یادرفتگاں: قرۃ العین حیدر افسانہ اور ناول نگاری کی ملکہ
قرۃ العین حیدر کا بچپن کا زمانہ پورٹ بلئیر میں گزرا اور ا ن کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم دہرادون، لاہور اور لکھنئو میں ہوئی ۔والد کے انتقال کے بعد بھائی کو دہلی میں ملازمت مل گئی اورسبھی لوگ دہلی آگئے۔
قرۃ العین حیدرکا داخلہ آئی پی کالج دہلی یونیورسٹی میں کرادیا گیا۔ بی اے کرنے کے بعد لکھنئو یونیوورسٹی سے ایم اے انگریزی میں کیا۔جدید انگریزی ادب کا کورس کیمبرج یونی ورسٹی سے کیا۔ اس کے بعد آرٹ کی تعلیم گورنمنٹ سکول آف آرٹ لکھنئو سے حاصل کی۔ صحافت کی تعلیم ریجنٹ اسٹریٹ پولی ٹیکنیک لندن سے حاصل کی۔ اس طرح نو عمری سے ہی ان میں گھومنے اور لمبی لمبی سیرو سیاحت کرنے کا شوق پروان چڑھنے لگا انہیں تصنیف وتخلیق کے ساتھ ساتھ مصّوری کا بے حد شوق تھا۔ مشہور ایل ایم سین سے انھوں نے جاپانیواش تکنیک بھی سیکھی لندن میں پنچ تنتر پر بنائی ہوئی ان کی الیسٹریشن کی نمائش بھی ہوئی۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنی کتابو ں کے سر ورق بھی خود تیار کئے۔اور بہت سی پینٹنگ بھی بنائیں لیکن یہ صرف شوق تھا جبکہ تصنیف ان کاجذبہ وجنو ن تھا۔
قرۃ العین حیدر کو عینی نام سے بھی پکارہ جاتا ہے۔یہ اپنے عہد کی سب سے بڑی قلم کار و تخلیق کار تھیں۔تخلیقی سفر چھ سال کی عمر میں شروع کیا تھا۔ ان کی کہانی پہلی بار بچوں کے رسالے ‘پھول ‘لاہور میں شائع ہوئی۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ ایک شام‘‘ جسے وہ طنزیہ اسکرپٹ کہتی تھیں فرضی نام ’’لالہ رخ‘‘کے نام سے شائع کرایا گیا۔ ان کے چچا مشتاق کا مشورہ تھا کہ اپنے نام سے چھپواؤگی تو کسی کو یقین نہیں ہوگا کہ یہ آپ نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا افسانہ ’’ یہ باتیں ‘‘ اور’’ ہمایوں‘‘ بنت سجاّد حیدر یلدرم کے نام سے شائع ہوا۔ تیسرا افسانہ ’’ ارادے‘‘ ادیب میںشائع ہوا اور اس پر انہیں انعام بھی ملا۔ جب قرۃ العین حیدرکے نام سے اشاعت ہوئی ان کے چچا زاہدی نے کہا ’’ اب تم افسانہ نگار بن گئیں ‘‘
قرۃ العین حیدرکا بچپن نہایت ہی دلکش اور آزادانہ ماحول میں گزرا۔ ان کا خاندان قدامت پرست ہونے کے ساتھ نئے عہد سے متاثر بھی تھا۔ قرۃ العین حیدرکو ابتدا سے ہی اپنے والدین کے ساتھ مختلف جگہوں پر رہنے اور گھومنے پھرنے کا موقع فراہم ہوا۔ ایک جگہ خود قرۃ العین حیدرلکھتی ہیں: ’’بھانت بھانت کی جگہوں پر رہنے بھانت بھانت کے لوگوں اور انسانوںسے ملے وہ جہاز کے سفر کی بس تیرتے ہوئے چلے جا رہے ہیں،بمبئی ،کلکتہ،قاہرہ ،ترکی ،مستقل ادھر سے اْدھر گھوم رہے ہیں ‘‘
قرۃ العین حیدر ایک خوش مزاج اور خوشحال گھرانے کی بیٹی تھیںاور ان کے والد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے رجسٹرار کے عہدے پر فائز تھے لیکن ان کی خوشحال زندگی کوزبردست دھکے لگے۔ ایک ان کے والد کی موت اور دوسرا تقسیم ہند کا المیہ۔ ان دونوں المیوں نے قرۃ العین حیدرکے ذہن،کردار اور قلم پر زبردست اثر ڈالا۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا اور قرۃ العین حیدرخود بھی اس ہجرت کے قافلے میں شریک ہوکر پاکستان چلی گئیں۔ جہاں وہ مہاجرین کے قافلوں میں شریک نظر آتی ہیں۔ان کے درد غم میں برابر کی شریک ہوکر حقیقت کی آ ئینہ سامانی فراہم کرتی ہیں۔قرۃ العین حیدر کے یہاں تقسیم ہند کا زبردست اثر نظر آتا ہے وہ تقسیم ہند کی شروع سے ہی مخالف تھیں۔ یہی سبب ہے ان کی تحریروں میں ذہنی اور جذباتی طور پر تقسیم ہندکے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان میں قیام کے دوران وہ محکمہ اطلاعات و نشریات بحیثیت اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کرتی رہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA)میں انفارمیشن افسر رہیں اور کچھ وقت کیلئے ’’ پاکستان کوارٹر‘‘ کی قائم مقام ایڈیٹر بھی رہیں۔ چند سیاسی وجوہ سے پاکستان کی سکونت کو خیرآباد کہہدیا۔ جواہر لال نہرو کے کہنے پر ہندوستان میں بمبئی کی سکونت اختیار کی۔ اس دوران فکشن نگار ادیبہ پر جو کچھ بیتی وہ ان کی تحریروں اور کہانیوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں مختلف ادبی انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ۔ ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز ’’گیان پیٹھ ایوارڈ‘‘ بھی دیاگیا جو ان سے پیشتر اردو میں صرف فراق گورکھپوری ہی کو عطا کیا گیا تھا۔
قرۃ العین حیدرنے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز تاریخ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی ادب پر پھیل گئیں۔ ان کی شاہکار تحریرو ںمیں’’میرے بھی صنم خانے،‘سفینہ غم دل، آگ کا دریا، آخر شب کے ہمسفر ،گردش رنگ و چمن، کار جہاں دراز ہے، چاندنی بیگم ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔’’جلا وطن ، آئینہ فروش شہر کوراں ، روشنی کی رفتارسینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات، فقیروں کی پہاڑی، آوارہ گرد، فوٹو گرافر‘‘ وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو ان کی تاریخ و ادب سے دلچسپی کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انھو ں نے مشرقی پاکستان (بنگال)کے امیر طبقے کے ہاتھوں غریب محنت کشوں کے استحصا ل کے خلاف ’’چائے کے باغ‘‘ جیسی درد ناک کہانی قارئین کے سامنے پیش کی اوراسی دور میں انھوں نے اگلے ’’جنم موہے بٹیا نہ کیجو ‘‘جیسی عہد وآفرین کہانی لکھ کر عورت ذات کی حالت و کیفیت ،زبوں حالی اور معاشرے کے ایک المیہ کو اس انداز میں تحریر کیا ہے کہ یہ تحریر ادب عالیہ کا لافانی کارنامہ بن گئی۔
قرۃ العین حیدر کی تخلیقات میں افسانے، ناول، ناولٹ، رپورتاڑ، تراجم اور کہانیاں شامل ہیں۔ ان کے چار افسانوی مجموعے ہیں۔پہلے افسانوی مجموعے’’ ستاروں سے آگے‘‘ میں چودہ ،دوسرے’’ شیشے کے گھر‘‘ میں بارہ ،تیسرے ’’پت جھڑ کی آواز‘‘میں آٹھ ا،چوتھے ’’ روشنی کی رفتار’’میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں۔اس کے علاوہ کئی ایسے افسانے ہیں جو کسی کلیات یا مجموعہ میں ابھی شامل نہیں کئے گئے۔قرۃالعین حیدر نے بچوں کے ادب سے متعلق بھی کام کیا جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ ان میں تراجم شامل ہیں۔اس کے علاوہ اپنی کتابوں کے اردو سے انگریزی میں ترجمے بھی کئے۔ان کے شاہکار افسانوں، ناولوں اور ناو لٹوں کا بنیادی موضوع وقت کا جبر، انسان کی بے چارگی ، تنہائی ازلی و ابدی جلاوطنی اور شدید احساس ناکامی ہے اس کے علاوہ عورت کا مقدر بھی ہے۔قرۃ العین حیدر ایسی آفاقی مصنفہ ہیں کہ جنہوں نے کسی بھی ازم میں مقید ہوکر نہیں لکھا۔ وہ حال کو ماضی کا آئینہ دکھاکرماضی کی بازیافت پر زور دیتی ہوئی نظر آتی ہیںتاکہ مستبقل کی صحیح پیشن گوئی کی جاسکے۔ انہیں تاریخ سے دلچسپی تھی یہی سبب ہے انہوں نے جوکچھ بھی اپنے علم سے صفحہ قرطاس پر تحریر کیا اس میں جنگ و جدل دو عالمی جنگوں ،نوآبادیات جاگیردار طبقہ کا عروج و زوال ، ہندو پاک کی تقسیم، مشرقی ہند کی تحریکات ،تاریخ و افسانہ روحانیت و مادیت کو اس طرح سموکر رکھا ہے کہ ان کی مثال ابھی تک کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
قرۃ العین حیدر ہمارے عہد نو کی وہ جدید فکشن نگار تھیں جن پر اردو ادب ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔ قرۃ العین حیدر اور ان جیسی تخلیقی صفات و کمالات رکھنے والی شخصیت کسی بھی زبان اور کسی بھی عہد میں صدیوں میں جنم لیتی ہے۔ قرۃ العین حیدرکی وفات80سال کی عمرمیں 21 اگست2007ء کوہوئی۔