نئی شاعری اور عصری رجحانات

تحریر : سید افسر ساجد


جدید شاعری روح عصر کی شاعری ہے۔ آج کا دور انتشار اور نفسیاتی ہیجان کا دور ہے۔ جنگ، تشدد پسندی، اخلاقی انحطاط، مادیت پسندی، خود غرضی، جنسی خلفشار دور حاضر کی سوغات ہیں، چوں کہ ادب زندگی سے ماخوذ ہے۔ لہٰذا شاعر بھی اپنے ماحول سے مغائرت نہیں برت سکتا۔

شاعری کو حسن اور صداقت کا مرکب تسلیم کیا جاتا ہے۔ مصدق، حسن ہی کا پر تو ہے اور حسن کی صداقت کا کسے انکار ہو سکتا ہے، دراصل شاعری کی ایک روایت ہے جو لفظ و آہنگ کے ایک خوبصورت انضمام کی رہین ہے۔ جمالیاتی یا رومانی سطح پر اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ فی زمانہ شاعروں نے اپنے کلام میں اپنے اپنے دور کے مخصوص رجحانات کی عکاسی کی ہے۔ روایت سے تواترو ارتقاء میں انفرادی ذہانت کا بڑا عمل دخل ہے، ایلیٹ کی نظر میں عصریت ادبی روایت کا خمیر ہے۔ اس تناظر میں پرانی شاعری بھی نئی شاعری کی ہمقدم نظر آئے گی۔

شعری فلسفہ کے پس منظر جمالیات، عمرانیات، شاعری کے Archetypesہیں جو جو شعر و ادب کے اجتماعی شعور سے مشروط و ملزوم ہیں۔ شاعری اور ادب میں ’’اصل‘‘ اور ’’تمثال‘‘ ہمرکاب ہیں۔بقول داغ:

کچھ تازگی ہو لذت آزاد کیلئے

ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

غالبؔ کی عصریت حالیؔ کی عصریت سے جدا تھی۔ اقبالؔ کی عصریت فیضؔ کی عصریت سے مختلف اور مجیدؔ کی عصریت ظفر اقبال کی عصریت سے علاحدہ ہے۔ یہ تمام شعراء اپنی شاعری میں اپنے دور کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔

روح عصر کیلئے جرمن میں Zeitgeistاور انگلش میں Contemporaneityکے الفاظ مستعمل ہیں۔ غالبؔ کا دور برصغیر میں مسلم تہذیب و ثقافت کے زوال کا دور تھا۔ ان کے کلام میں ان کے عمرانی پس منظر کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ حالیؔ کی مسدس مسلم قوم کی زبوں حالی کا شعری تذکرہ ہے۔ اقبالؔ کی شاعری فکر اور احساس کی شاعری ہے اس کا محور عصری رجحانات کے علاوہ ان کا فلسفہ حیات ہے جس کا ماخذ تصور خودی، یقین محکم اور عمل پیہم ہیں۔’’فیض‘‘دُکھ درد اور درمانگی کے علاوہ امید کے شاعر بھی ہیں۔ مجید امجد تنہائی، خود مرکزی اور دروں بینی کے شاعر ہیں ،زندگی کی نفسا نفسی ان کی شاعری کی تھیم ہے۔ فراز جمال سے ’’نشیب زینۂ ایام، کی طرف مراجعت ان کے شعور عصر کی دلیل ہے۔ ظفر اقبال لمحہ موجود میں ایک نئی شعری روایت کی تعبیر و تزئین میں مصروف نظر آتے ہیں:

حفاظت ہی ہمارا مسئلہ تھا روزِ اول سے

سو اپنے گرداب یہ چار دیواری زیادہ ہے

نئی شاعری فرد کی حسیات کے ساتھ ساتھ بہت سارے ایسے عوامل پر بھی محیط ہے جو ہمارے اجتماعی شعور و دانست پر اثر انداز ہو کر ہماری بے چینی اور بے یقینی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس طرز عمل کی غمازی نئی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ مثالیں دیکھئے۔

یہ ہم غزل میں جو حرف و بیاں سناتے ہیں

ہوائے غم کے لئے کھڑکیاں بناتے ہیں

ہنر کی بات جو پوچھو تو مختصر یہ ہے

کشید کرتے ہیں آگ اور دھواں بناتے ہیں

(احمد مشتاقؔ)

ہمارا عہد کیا ہے، درد کی خوانچہ فروشی ہے

زمیں ہے یا کہیں ہے؟

گلوبل گائوں تو نیلام گاہ وضع داری ہے

یہ چپٹا گنبد بس اقدار کی سوداگری کا بوجھ اٹھائے گھومتا ہے

( ڈاکٹر وحید احمد)

چھوٹ جائیں قید شب سے رسم خود سوزی کے بعد

آئو جگنو بن کے نکلیں روشنی اوڑھے ہوئے

(آنسِ معینؔ)

حادثہ ہے کوئی ہونے والا

دل کی مانند زمیں دھڑکتی ہے

(باقی صدیقیؔ)

مغل گل آئے خزاں آئے ہمیں کیا مطلب

ہم تو گھر ہی میں پڑے رہتے ہیں دفنانے سے

(شہر بخاریؔ)

 بہت سستے میں انساں بک رہے ہیں

ہمارے ہاں تو مہنگائی نہیں ہے

(نصرت صدیقیؔ)

نئی شاعری کو ساعت موجود میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ نہ اسے جدت پسندی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ جمال دوست، شاعر اور دانشور اکثر جدت پسند ہوتے ہیں لیکن وہ جدت کو ابلاغ یا معانی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔ انہیں صوت و حرف کی قوت کا پورا ادراک ہوتا ہے۔ نیا شاعر خواب اور حقیقت کے درمیانی بعد سے پوری طرح آگاہ ہے۔ خزاں میں وہ بہار کا منظر اور یاس، الم پرستی اور سراسمیگی کے جلو میں اسے امید، انسباط اور ثمر آوری کا بھی گہرا شعور ہے۔ وہ خود نوشت نہیں، خود کلامی قلمبند کر رہا ہے۔ زندگی کا سراغ پانے کیلئے وہ باطن کے سفر پر رواں ہے۔ اس طرح آج کا شاعر ’کہی‘ اور ’ان کہی‘ کے درمیاں پہچان’رہوں، یا، نہ رہوں، کی کشمکش میں گم ہے۔ اور وہ بقول شاعر:

محبت کے چلن سے

 آرزو کی نارسائی کے الم کی خوگری تک

 کسی گمنام حیرت کے تصور سے

دل صد چاک کے سارے غموں کو بھول جاتا ہے!

……

میں اپنے حجرۂ جہاں سے نکلنا چاہتا ہوں

کہ میرا رقص مرے چار سو ضروری ہے

اس میں مرکز دل و جاں سے دوری اور مراجعت دونوں شامل ہیں۔ اس استعارے کی فصاحت و بلاغت کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں اور یہی آج کی شاعری کی عصریت کا جواز بھی ہے!!۔

سید افسر ساجد بیوروکریٹ، ماہر ِتعلیم اور شاعر ہیں، ان کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

بے وقت کی بھوک اور ڈائٹنگ

بہت سی لڑکیوں کو ہر وقت کچھ نا کچھ کھانے پینے اور منہ چلانے کی عادت ہوتی ہے، ایسی لڑکیاں اپنی بے وقت کی بھوک کو برداشت نہیں کر پاتیں اور اپنی ڈائٹنگ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ کھانے لگ جاتی ہیں۔

سسرال کو اپنا ہمنوابنانا مشکل نہیں

جب بھی کوئی لڑکی بابل کا انگنا چھوڑ کر پیا دیس سدھارتی ہے تو جہاں زندگی کے اس نئے موڑ پر بہت سی خوشیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں وہیں کچھ مسائل اور الجھنیں بھی حصہ میں آتی ہیں۔ نئے گھر اور نئے ماحول میں خود کو ایڈجست کرنا آسان کام نہیں، کیونکہ لڑکی کی شادی تو محض ایک فرد سے ہوتی ہے لیکن مشرقی روایات کے مطابق گزارہ اسے پورے کنبے کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔

رہنمائے گھر داری

جلد میں جلن اکثر خواتین جلد میں جلن کی شکایت کرتی ہیں، ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے جلد جھلس گئی ہو، وہ کسی بھی قسم کی کریم بھی استعمال نہیں کر سکتیں۔ ایسی خواتین کیلئے ایک انتہائی مفید نسخہ بتانے جا رہی ہوں۔امرود پکا ہوا ایک عدد، دہی 2چمچ، Coca powerایک کھانے کا چمچہ، انڈا ایک عدد۔ امرود کو اچھی طرح میش کر لیں، پھر اس میں باقی اجزاء ملا کر پیسٹ بنا لیں۔ اگر جلد میں زیادہ جلن ہو تو اس میں پودینہ یا کافور بھی مکس کر سکتی ہیں۔ اس پیسٹ کو 1گھنٹہ لگا کر سادہ پانی سے واش کر لیں۔

آج کا پکوان: چکن جلفریزی

اجزاء:چکن اسٹرپس آدھا کلو، تیل ایک چوتھائی کپ، پیاز2عدد کٹی اور درمیانی، ادرک2کھانے کے چمچ جولین کٹا ہوا، لال مرچ ایک کھانے کا چمچ پسی ہوئی، ہلدی ایک چوتھائی چائے کا چمچ، کالی مرچ آدھا چائے کا چمچ، گرم مصالحہ ایک چوتھائی چائے کا چمچ، مسٹرڈپائوڈر آدھا چائے کا چمچ، نمک 3چوتھائی چائے کا چمچ، سویا سوس ایک کھانے کا چمچ، کیچپ ایک چوتھائی کپ، ٹماٹر2عدد کیوبز میں کٹے ہوئے، شملہ مرچ ایک عدد اسٹرپس میں کٹی ہوئی، ہری مرچ 3عدد اسٹرپس میں کٹی ہوئی، ہرا دھنیا ایک کھانے کا چمچ کٹا ہوا۔

شاد عظیم آبادی اور جدید غزل

:تعارف اردو زبان کے ممتاز شاعر، نثر نویس اور محقق شاد عظیم آبادی 17جنوری 1846ء کو بھارتی صوبہ بہار کے دارالخلافہ پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام نواب سید علی محمد تھا۔ ابتدائی تعلیم شاہ ولایت حسین سے حاصل کی۔ وہ کل وقتی شاعر تھے اور شاعری کا تحفہ انہیں قدرت کی طرف سے ملا تھا۔ شاعری میں ان کے کئی استاد تھے لیکن شاہ الفت حسین فریاد کو صحیح معنوں میں ان کا استاد کہا جا سکتا ہے۔ شاد عظیم آبادی نے غزل اور مثنوی کے علاوہ مرثیے، قطعات ،رباعیات اور نظمیں بھی لکھیں۔ 1876ء میں ان کا پہلا ناول ’’صورت الخیال‘‘شائع ہوا۔ ان کی دیگر تصنیفات میں ’’حیات فریاد نوائے وطن، انٹکاب کلام شاد، میخانہ الہام، کلام شاد‘‘ شامل ہیں۔ کچھ حلقوں کے مطابق انہوں نے نظم و نثر کی 60 کتابیں چھوڑی ہیں۔ انہوں نے 1927ء میں 81برس کی عمر میں وفات پائی۔

مستنصر کے ناولوں میں المیوں کا تسلسل

مستنصر حسین تارڑ کے ناول اس شعر کی فکری تاریخی اور عمرانی توسیع و تفسیر معلوم ہوتے ہیں وقت کرتا ہے پرورش برسوںحادثہ ایک دم نہیں ہوتا