پی ٹی آئی پی سرپرائزدے سکے گی ؟

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوامیں طاقت کی رسہ کشی جاری ہے۔ کبھی ایک کا پلڑا بھاری تو کبھی دوسرے کاپلڑا۔پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت طاقت کے دو مراکز تھے جن میں ایک مسلم لیگ (ن) اور دوسرا جمعیت علمائے اسلام (ف) ، ایک سال کے دوران ان اتحادی جماعتوں کے مابین نورا کشتی بھی خوب ہوئی اور اختیارات کے مزے بھی ڈٹ کر لئے گئے۔

طاقت کے ان مراکز کا بیوروکریسی نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔پسند اورناپسند کا ایک سلسلہ تھا جو چل نکلا ، افسرشاہی میں تبادلوں کی لائن لگ گئی ،کسی نے گورنر ہاؤس کا درتھاما تو کوئی اکرم درانی کے سامنے شکوہ کناں ہوا۔جس کی مراد برآئی اس کی گویا لاٹری نکل آئی ۔یہ معاملات ایسے ہی چلتے رہتے لیکن ایسے ہی وقت میں پرویزخٹک کی انٹری نے نشاط وانبساط کی یہ بساط الٹ دی ۔پہلے صوبائی کابینہ میں تبدیلی ہوئی ،نئے وزرا لئے گئے، کچھ پرانے چہرے بھی شامل کئے گئے ،عوام کو امید دلائی گئی کہ اب مسائل حل ہوں گے اور امن وامان کی صورتحال بہتر ہوگی، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔عوامی مسائل حل ہوئے یا نہیں البتہ نوکرشاہی کو پرویزخٹک اور محمود خان کا نیادر مل گیا۔حالیہ دنوں ان سرکاری افسروں کو دوبارہ تعینات کردیاگیا جو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں محمود خان کی آنکھوں کا تارا تھے ۔یوں لگ رہا ہے کہ صوبے میں پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کا مختصردورِحکومت اختتام پذیرہوا اور محمود خان کا دور دوبارہ شروع ہوگیا۔بیشترافسروں کو ان علاقوں میں تعینات کیاگیا ہے جو پہلے ہی ان کے من پسند تھے۔ اب ایک نئی سیاسی رسہ کشی شروع ہوگئی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے بعد پرویزخٹک گروپ صوبے میں اپنے قدم جمانے کیلئے اقدامات کررہاہے لیکن ان سیاسی جماعتوں کو شاید یہ احساس نہیں کہ عوام ان کی اس میوزیکل چیئر سے تنگ آچکے ہیں جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ۔مہنگائی تو اپنی جگہ لیکن جب کوئی چیز سستی ہوجائے ، اس کا فائدہ بھی شہریوں تک نہیں پہنچ پاتا۔چینی کی قیمت بڑھی تو منافع خوروں نے فوراً قیمتیں بڑھادیں لیکن جب قیمت کم ہوئی تو اس کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا۔پشاور کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں دال، چاول، چینی، آٹااور سبزیوں کا اپنا اپنا ریٹ ہے ۔ضلعی انتظامیہ کی جانب سے روز ریٹ لسٹ جاری تو کی جاتی ہے لیکن اس پر عملدرآمد کون کرائے؟ڈپٹی کمشنر آئے روز بدل دیاجاتا ہے،دیگرمحکموں کے افسروں کا بھی یہی حال ہے ،کوئی بھی دو یا تین ماہ سے زیادہ نہیں نکال پاتا۔ ایسے میں ان محکموں کی کارکردگی کو کون جانچے گا؟سرکاری افسر اپنی سیٹیں بچانے کے چکروں میں ہیں ،عوام کے مسائل کی طرف کسی کی توجہ نہیں ۔نگران صوبائی حکومت کی بات کی جائے تو شاید انہیں اس صورتحال کاادراک ہی نہیں یا پھر آنکھیں بند کرلی گئی ہیں۔ ضم شدہ اضلاع کے عوام کاتو بر حال ہے۔

نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان نے اپنی کابینہ کے ساتھ گزشتہ ہفتے کور ہیڈکوارٹر کا دورہ کیاجہاں انہیں سکیورٹی صورتحال اور ضم شدہ اضلاع میں جاری ترقیاتی منصوبوں اورپولیس کی استعداد کار بڑھانے کے بارے بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں شرکا کو بارڈر مینجمنٹ کنٹرول کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی آگاہ کیاگیا اور سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے بھی بات کی گئی ۔ سکیورٹی اداروں کی جانب سے نگران حکومت کوامن وامان کی موجودہ سنگین صورتحال کے بارے میں بتادیاگیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے سب سے پرامن علاقے چترال کے سرحدی علاقے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملے نے بھی معاملے کی سنگینی صوبائی حکومت پر ظاہرکردی ہے ۔اگرچہ سکیورٹی فورسز نے یہ حملہ ناکام بنادیا لیکن اس سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہمسایہ ملک کی سرزمین کس طرح سے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے استعمال کی جارہی ہے ۔پاکستان کاانتہائی سخت ردعمل بھی سامنے آیا جس کے بعد افغان حکومت کو پچھلے قدموں پر جاناپڑا۔ افغان عبوری حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے طورخم بارڈر بھی بند رہا جس کا نقصان پاکستان سے زیادہ افغانستان کو اٹھاناپڑا ۔سب سے زیادہ علاج کی غرض سے پاکستان آنے والے افغان متاثر ہوئے ۔یہ اس وقت صوبے کی امن وامان کی مجموعی صورتحال ہے جو یقینا غیر تسلی بخش ہے ، تاہم سکیورٹی ادارے بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ نگران حکومت کی ممکنہ مدد کی جائے ۔دوسری طرف سیاسی جماعتوں کا طرز عمل دیکھاجائے تو وہ انتہائی مایوس کن ہے، جوبیوروکریسی میں اپنے مہرے تبدیل کرکے طاقت حاصل کرنے کی کوششیں کررہی ہیں ۔اس وقت دوسیاسی جماعتوں نے جلسے جلوس بھی شروع کررکھے ہیں جن میں ایک نومولود سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین ہے اور دوسری اے این پی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت ایمل ولی کا ہدفِ تنقیدکوئی اور نہیں بلکہ اس کی سابق اتحادی جماعت جے یو آئی ہے۔ اے این پی باقاعدہ طورپر پی ڈی ایم میں تو شامل نہیں تھی لیکن پی ڈی ایم کو اس کی حمایت ضرور حاصل تھی، لیکن اب معاملہ الٹ ہوگیا ہے۔ ایمل ولی پی ٹی آئی سے زیادہ جے یو آئی پر تنقید کرتے نظرآرہے ہیں اور گورنر غلام علی کے ساتھ اے این پی کی مخاصمت کی وجہ سے دونوں جماعتوں کے مابین خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ان حالات میں پی ٹی آئی پی خاموشی سے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہے ۔پی ٹی آئی پی نے گزشتہ ہفتے ڈی آئی خان میں بھی جلسہ کیا،جو زیادہ متاثر کن نہیں رہا لیکن یہ نئی جماعت اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح ووٹرز کو اپنی طرف راغب کیاجائے ۔پرویزخٹک کا دعویٰ ہے کہ اگلے دو سے تین ماہ میں اس حوالے سے تبدیلی نظرآئے گی ۔امریکی قونصل جنرل کا پی ٹی آئی پی کے دفتر کا دورہ بھی پرویزخٹک کی ایک بڑی کامیابی گردانا جارہا ہے، جس سے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات بہتر ہیں۔ اگرچہ یہ ملاقاتیںمعمول کا حصہ ہوتی ہیں تاہم پی ٹی آئی پی اسے کیش کرنے کی ضرور کوشش کرے گی ۔مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے بھی اے این پی اور پی ٹی آئی پی کے بعد پشاور کا رخ کرلیا ہے جو یہاں مفتی محمود کانفرنس اور صوبائی ڈیجیٹل کانفرنس منعقد کرنے جارہی ہے جے یو آئی کی جانب سے فی الوقت کسی سیاسی جلسے کا اعلان نہیں کیاگیا۔ باجوڑاوربلوچستان میں حملوں کے بعد شایدجے یو آئی فی الفور ایسے جلسوں سے گریز ہی کرے لیکن مفتی محمود کانفرنس کے ذریعے اس کی کسر پوری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔اس کانفرنس کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں شروع کردی گئی ہیں ۔سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کا عندیہ دیاگیا ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

26ویں آئینی ترمیم کے بعد۔۔۔

بالآخر26ویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی‘ جس کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا۔ ترمیم منظور ہونے کے بعد ایک غیریقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایک نیا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے بڑے اور اہم اختیارات تقسیم کر دیے گئے ہیں۔ آئینی ترمیم کا عمل حیران کن طور پر خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا۔

آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج،بے وقت کی را گنی وکلا ءکا ردعمل کیا ہو گا؟

چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے عمل کے بعد ملک کے سیاسی محاذ پر ٹھہرائو کے امکانات روشن ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کو ملک میں ترقی، خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس عمل سے عوام کیلئے عدل و انصاف کے دروازے کھلیں گے اور ملک آگے کی طرف چلے گا۔

سیاست سے انتقام ختم کریں؟

ملک بھر کے میڈیا پر آج کل صرف ایک ہی خبر اہم ترین ہے اور وہ ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے مثبت اور منفی اثرات۔لیکن محلاتی سازشیں ہوں یا چاہے کچھ بھی ہورہا ہو، عوام کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ انہیں کیا مل رہا ہے۔

پولیس ایکٹ میں تبدیلی سیاسی مداخلت نہیں؟

پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ( ن) پر’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا الزام لگاتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی نے جس طرح یوٹرن لیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔بانی پی ٹی آئی کے نظریے کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت نے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی راہ ہموار کردی ہے۔ پولیس ایکٹ 2017ء میں خیبرپختونخوا پولیس کو غیر سیاسی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی تھی اور وزیراعلیٰ سے تبادلوں اورتعیناتیوں سمیت متعدد اختیارات لے کر آئی جی کو سونپ دیئے گئے تھے۔

26ویں آئینی ترمیم،ملا جلا ردعمل

26ویں آئینی ترمیم کو جہاں سیا سی عمائدین پاکستان کے عدالتی نظام میں احتساب اور کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں وہیں کچھ سیا سی جماعتیں اور وکلاتنظیمیں آئینی ترمیم کوعدالتی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر قدغن سمجھتی ہیں۔

وزیراعظم کا انتخاب،معاملہ ہائیکورٹ میں

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے چوہدری انوار الحق کے بطور وزیر اعظم انتخاب کے خلاف درخواست پر لار جر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رکن قانون ساز اسمبلی فاروق حیدر کے وکلا نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی۔