اردو شاعری اور طنزومزاح
شعری اصطلاح میں طنز اور مزاح کا مفہوم جدا جدا ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک مزاح اور طنز میں فرق کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ کسی کے ساتھ ’’ مذاق کرنے‘‘ کو مزاح اور کسی کا ’’مذاق اْڑانے‘‘ کو طنز کہا جائے گا۔ ’’مذاق کرنا‘‘ اور ’’مذاق اْڑانا‘‘ دو الگ الگ کیفیتیں ہیں اور ان دونوں میں وہی فرق ہے جو گدگدانے اور تھپڑ لگانے میں ہے۔
مزاح افرادِ معاشرہ میں تحمل، بردباری، مروّت اور زندہ دلی کی خصوصیات پیدا کر کے زندگی کے پھیکے پن میں رنگ بھر کر اسے خوشگوار بنا دیتا ہے۔ مزاح نگار کے دل میں ہمدردی اور اُنس و محبت کی فراوانی، بے اعتدالیوں کو دریافت کر کے ان کا علاج میٹھے شربت سے کرتی ہے جس سے معاشرے سے آہ کے بجائے واہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
طنز اپنے اردگرد پھیلے ہوئے مسائل کی اصلاح کیلئے میٹھی گولیوں کے بجائے نشترکو استعمال میں لاتا ہے۔ اردو شاعری میں فارسی کے توسط سے کئی اصناف اور موضوعات مستقل صورت اختیار کر گئے۔ ہجو، تحریف، رندی و سرمستی، زاہد سے چھیڑ چھاڑ وغیرہ اِسی فارسی شاعری کی دین ہیں اور اردو شاعری میں طنز و مزاح کے ابتدائی نمونے انہی پیمانوں میں مقید ہو کر یکسانیت کا شکار تھے۔ اس عہد میں جو شاعر سب سے پہلے طنز و مزاح کی دستار اپنے سر پر سجاتا ہے، اُس کا نام مرزا محمد جعفر تھا جسے دنیائے طنز و مزاح میں ’’جعفر زٹلی‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ یہ مغلیہ حکومت کا زمانہ تھا، عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اس شاعر نے جب بادشاہ کے خلاف ایک شعر کہا تو بادشاہِ وقت فرخ سیر نے بھڑک کر اُسے 1713ء میں قتل کروا دیا۔ شعر درج ذیل ہے:
سکّہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
پادشا ہے تسمہ کش فرّخ سیر
بقول ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا: ’’دکنی شاعروں کے کلام میں واعظ اور ناصح سے چھیڑ چھاڑ کے اشعار فارسی شعرا کے تتبع میں موجود ہیں۔یہ رو دکی، میر، مصحفی، آتش، غالب، حالی وغیرہ سے ہوتی ہوئی جدید شعرا یعنی فیض وغیرہ تک پہنچتی ہے۔ ایک اور رو جس میں ظرافت نے ہزل کا روپ اختیار کر لیا ہے اور ثقاہت کے تمام نقاب الٹ دیے ہیں۔ اس کے نمائندہ جعفر زٹلی، عطا، اٹل، زانی، افسق وغیرہ ہیں۔ تیسری رو ہجویات کی ہے۔ قدیم شاعری میں طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے قابلِ ذکر نمونے ہجویات میں نظر آتے ہیں۔سودا، نظیر، انشا وغیرہ کے ہاں کہیں تو ہجو معاشرے کی آلودگیوں کی پردہ دری کر کے بلند منصب پر فائز ہو گئی ہے اور کہیں ذاتیات میں اْلجھ کر اپنے مقام سے گر گئی ہے‘‘۔
جب برصغیر میں اسلام کی شمع روشن ہوئی تو اس وقت خطے میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں موجود تھیں۔تو اس وقت اردو شاعری میں مذہبی تنگ نظری وسخت گیری، ملّائیت و مولویّت کے حوالے سے بطورِ احتجاج مْلّا، واعظ، ناصح اور اِن کے بعض متعلقات کا مذاق اْڑانے اور ان پر طنز کرنے کا رواج بہت پُرانا ہے اور فارسی سے اردو کو وِرثے میں ملا۔ اردو کا شاید ہی کوئی شاعر ہو جس کے یہاں واعظ و ناصح اور ان کے قبیل کے دوسرے افراد کو طنز و مزاح کا نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ واعظ مخالف اشعار سے ہر عہد کے شعرا کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔
یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر
(انشاء اللہ خان )
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑتو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
(ابراہیم ذوق)
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
(اسداللہ خان غالب)
اس عہد کی شاعری میں جہاں جہاں شگفتگی و ظرافت موجود ہے وہاں زاہد کے مقابلے میں رندی و سرمستی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ اندازِ فکر اپنے اندر حالات کی سنگینی سے کچھ دیر چھٹکارا حاصل کرنے کی قوت سے لبریز ہے۔
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
(مرزا محمد رفیع سودا)
اوّلین طنزیہ و مزاحیہ اردو شاعری کا ایک اور پہلو محبوب و معشوق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔ جب معشوق اپنے عاشق سے التفات نہیں برتتا تو عاشق اس کو جلی کٹی سنانے لگ جاتا ہے۔ ایسے مواقع طنز و مزاح کو جنم دیتے ہیںمثلاً:
وہ پری رو نہ کیوں ہو ہرجائی
آدمی ہو تو آدمیت ہو
(مجروح سلطان پوری )
میر و سودااور انشا و مصحفی کے درمیان معاصرانہ چپقلش سے وجود میں آنے والی ہجویات کے نمونے طنز و مزاح کی غیر شعوری کوششوں کی مثالیں ہیں۔اودھ پنچ کے عہدسے پہلے طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نظیر اکبر آبادی (شیخ ولی محمد)کی آوازدوسروں سے الگ سنائی دیتی ہے۔ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی طویل زندگی کے نشیب و فراز اور زمانے کی مختلف تصاویر کو شاعری میں نقش کر دیا۔ اپنے گرد و پیش کے مناظر کی منظر نگاری کو عوامی زبان اور لہجہ دے کر نظیر نے طنز و مزاح کے ایک جُدا اور مانوس دبستان کی بنیاد رکھی جو صدیاں گزرنے کے باوجود اپنی انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ طنز و مزاح کے اس دور کا ایک ممتاز نمائندہ غالب ہے۔غالب کی طبیعت میں پائی جانے والی شگفتگی کا عکس ان کی شاعری میں نکتہ آرائی کی صورت میں ملتا ہے۔
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑ کا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
بعض شاعروں نے انگریزی زبان اور تعلیم پر بہت کچھ کہا۔ان میں اکبرالہٰ آبادی پیش پیش تھے اور ان کے ایسے کئی اشعار مقبولیت کی انتہاؤں تک پہنچے جن میں انگریزی تعلیم کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا۔مثلاً:
تعلیم جو دی جاتی ہے ہمیں وہ کیا ہے فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا ہے، فقط سرکاری ہے
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم
رنگِ مذہب میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
(اکبر الٰہ آبادی)
انگریز اپنے اقتدار کے ساتھ جو تحائف لائے ان میں سب سے ضرر رساں تحفہ جدید تہذیب و تمدن تھا۔ بعد میں اس کو مغربی تہذیب کے نام سے پکارا جانے لگا۔مغربی تہذیب پر حملوں کی چند مثالیں دیکھیے:
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
(اکبر الٰہ آبادی)
مساوات اس کو کہتے ہیں نئی تہذیب کیا کہنا
کہ یکساں ہو گئی صورت زنانی اور مردانی
(ظریف لکھنوی)
علامہ اقبالؒ کی طنز اور ظرافت میں موجود گہری فکر قاری کو دیر تک اپنے سحر میں گرفتار کھتی ہے اور وہ اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان کی طنز کا پہلا نشانہ تہذیبِ مغرب ہے۔
اْٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
محمد شعیب لکھاری اور متعدد کتب کے مصنف ہیں