بچوں کے ادب سے بے اعتنائی

بچے سدا بچے نہیں رہتے، وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ جسمانی طور پر بڑا انہیں غذا کرتی ہے، ذہنی طور پر بڑا انہیں کتاب کرتی ہے۔ یہ کتاب نصابی بھی ہو سکتی ہے اور ادبی بھی۔ بچوں کو نظر انداز کر کے دنیا کے کسی ادب سے ترقی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ میرے خیال میں ادب کے معاملے میں بھی ’’بچے سب سے پہلے‘‘ والے فارمولے پر عمل ہونا چاہیے۔
’’بچے سب سے پہلے‘‘ کا نعرہ میں نے اس لیے دیا کہ بچہ زندگی کے سفر میں پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔ بچے سے ہی ہماری عمر کا آغاز ہوتا ہے لہٰذا ہر قومی معاملے پر توجہ کا آغاز بھی بچے سے ہی ہونا چاہیے۔ بچوں کا ادب بھی تو ایک قومی معاملہ ہے۔ اس کی اہمیت شخصی تعمیر کے حوالے سے وہی ہے جو کسی عمارت میں بنیاد کی ہوتی ہے۔ ہماری شخصیت کی تعمیر و استحکام میں بچوں کا ادب بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، پھر اس سے بے اعتنائی کیوں؟ یہ جان کر ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بچوں کے ادب سے ہماری بے اعتنائی کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے۔ بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کا پہلا سبب ’’بے خبری‘‘، دوسرا سبب ’’بے عملی‘‘ اور تیسرا سبب ’’ بے ترغیبی‘‘ ہے جس کا سلسلہ مختلف صورتوں میں کم و بیش آج بھی جاری ہے۔
ہماری بے خبری کا یہ عالم ہے کہ بیسویں صدی عیسوی تک ہمیں خبر ہی نہیں تھی کہ بچوں کا ادب بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ادب تو کیا بچوں کیلئے باقاعدہ علیحدہ نصاب کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔
جس نے ’’قادر نامہ‘‘ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
غالب پیش بیں شخص تھے۔ انہیں تبدیلی کا احساس ہو رہا تھا۔ غالب کا ’’قادر نامہ‘‘ بچوں کیلئے مروجہ منظوم نصابی حوالے کی آخری کتاب تھی، جس کے بعد ہندوستان کے بدلتے ہوئے تہذیبی اور تعلیمی اُفق پر ادب اطفال کے طلوع ہونے کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ انگریز حکمرانوں کا دور تھا۔ ان کے ادب میں بچوں کے علیحدہ ادب کا تصور موجود تھا۔ انگریز قلم کاروں نے 1857ء کے بعد ہندوستانی زبانوں میں جو کتابیں لکھیں یا لکھوائیں وہ ہندوستانی مصنفین کی لکھی ہوئی کتابوں سے مختلف تھیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو میں تدریسی مقاصد کیلئے جو غیر روایتی انداز اختیار کیا وہی بعد میں ہندوستانی بچوں کے ادب کا آغاز ثابت ہوا۔ ان میں سے کچھ کتابیں جو مقامی قلم کاروں کی شمولیت سے لکھوائی گئی تھیں ایسی بھی تھیں جن میں تدریس کو دلچسپ بنانے کیلئے کہانیاں بھی شامل تھیں۔ انہی کتابوں کے بطن سے برصغیر میں بچوں کے ادب نے جنم لیا۔ انہی میں مولانا محمد حسین آزاد کی لکھی ہوئی اور ڈبلیو آر ایم ہالرائڈ کی مدون کی ہوئی کتابوں کے علاوہ آگے چل کر بچوں کے محبوب ادیب مولوی اسماعیل میرٹھی کی درسی کتب بھی سامنے آتی ہیں۔ یہی وہ درسی کتابیں ہیں جن میں وہ مقبول نظمیں شامل ہیں جنہیں پڑھتے پڑھتے کئی نسلیں جوان ہوئیں۔ یہ نظمیں بہت سے میرے ہم عمر اور مجھ سے بھی زیادہ عمر رسیدہ بزرگوں کو آج بھی یاد ہیں، کچھ نظموں کا حوالہ اشارتاً درج ذیل ہے:
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
…٭…
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دُھن کی پوری ہے کام کی پکی
اردو میں بچوں کے ادب کا رجحان چونکہ انگریزی سے آیا لہٰذا حالیؔ، آزادؔ اور بعد میں علامہ اقبالؒ نے بھی بہت سی انگریزی نظموں کو اردو میں منتقل کیا۔ سب سے زیادہ مقبولیت علامہ اقبال ؒ کی لکھی ہوئی بچوں کی نظموں کو ملی۔ صرف ایک نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ کے علاوہ علامہ اقبال ؒ نے بچوں کیلئے جتنی بھی نظمیں لکھیں وہ سب انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ ان کی نظم ’’ہمدردی‘‘ کا مرکزی خیال ولیم کوپر کی انگریزی نظم سے ماخوذ ہے۔ تراجم سہی، علامہ اقبالؒ جیسی عظیم ہستی نے بچوں کے ادب میں اضافے کو درخور اعتنا تو سمجھا۔علامہ اقبال ؒ نے بچوں کیلئے اس وقت لکھا جب پاکستان کا وجود بھی نہیں تھا۔ انہی کے تصور کی تصویر، یہ پاک وطن آج ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے نونہالوں کیلئے ضرور لکھیں۔ بچوں کے ادب سے بے اعتنائی اور ان کیلئے ادب تخلیق کرتے رہنے کے حوالے سے بے عملی، وطن دوست اہل قلم کے حق میں نہیں جاتی۔ ہر قلم کار پر بچوں کیلئے لکھنا فرض ہے۔ اسے حسب توفیق یہ قرض اتارتے رہنا چاہئے۔دوسری زبانوں میں موجود بچوں کا اچھا ادب اردو میں منتقل کرتے رہنا بھی تعمیری عمل ہے۔ رابرٹ لوئی ہسٹی ون سن اور ورڈز ورتھ کی کچھ نظمیں غلام مصطفی ذہین نے اردو میں ڈھالیں۔ بچوں کیلئے اردو ادب میں اب نظم، کہانی، تاریخ ، ڈرامہ، ٹیبلو، سوانح عمریاں اور سفر ناموں کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے موضوعات بھی نظر آنے لگے ہیں۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ صرف بڑے ہی نہیں، خود بچے بھی اپنے ادب کی تخلیق اور مطالعے میں پہلے جیسی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اب کتاب سے بچوں کی کُٹی ہو گئی ہے۔ کتاب کی جگہ مشینی کھلونوں سے کھیلنے میں بچوں کا بڑا وقت گزرتا ہے۔ ایک انتہائی اہم بات ہم سب کی توجہ چاہتی ہے۔ ہمارے بچے اب اردو رسم الخط سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنی قومی زبان کے بارے میں والدین احساس کمتری اور غلامانہ ذہنیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صرف انگریزی پڑھ کر ان کے بچے پاکستان سے باہر ہی نہیں پاکستان کے اندر بھی معزز اور کارآمد سمجھے جائیں گے۔ اس لئے ان کے نزدیک اردو زبان سیکھنے اور اردو ادب پڑھنے پر وقت کیوں ضائع کیا جائے؟ اگر والدین کے فکر و عمل کی یہی صورتحال رہی تو اردو پڑھنے والے بچے کم ہوتے جائیں گے۔ جب پڑھنے والے نہیں ہوں گے تو لکھے گا کون؟ اس طرح اردو میں ادب اطفال سے بے اعتنائی کا مسئلہ گمبھیر ہوتا جائے گا لہٰذا ضروری ہے کہ انگلش میڈیم سکولوں میں بھی بچوں کو شروع سے ہی اردو رسم الخط توجہ سے سیکھنے، روانی سے لکھنے، دلچسپی سے پڑھنے اور بولنے کی ترغیب دی جائے۔
سکولوں میں بزم ادب کی دم توڑتی ہوئی روایت بھی بچوں کی اپنے ادب سے بے اعتنائی کی وجہ نظر آتی ہے۔ بچے بیت بازی کی جگہ اب انتاکشری کھیلتے ہیں اور میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کی جگہ فلمی شعر لہک لہک کر سناتے ہیں۔کیا یہ بچے بڑے ہو کر بچوں یا بڑوں کے ادب کو درخور اعتنا سمجھیں گے؟ سکولوں میں بزم ہائے ادب بچوں میں ادب پڑھنے کا رجحان اور لکھنے کا سامان پیدا کرتی تھیں۔ یہیں سے بچوں اور بڑوں کے اعلیٰ ادب پیدا ہوا کرتے تھے۔
بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ادب والوں، میڈیا اور حکومت کو بچوں کے ادیبوں کیلئے اپنے رویوں اور پروگراموں میں گنجائش پیدا کرنا ہو گی۔ صرف یہی نہیں ناشر صاحبان کو مستقبل کے معماروں میں قومی زبان اور پاکستان سے محبت کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے خوبصورت اور سستی کتابیں چھاپنا ہوں گی۔ بچوں کیلئے لکھنے والوں کو توقیر و ترغیب دینا ہوگی۔ پھر بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کی مجموعی فضا بدلے گی۔یقیناً بدلے گی۔