تحریک آزادی میں خواتین کا کردار
تحریک پاکستان کے دوران خواتین نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بشانہ شب و روز کام کیا بی اماںکسی تعارف کی محتاج نہیں، بہت اچھی مقرر تھیں ،کئی جلسوں میں تقاریر کیں، چند کانفرنسز کی صدارت بھی کی
تحریک پاکستان کے دوران خواتین نے بھی اس خطہ کو حاصل کرنے کیلئے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بشانہ شب و روز کام کیا۔ قائداعظم ؒ کا پیغام ہندوستان کے گوشے گوشے، کریہ کریہ، نگر نگر، گائوں گائوں پہنچایا۔ اور دو قومی نظریئے کی حقیقت کو اجاگر کیا۔ برصغیر کے مسلمان مرد و خواتین کی طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
یہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ کہ آج ہم کھلی فضا میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔یہ پاکستان ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اس میں لاکھوں مسلمان مرد و خواتین کا لہو شامل ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں آج بھارت کی جو صورتحال نظر آ رہی ہے۔ وہ دنیا کے سامنے ہے۔ خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جہاں اسلام اور پاکستان کا نام لینا گناہ اور مسلمان ہونا ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔اس تحریک آزادی میں لاکھوں کارکنوں نے حصہ لیا۔ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کئی ایک نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ جو غازی رہے انہوں نے استحکام پاکستان کیلئے قائد کے احکامات کی روشنی میں مختلف شعبہ ہائے میں ملک و قوم کیلئے اپنی اپنی خدمات پیش کیں۔
قیام پاکستان کا قیام اس طویل جدوجہد کا ثمر ہے جو مسلمانان برصغیر نے اپنے علیحدہ قومی تشخص کی حفاظت کیلئے شروع کی اور اس کوشش میں خواتین کا کردار بھی نہایت اہم رہا۔مسلمان خواتین نے انگنت رکاوٹوں کے باوجود سیاسی منظر نامے میں اپنا طاقتورکر دار نبھایا۔ وہ چار دیواریوں سے باہر آئیں اور علیٰحدہ وطن کے حصول تک جدوجہد کی۔قائداعظمؒ نے پاکستان جمہوری عمل کی بنیاد پر حاصل کیا ،تحریکِ آزادی میں مردوں کی طرح خواتین نے بھی کلیدی کردار ادا کیا جو تاریخ میں ہمیشہ روشن و تابندہ رہے گا ۔تحریک پاکستان کیلئے قائد اعظم ؒ نے مسلم خواتین کا رکنوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ آپؒ اکثر کہا کرتے کہ قلم اور تلوار کے علاوہ تیسری طاقت بھی ہے اور وہ ہے ’’خواتین ‘‘اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
انگریز سامراج سے چھٹکارا دلوانے اور سیاسی شعور خواتین میں اجاگر کرنے کیلئے جن خواتین نے تگ و دو کی ان میں سرفہرست مادر ملت فاطمہ جناح، بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم سلمیٰ تصدیق حسین، بیگم جہاں آراء، شاہنواز بیگم، بیگم رعنا لیاقت علی خان، آپا فاطمہ صغریٰ، بی اماں، بیگم امجدی بانو، بیگم شفیع ،لیڈی ہارون ، بیگم نواب آف بھو پال اور بیگم سلمیٰ تصدق حسین ہیں۔ یہ وہ خواتین تھیں جو بیسویں صدی میں عملی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی میدان کی جانباز سرگرم اور نڈر کارکن رہیں۔
پنجاب میں تحریک پاکستان کا علم بلند کرنے والی خواتین میں بیگم گیتی آراء، بیگم سلمیٰ تصدیق حسین، بیگم شاہ نواز کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بنگالی خواتین بھی پیش پیش رہیں۔ بیگم شائستہ مسلم گرلز فیڈریشن تنظیم کی روح رواں تھیں۔ اس زمانے میں نوجوان لڑکیوں کو منظم کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔
1935ء کے ایکٹ کے مطابق مسلم خواتین کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا، مسلم ویمن ونگ کی خواتین نے اس قانون کی بھرپور مخالفت کی۔ تحریک پاکستان کیلئے قائداعظم ؒ نے مسلم خواتین کارکن کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ قائد کی خصوصی ہدایات پر ہر صوبے میں خواتین کمیٹی بنائی گئی تاکہ خواتین سیاسی بیداری اور عملی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے سکیں۔
فاطمہ جناحؒ
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کا نقش ثانی تھیں۔ آپؒ کی باوقار شخصیت کا تصور ہمیں اس دور کی یاددلاتا ہے جب 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور کی منظوری کے بعد اس امر کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ برصغیر کی مسلمان خواتین کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مجتمع اور منظم کیا جائے۔بابائے قوم ؒکی خواہش پر اس کارِ عظیم کا بیڑہ مادرِ ملتؒ نے اٹھایا اور شب و روز جدوجہد سے پورے برصغیر کی مسلمان خواتین کو تحریک آزادی میں متحرک کردیا۔ اس کی بدولت قیامِ پاکستان کے کٹر مخالفین کو بھی یقین ہوگیا کہ اب پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے سے روکنا ناممکن ہے۔ آپؒنے ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عظیم المرتبت بھائی کا ہر مرحلہ پر ساتھ دیا۔ اپنا ڈینٹل کلینک بند کرکے قائداعظمؒ کے گھریلو امور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اتنے احسن انداز میں سنبھال لی کہ بابائے قومؒ ان تفکرات سے یکسر آزاد ہوگئے اور مکمل یکسوئی کے ساتھ تحریک پاکستان کی قیادت کرنے لگے۔
آپا فاطمہ صغریٰ
آپا فاطمہ صغریٰ نے 1947ء میں سول سیکرٹریٹ سے برطانوی جھنڈا اتار کر مسلم لیگ کا پرچم لہرانے کاکارنامہ سرانجام دیا اس وقت ان کی عمر14 سال تھی۔ وہ تحریک پاکستان کا ایک روشن ستارہ تھیں۔ ان کی تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ‘‘اور ’’پرائیڈ آف پرفارمنس ‘‘عطا کیا گیا۔ان کی وفات کے وقت عمر 86 سال تھی۔
بی اماں
تحریک پاکستان میں ’’بی اماں ‘‘ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، 27 سال کی عمر میں بیوہ ہوئیں کاندھوں پر 6 بیٹوں اور ایک بیٹی کی ذمیداری تھی۔ زیور بیچ بیچ کر بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور قسمت دیکھیے کہ بچے بھی کون، شوکت علی اور محمد علی، جو آگے چل کر’’علی برادران‘‘ کے نام سے جانے پہچانے گئے۔ بی اماں کا اصل نام آبادی بیگم اور تعلق امروہے سے تھا۔ آبادی بیگم کے والد ملازمت کے سلسلے میں امروہے سے رامپور منتقل ہو گئے تھے۔ رامپور میں ہی آبادی بیگم کی شادی عبدالعلی خان سے ہوئی۔شادی سے پہلے آپ پڑھنا لکھنا بالکل نہیں جانتی تھیں لیکن شوہر پڑھے لکھے تھے، ریاست رامپور میں ملازم تھے آپ کوپڑھنے لکھنے کا بہت شوق ، شوہر کی زندگی میں ہی اُردو لکھنے اور پڑھنے کی تربیت حاصل کی۔آپ بہت اچھی تقریر کیا کرتی تھیں کئی جلسوں میں تقاریر کیں، چند کانفرنسز کی صدارت بھی کی۔ تحریک پاکستان کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے چندہ جمع کرنا ہو یا پھر خواتین میں جذبہ ٔحریت کی بیداری، بی اماں ہر جگہ پیش پیش رہیں۔پھر بی اماں کیساتھ ان کی بہومولانا محمد علی جوہر کی زوجہ امجدی بانو بیگم نے بھی پورا پورا ساتھ نبھایا اور جدوجہد آزادی کو منزل تک پہنچایا ۔
بیگم امینہ غنی گھمن
تحریک پاکستان کی ممتاز کارکن نامور مسلم لیگی رہنما اور نظریۂ پاکستان فائونڈیشن خواتین ونگ کی صدر بیگم امینہ غنی گھمن ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور اپنے خاندان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایڈ اعلیٰ اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس 23مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ مرحومہ اس وقت سے مسلم لیگ سے وابستہ تھیں۔ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1972ء میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹرز ایجوکیشن ریٹائر ہوئیں۔ بیگم امینہ گھمن کو تحریک پاکستان میں خدمات پر 1996ء میں گولڈ میڈل دیا گیا۔ ان کا انتقال 12اگست 2002ء کو ہوا۔
بیگم سکینہ فرخ حسن
تحریک پاکستان کی بزرگ خاتون رہنما اور معروف سماجی شخصیت بیگم سکینہ فرخ حسن کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ہمراہ تحریک پاکستان کے ایام میں مختلف سماجی خدمات انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے، جس کے صلہ میں انہیں 1969ء میں ستارۂ خدمت سے نوازا گیا۔ مرحومہ قائداعظم ؒ کی اپیل پر 1940ء میں پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوئیں۔ انہوں نے مسلمانوںکی بہبود کیلئے بڑا کام کیا۔1946ء میں انہیں مسلم لیگ پنجاب کی ایگزیکٹو کمیٹی کا ممبر منتخب کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ کی رکنیت سازی کیلئے چلائی جانے والی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے 1947ء میں تحریک پاکستان کے کارکنوں اور مجاہدین کے ساتھ بھرپور حصہ لیا۔پاکستان سے محبت اور خدمت کا جذبہ ان میں بدرجہ اتم موجود تھا۔محترمہ سکینہ فرخ ویمن سروسز آرگنائزیشن کی بانی تھیں جو 1956ء میں قائم کی گئی جس کا مقصد غریب اور نادار خواتین اور بچوں کی امداد کرنا تھا۔ 1950ء سے 1968ء تک وہ لاہور میں میونسپل کمیٹی اب کارپوریشن) کی کونسلر رہیں۔1962ء سے 1967ء تک وہ ضلع کونسل لاہور کی ممبر رہیں۔ان کا انتقال 25اگست 2004ء کو لاہور میں ہوا،
بیگم رعنا لیاقت علی خان
بیگم رعنا لیاقت علی خان کی خدمات کا ذکر کیے بغیر تحریکِ پاکستان کی تاریخ ادھوری رہے گی ۔ قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران اہم کردار ادا کرتے ہوئے چند کلیدی نکات بتائے۔ معاشیات (Economics) میں ماسٹر ز ہونے کے باعث آپ نے جناح کمیٹی میں بطوراقتصادی مشیرخدمات سرانجام دیں۔ آپ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم تھیں، اس طرح پہلی خاتون اوّل تھیں اس کے علاوہ سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپ نے مملکتِ خداداد میں عورتوں کو بااختیار بنانے سے متعلق پروگرام کا آغاز کیا۔1950ء میں ہالینڈ میں پاکستان کی پہلی سفیر مقرر کی گئیںجبکہ 1960ء میں اٹلی اور بعدازاں تیونس میں بھی بطور پاکستانی سفیر خدمات سرانجام دیں۔1952ء میں آپ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی پہلی خاتون نمائندہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ1973ء سے 1976ء کے دوران پاکستان کی پہلی خاتون گورنر (سندھ)کے طور پرفرائض نبھائے۔ پاکستان ویمن نیشنل گارڈ، ویمن نیول ریزرو ، گھرایلو صنعتوں ، تعلیمی اداروں بالخصوص ہوم اکنامکس کی تعلیم کے اداروں کے علاوہ پاکستان میں پہلی غیر سرکاری تنظیم اپو ا قائم کرنے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔
لیڈی عبداللہ ہارون
ممتاز خاتون رہنما لیڈی عبداللہ ہارون سندھ میںخواتین کی تنظیم ’’ انجمن خواتین ‘‘ کی بانی تھیں۔ اس تنظیم کا مقصد سندھ کے خواتین کی خراب اقتصادی اور سماجی حالت کو درست کرنا تھا۔ آپ عورتوں کی تعلیم کی بہت بڑی حامی تھیںاور اپنے گھر میں سکول قائم کرکے اپنے علاقے کی عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتی تھیں۔بیگم عبداللہ ہارون کا سیاسی کیریئر 1919ء میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے سندھ میں خلافت تحریک کیلئے جدوجہد شروع کی۔ 1938ء میں انہیں آل انڈیا مسلم لیگ خواتین کی سینٹرل سب کمیٹی میں نامزد کیا گیا اور سندھ میں خواتین کی سب کمیٹی کی صدر منتخب ہوئیں۔ آپ نے خواتین کو آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد کرنے کیلئے دن رات کام کیا۔