاہیے یہ فیصلہ کسی نعرے یا خواہش سے زیادہ ووٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔جیالا میئر لانے کی باتیں پاکستان پیپلز پارٹی نے بلدیاتی الیکشن سے کافی پہلے ’’بہت وثوق ‘‘سے اس وقت کرنا شروع کردی تھیں جب کراچی مکمل کھنڈر بنا ہوا تھا۔ان دعوؤں پر ہم نے ان سطور میں یہ تجزیہ کیا تھا کہ حکمران جماعت کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کو یقینی دعوے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اگر واقعی پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی تو نتائج پر شک و شبہ کا اظہار بڑھ جائے گا۔

 کراچی اور حیدرآباد میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بمشکل پندرہ فیصد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ان پندرہ فیصد ووٹوں کی بنیاد پر جس پارٹی کا بھی میئر بنے گا ،وہ کم از کم عوام میں مقبول ترین شخص نہیں ہوسکتاالبتہ عوامی نمائندہ کہلانے کا حق دار ضرور ہوگااور اسے اپنی پوری مدت میں مکمل اختیار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے بائیکاٹ اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے کی وجہ سے نہ صرف کراچی میں جماعت اسلامی کو بلکہ خود پیپلزپارٹی کو بھی بہت فائدہ ہوا ہے۔اگر پیپلزپارٹی یا جماعت اسلامی اپنے آپ کو کراچی کی مقبول ترین پارٹی سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں تو عوام کے وسیع تر مفاد میں کسی نقطے پر جلد پہنچ جائیں ۔اس شہر کو بلدیاتی قیادت کی ضرورت ہے۔کراچی کی ہر گلی کوچہ کھنڈر بنا ہوا ہے۔کوئی قیادت ہوگی تو عوام سڑکوں کے بجائے قیادت سے رجوع کریں گے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔