سب رسول خدا بن کے آئے:وہ حبیب خداﷺ بن کے آیا

تحریر : صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی


پیکرِ دل ربا بن کے آیا روحِ ارض وسماء بن کے آیاسب رسولِ خدا بن کے آئےوہ حبیبِؐ خدا بن کے آیااللہ رب العزت کی ذاتِ مقدس نے ارشاد فرمایا کہ’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا سوچا کہ جانا جائوں،پہچانا جائوں سو ہم نے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کیلئے اپنے’’نور‘‘سے اپنے محبوبﷺ کو تخلیق کیا اور جہانِ رنگ بو وآب و گل کی زینت اور تمام جہانوں کیلئے ’’رحمت ‘‘بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔

یہی وجہ ہے کہ جونہی ربیع الاوّل شریف کے ماہِ مبارک کا آغاز ہوتا ہے تو حضورِ اقدس ﷺ کو دل و جان سے چاہنے والے عاشقانِ رسولِ عربی ﷺخوشی سے جھوم اُٹھتے ہیںاور اِس پورے ماہِ مقدس کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے مناتے ہیں۔ اس لیے کہ آج کے دن ہی پروردگارِ عالم نے حضور سید ِعالمﷺ، سرورِکائنات، فخر موجودات، حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر امت مسلمہ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا۔اللہ تعالیٰ نے واضح ارشاد فرمایا کہ ’’اے حبیب ﷺ  آپ فرما دیں کہ جب تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت ہو تو،خوش ہوا کرو،تمہارا خوشیاں منانا اس سے بہتر ہے ،جو تم اپنے لیے جمع کیے رکھتے ہو‘‘۔ایک اور جگہ ربِ کائنات نے ارشاد فرمایا ’’پس! یاد کرو تم اللہ کی نعمتیں،تاکہ تم فلاح پائو‘‘۔کیا آپﷺ سے بڑھ کر بھی کوئی ’’نعمت‘‘ کوئی ’’فضل‘‘ اور کوئی ’’احسان‘‘ ہو سکتا ہے؟، یقینانہیں ۔ آپﷺ کی آمد کی خوشیاں مناناتو ہر جن وبشر ہی اپنے لیے باعثِ اعزاز اور سرمایہ حیات سمجھتا ہے۔اگر کوئی بدقسمتی سے خوشیاں نہیں مناتا اور اس دن سے بغض رکھتا ہے تو وہ فقط شیطان ہی ہے کہ وہ رب رحمن کی طرف سے عطا کردہ’’نعمت عظمیٰ‘‘پہ خوشیاں نہیں مناتا۔اور ربِ کریم کے فضل،رحمت اور نعمت کا کھل کر بیان اور اعلان نہیں کرتا۔جب ہم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرتے ہیں یا اس کا اعلان اور بیان کررہے ہوتے ہیں ۔توگویا ہم اپنے پروردگارِ عالم کا شکر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب’’تفسیر مظہری‘‘جلد4 صفحہ330 پر لکھتے ہیں کہ ’’یعنی نعمت کو یاد کرو،نعمت کی یاد موجب شکر ہوگی اور شکرموجب فلاح‘‘۔

کون نہیں جانتا کہ حضور پر نور ﷺ کی حیاتِ پاک کا ایک ایک لمحہ نہ صرف امت مسلمہ کیلئے بلکہ پوری انسانیت کیلئے ’’مینارہ نور‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے،گویارحمتِ عالم ﷺ کی اس دنیا میں آمد ایک بہت بڑا انقلاب تھا، ایسا انقلاب کہ جس کے انتظار میں یہ سسکتی بِلکتی انسانیت صدیاں تڑپتی اور ترستی رہی کہ کوئی عظیم راہنما،کوئی عظیم ہستی،کوئی عظیم مسیحااس دنیا میں تشریف لائے اور ہماری تاریک اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زندگیوں کو روشنی بحش دے، بے راہ روی سے ہٹا کر ’’صراطِ مستقیم‘‘ پہ چلادے،اللہ رب العزت کا پتا دے،دلوں پہ لگے زنگ کو اتار دے اور گرد آلود روح کو نکھار دے۔ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آخر کار ربِ کائنات کو’’انسانیت‘‘ پر ترس آیااورذات باری تعالیٰ نے12ربیع الاول کی صبح سعادت کو وہ’’نور‘‘ عطا فرمایاکہ جس کی تابندہ کرنوں سے پوری کائنات جگمگا اُٹھی۔جس کی خوشبو سے سارا عالم معطر ہوگیا،محبتوں کے بے مثل پھول کھل اُٹھے، خلوص وپیار کے چراغ روشن ہوگئے،چاند،سورج اور ستاروں کو ضوفشائی نصیب ہوئی، دریائوںاور سمندروں کو روانی ملی،خوشبوئوں کو پاکیزہ احساس ملا،تہذیب وتمدن پہ روپ آیا‘‘۔حضور سیدِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا مقام و  مرتبہ سب سے جداگانہ اور منفرد ہے۔ یقیناً آپﷺ کی ذاتِ گرامی صورت میں اجمل اور سیرت میںاکمل ہے۔حضور اقدسﷺکی سیرتِ طیبہ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے، پروردگارِ عالم کی پاک ذات نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا  ’’تمہارے لیے نبی کریم ﷺ کی زندگی مبارک میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ دوسری طرف دیکھیں کہ شیطان صفت انسان اور احسان فراموش لوگ یزیدی قوتوں کے ہاتھوںبکتے ہوئے توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ کسی بھی نبی اور رسول کی ذرا سی بھی گستاخی، سراسر بربادی اور جہنم کا ایندھن بننے کا باعث ہے۔ پھر وہ نبیﷺ کہ جس کی امت میں شامل ہونا حضرت عیسیٰ ایسے جلیل القدر نبی بھی متمنی تھے۔ پھر وہ نبیﷺ جورسولوں کے تاجدار،نبیوں کے امام ،بے قرار دلوں کے چین، امت کے غم خوار،جان جہان، شافعی محشراور سب سے بڑھ کر یہ کہ جوحبیب خدا ٹھہرے۔ اُس حبیب ﷺ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی رب کریم بھلا کیسے برداشت کرسکتا ہے۔

لب پہ نعت پاک کا نغمہ 

کل بھی تھا اور آج بھی ہے

میرے نبیؐ سے میرا رشتہ 

کل بھی تھا اور آج بھی  ہے

پست وہ کیسے ہو سکتا ہے 

حق  نے جس کو  بلند  کیا

دونوں جہاں میں اُن (ﷺ) کا چرچا

کل بھی تھا اور آج بھی ہے

بتلادو گستاخِ نبی(ﷺ) کو،

غیرتِ مسلم زندہ ہے 

دین پہ مر مٹنے کا جذبہ 

کل بھی تھا اور آج بھی ہے

یہ گستاخ ِ رسول اور گستاخ کی حمایت میں بولنے والے عقل کے اندھے لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمانِ مقدس پر کان کیوں نہیں دھرتے؟کہ ’’اور جو لوگ اللہ کے رسول ﷺکو دکھ دیتے ہیں اُن کیلئے درد ناک عذاب ہے‘‘ (سورۃ توبہ)۔اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اُس کے پیغمبرﷺ کو رنج پہنچاتے ہیں اُن پر اللہ دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور اُن کیلئے اس (اللہ) نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘اللہ کریم کو تو آپ ﷺ کی آواز مبارک سے زیادہ اونچا بولنا بھی گوارا نہیں۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اے اہلِ ایمان!اپنی آوازیں پیغمبر (حضرت محمد ﷺ)کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو اس طرح اُن(ﷺ) کے روبروزور سے نہ بولا کرو کہ تمہارے اعمال ضائع کر دیئے جائیں اور تمہیں اس بات کی خبر بھی نہ ہو۔‘‘صاحبو!یاد رکھیں!تاریخ اسلام پہ اگر نظر دوڑائیں تویہ گستاخانِ رسولﷺ اپنے برے انجام کو پہنچتے آئے ہیں اور انشاء اللہ موجودہ دور میں بھی شانِ رسولِ عربی کی گستاخی کے مرتکب اور ان کے حامی افراد ضرور اپنے برے انجام کو پہنچیں گے اور نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی سزاپائیں گے۔کیوں یہ کہ اللہ کا وعدہ ہے۔فکرِ اقبالؒ کے حامی حضرت غازی علم دین شہید اور عامر چیمہ شہیدؒاور غازی ممتاز قادری شہیدؒ ایسے فرزندانِ اسلام ابھی اس قوم میں موجود ہیںاور تا قیامت رہیں گے۔

شان حبیب کبریاﷺ تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہے،رسول عربیﷺ کی ذات صفات والا تو ا س دنیا کیلئے رحمت ہیں۔اور جب یہ دنیائے فانی ختم ہو جائے گی اور روزِ قیامت ہوگا اُس روز بھی انہی کی ذاتِ کریمﷺ ہم گنہگاروںکیلئے رحمت کا آسرا ہوگی اور ہماری بخشش کیلئے ربِ قدوس کے ہاں سفارش فرمائیں گے۔بے شک!ربِ کریم اپنے حبیبﷺ کے صدقے سے اپنے گنہگار بندوں(سوائے گستاخِ رسول(ﷺ) )کو بخشنے والی ذاتِ پاک ہے۔ہر وہ عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سچی محبت حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہوہمیں کثرت سے کرنے چاہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہی زندگی کا اصل ہے  آج کا مبارک دن آپ ﷺ کودل وجان سے چاہنے والوں سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام تر خرافات سے بچتے ہوئے اتباع سنت اختیار کی جائے کہ یہی آپﷺ سے سچی محبت کا عملی ثبوت ہے۔ دعا ہے کہ ربِ کریم کی ذات پاک ہم سب کو عمل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔آمین

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔

جناحؒ کے ماہ وصال

٭ 25دسمبر 1876ء کو کراچی میں پیداہوئے۔٭ 04جولائی 1887ء کو سندھ مدرستہ السلام میں داخلہ ہوا۔ ٭ 1892ء کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔٭ 1897ء کو بطور وکیل بمبئی ہائیکورٹ سے منسلک ہوئے۔

خود اعتمادی، خواتین کی معاشرتی ضرورت

خود اعتمادی ہر شخص کی شخصیت، کامیابی اور ذہنی سکون کا بنیادی جزو ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے فیصلوں، خیالات اور احساسات پر یقین کرنے کی ہمت دیتی ہے۔

شال، دوپٹہ اور کوٹ پہننے کے سٹائل

سردیوں کا موسم خواتین کے فیشن میں تنوع اور نفاست لے کر آتا ہے۔ اس موسم میں شال، دوپٹہ اور کوٹ نہ صرف جسم کو گرم رکھتے ہیں بلکہ شخصیت، وقار اور انداز کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ درست سٹائل کا انتخاب خواتین کے لباس کو عام سے خاص بنا سکتا ہے۔

آج کا پکوان:فِش کباب

اجزا : فش فِلے : 500 گرام،پیاز :1 درمیانہ (باریک کٹا ہوا)،ہری مرچ : 2 عدد (باریک کٹی)،ہرا دھنیا : 2 چمچ،ادرک لہسن پیسٹ :1 چمچ،نمک : 1 چمچ،لال مرچ پاؤڈر : 1چمچ،کالی مرچ : آدھا چائے کا چمچ،زیرہ پاؤڈر : 1 چائے کا چمچ،دھنیا