یادرفتگاں: اطہر شاہ خان جیدی

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


تعارف: اطہر شاہ خان المعروف ’’جیدی‘‘یکم جنوری 1943ء کو ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت رامپور سے ہجرت کر کے والدین کے ساتھ لاہور آئے اور یہیںسے اپنی تعلیم و تربیت کا آغاز کیا۔

کچھ عرصہ بعد پشاور منتقل ہو گئے جہاںسیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اْردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا، بعد ازاں پنجاب یونی ورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کیا۔ریڈیو، ٹی وی، اسٹیج پر بطور ڈرامہ نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا، وہ اپنے ہی تخلیق کردہ مزاحیہ کردار ’’جیدی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں، پی ٹی وی کے پروگرام ’کشت زعفران‘ سے مزاحیہ شاعری میں بھی مقبولیت حاصل کی، مزاحیہ شاعری میں ’’جیدی‘‘ تخلص کرتے۔شاعری کا ان کا ایک ہی مجموعہ ’’جھانک‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ وہ ایک بہترین لکھاری بھی تھے اور انھوں نے متعدد ڈرامے لکھے۔جیدی کے مشہور ڈرامہ سیریلز میں’’ انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آپ جناب، پرابلم ہاؤس، جیدی ان ٹربل، آشیانہ، ہائے جیدی، با ادب با ملاحظہ ہوشیار‘‘ شامل ہیں۔ ڈرامہ سیریل ’’انتظار فرمائیے‘‘ میں جیدی کے کردار نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔

10مئی 2020ء کو دل کا دورہ پڑنے سے 77 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔حکومت نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے جبکہ پی ٹی وی نے اپنی گولڈن جوبلی پر انھیں گولڈ میڈل سے نوازا ۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے مقبول ترین کامیڈی اداکاروں میں ایک بہت اہم نام جیدی کاہے۔ اطہر شاہ خان جیدی کو 70ء، 80ء اور 90ء کی دہائی میں ٹی وی دیکھنے والا بچہ بچہ جانتا ہے اور ان کے مختلف ڈراموں میں مختلف کرداروں سے بے انتہا پیار کرتا ہے لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ اطہر شاہ خان جیدی اصل میں ایک تخلیق کار یعنی لکھاری تھے۔ اگرچہ انہوں نے صدا کاری اور اداکاری بھی کی لیکن ان کا اصل میدان شاہ سواری تحریر ہی تھا جس میں وہ خاص طور پر ڈرامے اور شاعری کے حوالے سے بہت منفرد سوچ کے حامل تھے۔ ریڈیو پر انہوں نے سیکڑوں ڈرامے لکھے، جن میں وہ خود صداکاری بھی کرتے تھے اور کئی کئی کردار خود ہی ادا کرتے تھے۔ ریڈیو سے ایک قدم آگے بڑھا کر انہوں نے ٹیلی ویژن میں جگہ بنائی اور یہاں بھی بہت عمدہ اور شاندار قسم کے ڈرامے پیش کیے جن کی ایک ایک سطر بیک وقت مزاح کی چاشنی اور طنز کی کاٹ لیے ہوئے تھی۔

 حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو ان کا اصل فن مزاحیہ شاعری تھا جس میں وہ موقع باموقع ایسی خوبصورت شاعری کرتے تھے کہ سننے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے۔اطہر شاہ خان کی شاعری کی طرف زیادہ لوگوں کا دھیان نہیں گیا لیکن اگر ان کی شاعری دیکھی جائے تو وہ ملکی حالات کی بہت زبردست عکاسی کرتی ہے اور ان پر نشتر زنی بھی کرتی ہے۔ 

ان کے قطعات متنوع موضوعات پر ہیں۔ ان قطعات میں ہلکا پھلکا مذاق بھی ہے، طنز بھی ہے، پیروڈی بھی ہے اور الفاظ کا الٹ پھیر بھی ۔ یعنی انہوں نے اپنی شاعری میں مزاح کے سبھی حربوں کو بہت کامیابی اور چابکدستی سے استعمال کیا ہے۔ اس مزاح کی زد میں جہاں پورا معاشرہ اور اس کے سبھی طبقات آ جاتے ہیں وہاں وہ خود اپنی ذات کو بھی مزاح کا نشانہ بناتے ہیں۔ شاعروں پر ان کا ایک ہلکا پھلکا قطعہ دیکھیے:

ویسے تو زندگی میں کچھ بھی نہ اس نے پایا

جب دفن ہو گیا تو شاعر کے بھاگ جاگے

وہ سادگی میں ان کو دو سامعین سمجھا

بس آٹھویں غزل پر منکر نکیر بھاگے

تضمین ایک مشکل فن ہے جس میں کسی دوسرے شاعر کا ایک مصرع لے کر اس پر اپنا شعر یا قطع اس طرح سے لگانا ہوتا ہے کہ وہ جوڑ بے عیب معلوم ہو۔ سنجیدہ شاعری میں پھر بھی کسی نہ کسی طور یہ کام کسی نہ کسی حد تک آسان ہو جاتا ہے لیکن مزاحیہ شاعری میں تضمین کرنا تو دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ ذرا سی لغزش ہوئی اور شاعر جلال کے پاتال میں جا گرتا ہے اور اس سے اس شعر کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس کے مصرعے پر آپ تضمین کر رہے ہوتے ہیں۔ اطہر شاہ خان جیدی کی جرات رندانہ دیکھیے کہ انہوں نے اقبالؒ کے مصرعے پر تضمین کی ہے:

یارب دل جیدی میں ایک زندہ تمنا ہے

تو خواب کے پیاسے کو تعبیر کا دریا دے

اس بار مکاں بدلوں تو ایسی پڑوسن ہو

’’جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے‘‘

اسی طرح وہ سیاست اور اہل سیاست سے بھی نالہ ہیں، جنہوں نے ملک کا وقار ہی تباہ نہیں کیا بلکہ ملک کی معیشت بھی دگرگوں کر دی، جس کی وجہ سے گزشتہ 75 سالوں سے ہم ایک قوم کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آ سکے اور نہ ہی ہمارا شمار اچھے معاشروں میں ہوتا ہے ۔ اپنے لیڈروں کے کردار کے بارے میں جیدی کا کہنا ہے:

کس قدر ظالم و وحشی تھا وہ پاگل موذی

کاٹ کر سارے ہی دانتوں کے نشاں چھوڑ گیا

ہے عجب بات کے لیڈر تو بھلا چنگا رہا 

آئینہ دیکھا جو کتے نے تو دم توڑ گیا

لفظوں کے الٹ پھیر سے نئے معنی پیدا کرنا اور اس میں مزاح کا رنگ نکالنا طنزو مزاح کا ایک بہت کامیاب حربہ ہے لیکن اس کے استعمال کیلئے جس دقت نظری کی ضرورت ہوتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جہاں اس کا غلط استعمال شاعری کو بے معنی بنا سکتا ہے وہیں اس کا شاندار استعمال شاعری کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اطہر شاہ خان نے بالخصوص اپنے قطعوں میں الفاظ کا الٹ پھیر کر کے بہت شاندار معنی نکالے ہیں جو مزاح کے حامل بھی ہیں اور ہمیں سنجیدہ طور پر سوچنے کی دعوت دیتے ہیں:

رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو

اس دعا میں عجب اثر آیا 

میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی

آنکھ میں ’’موتیا‘‘ اتر آیا

ان کے قطعات میں عشق و محبت کی واردات کا بیان بھی ہے لیکن اس کا انداز وہی ہے جو آج کل ہمارے زمانے میں ہے یعنی دور جدید میں جس طرح عاشق اور معشوق نے محبت کا کباڑہ کیا ہے۔ یہی انداز اطہر شاہ خان جیدی کی شاعری میں ہمیں نظر آتا ہے۔ جدید دور کی محبت پر ان کا طنز کا تازیانہ بھی درست ہے اور مزاح کی ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑتی ہے۔ اس حوالے سے ایک قطع دیکھیے :

داخلہ اس نے کالج میں کیا لے لیا 

لڑکیوں میں بڑا معتبر ہو گیا 

کھڑکیوں سے نظر اس کی ہٹتی نہیں 

میرا بیٹا تو بالغ نظر ہو گیا

یا پھر ناکام محبت کے انجام کے حوالے سے یہ مشہور قطع دیکھیے:

ناکام محبت کا ہر اک دکھ سہنا 

ہر حال میں انجام سے ڈرتے رہنا 

قدرت کا بڑا انتقام ہے جیدی 

محبوبہ کی اولاد کا ماموں کہنا

جیدی نے سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری میں نمایاں کیا ہے جن میں خاص طور پر لاقانونیت سرفہرست ہے۔یہ لاقانونیت کراچی میں بھی اپنے عروج پر رہی اور اسی طرح اس کا اطلاق پورے ملک پر بھی ہوتا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ لوگ لاقانونیت کو باعث فخر سمجھتے ہیں ۔جیدی کا اس موضوع پر ایک زناٹے دار قطعہ ملاحظہ کیجئے:

صاحب زادے کرتے کیا ہیں لڑکی والوں نے پوچھا 

جب دیکھو فارغ پھرتے ہیں یا پیتے تمباکو ہیں 

لڑکے کی اماں یہ  بولیں کام کرے ان کی جوتی 

دو بھائی بھتہ لیتے ہیں ابا خیر سے ڈاکو ہیں

 قطعات کے ساتھ ساتھ ان کی مزاحیہ غزلیں بھی بہت مشہور ہیں۔ان غزلوں کی لفاظی اپنی جگہ خوب لیکن ان کو بیان کرنے کا جو انداز جیدی نے اپنایا تھا وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔مزاحیہ غزل کا امام غزالی سے اتنا ہی فرق ہے کہ مزاحیہ غزل میں موضوع مضمون مزاحیہ ہوتا ہے جب کہ ہیئت مکمل طور پر غزل کی اختیار کی جاتی ہے :

یہ تیری زلف کا کنڈل تو مجھے مار چلا 

جس پہ قانون بھی لاگو ہو وہ ہتھیار چلا 

پیٹ ہی پھول گیا اتنے خمیرے کھا کر 

تیری حکمت نہ چلی اور ترا بیمار چلا 

اسی طرح انہوں نے اردو غزل میں ایک نئی طرح بھی ڈالی ہے جس کو انہوں نے ’’پاگل غزل‘‘ کا نام دیا ۔کہنے کو یہ غزل کی ہیئت ہی ہے لیکن اس میں کوئی مربوط خیال نہیں بلکہ اونٹ پٹانگ باتیں ہیں جو ایک دوسرے سے کوئی بھی تعلق نہیں رکھتیں اور ان کی یہی بے معنویت اور بے ربطی ان میں مزاح کا عنصر پیدا کرتی ہے :

کھڑے کھڑے مسکرا رہا ہوں تو میری مرضی 

لطیفہ خود کو سنا رہا ہوں تو میری مرضی 

میں جلد بازی میں کوٹ الٹا پہن کے نکلا 

اب آ رہا ہوں کہ جا رہا ہوں یہ میری مرضی 

جو تم ہو مہمان تو کیوں نہ آئے مٹھائی لے کر 

بٹھا کہ تم کو اٹھا رہا ہوں یہ میری مرضی 

یہ کیوں ہے سایہ تمہاری دیوار کا میرے گھر 

میں جھاڑو دے کے ہٹا رہا ہوں تو میری مرضی 

میں نادہندہ ہوں بینک جانتے ہیں جیدی  

تمہارا قرضہ بھی کھا رہا ہوں تو میری مرضی

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔