یادرفتگاں: رضیہ بٹ:اردوادب کی یکتا ناول نگار

تحریر : ارسہ مبین


اردو ادب اور خاص طور پر ناول نگاری میں جن مصنفین کا نام سر فہرست ہے ان میں رضیہ بٹ اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی تھیں۔رضیہ بٹ اردو کی مشہور و معروف ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ انہیں پاکستان میں ناول نگاری کی دنیا میں ممتاز ترین مقام حاصل ہے۔ رومانٹک کہانیوں، فیملی ڈرامہ میں خواتین کو مرکزی کرداروں میں پیش کرنے میں رضیہ بٹ کو کمال حاصل تھا۔

رضیہ بٹ کی ابتدائی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوگا کہ ان کا تعلق کشمیر کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ 1924ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام رضیہ نیاز بٹ تھا۔ ان کا زیادہ تر بچپن پشاور میں گزارا۔ چوں کہ انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا، تو مطالعے کا شوق بھی رہا جس نے انھیں بھی لکھنے لکھانے پر اکسایا۔ گھر کے ماحول اور مطالعے کے شوق نے انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو اْجاگر کرنے کا موقع دیا اور اسکول کے زمانے میں ہی انھوں نے اردو کے مضمون میں اپنے معیاری مضامین اور تحریروں کی وجہ سے اساتذہ کی توجہ حاصل کرلی۔اساتذہ کی تعریفوں کے ساتھ ان کے والد کو بھی احساس ہوا کہ ان کی بیٹی زرخیز اور تخلیقی ذہن کی حامل ہے اور انھوں نے رضیہ بٹ کی بہت حوصلہ افزائی اور راہنمائی کی۔پہلی کہانی انہوں نے 16سال کی عمر میں لکھی جو ایک ادبی جریدے میں شائع ہوئی۔  یوں ان کا ادبی سفر شروع ہو گیا۔

1946ء میں رضیہ بٹ کا پہلا ناول ’’نائلہ‘‘ شائع ہوا۔ اسی سال  عبدالعلی بٹ کے ساتھ ان کی شادی بھی ہوگئی۔شادی کے بعد انہوں نے لکھنے سے چند سالوں کا بریک لیا اور 1950ء میں لکھنے کا کام دوبارہ شروع کیااور پھر یہ سلسلہ بینائی متاثر ہونے کے باوجود ان کی موت تک جاری رہا۔ انہوں نے 50سے زائد ناول اور 350 افسانے اور ریڈیو ڈرامے بھی لکھے۔ 

رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار اور اس کے فرائض و ذمہ داریوں کو خاص اہمیت دی اور ان سے متعلق موضوعات اور ایسے مسائل کو اجاگر کیا جن پر افادی مباحث اور تبصرے سامنے آئے۔   ان کا ناول’’ بچھڑے لمحے‘‘ ان کی حقیقی زندگی سے نزدیک ترین محسوس ہوتا ہے۔ ان کے ناولوں کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ان میں زندگی کی تلخ حقیقت کے عنصر کو یوں نمایاں کرتی تھیں کہ ایک طرف معاشرتی ناہمواریوں اور اداس لمحوں کا تاثر قائم رہتا تو دوسری جانب چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثرانگیزی بھی برقرار رہتی تھی۔انھیں خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار کا درجہ حاصل ہے۔

 اردو فکشن رائٹنگ میںبہت سے مشہور ناموں میں سے ایک معاصر ہونے کے نا طے آپ نے اپنی کہانیوں کو ایک مخصوص انداز میں پیش کر کے اپنا نام خود بنایا۔ رضیہ بٹ کی کہانیوں میں حقیقت کی تلخ سچائیوں کا عنصرایک مثبت انداز میںموجود ہوتا ہے، جس میں معاشرتی ناہمواریوں اور اداس لمحوں کا تاثر نمایاں ہوا کرتا تھا۔ زندگی کے چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثر انگیزی کے سبب رضیہ بٹ کے ناول مقبول تھے۔

رضیہ بٹ کے مقبول ترین ناول میں ’’بانو، نائلہ، بینا، چاہت، فاصلے، میں کون ہوں، ناجیہ، نورین، ریطہ، روپ، سبین، صائقہ، زندگی، اماں، مہرو ، آئینہ، چاہتیں کیسی، ریشم، ریطہ، زندگی، سارا، وحشی، عاشی، مسرتوں کا شہر، وحشی، معاملے دل کے‘‘ اور افسانوی مجموعوں میں ’’ آدھی کہانی، ذراسی کوتاہی، رانگ نمبر، آئیڈیل، دکھ سکھ اپنے‘‘ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ان ایک سفر نامہ ’’امریکی یاترا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ’’بچھڑے لمحے‘‘ رضیہ بٹ کی آپ بیتی ہے، یہ بھی ان کے ناولوں کی طرح بے حد مقبول ہوئی۔

 ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان کی فلمی تاریخ کے انتہائی عروج کے دور میں ان کے چند ناولوں پر فلمیں بھی بنائی گئیں جن سے انہیں لازوال شہرت حاصل ہوئی تھی۔ ان کے ناولوں سے ماخوذ کہانیوں پر مشتمل فلموں میں ’’نائیلہ‘‘، ’’انیلہ‘‘، ’’لغزش‘‘، ’’پیاسا‘‘، ’’محبت ہو تو ایسی ہو‘‘ اور صاعقہ جیسی سپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔  ان کی لکھی گئی چند کہانیوں کو ڈرامائی شکل میں بھی پیش کیا گیا، ان میں اماں، نورین، صائقہ شامل ہیں۔

 اردو ادب اور ناول نگاری کو ایک خاص رنگ دینے والی ناول نگار رضیہ بٹ نے تحریک پاکستان میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے تقسیمِ ہند کے چشم دید واقعات کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کیا ہے۔ ان کے قیام پاکستان کے پس منظر پر لکھے گئے مقبول ترین ناول ’’بانو‘‘ کو ٹی وی پر ’’داستان‘‘ کے نام سے قسط وار پیش کیا گیا۔’’بانو‘‘ وہ ناول تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد شایع ہوا اور اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ اس ناول کی ڈرامائی تشکیل کے بعد اسے ٹیلی ویڑن پر بھی پیش کیا گیا۔

اردو کی یہ مشہور ناول نگار اور کہانی نویس طویل علالت کے بعد 89برس کی عمر میں 4اکتوبر 2012ء کو خالق حقیقی سے جاملیں۔کچھ لوگ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اپنے نقوش ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک عہد بن کر، ایک خوبصورت ماضی بن کر اور ماضی بھی ایسا جو کہ تحریروں کی صورت مستقبل کے لیے راہیں ہموار کردے۔ رضیہ بٹ اردو ادب کا ایک ایسا ہی نام ہیں، جن کے ناول آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ دل و دماغ پر تاثر چھوڑنے والی تحریروں کا جب بھی ذکر ہو گا،رضیہ بٹ کا نام ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

5ویں برسی:شمس ُ الرحمن فاروقی ، ایک عہد اور روایت کا نام

جدید میلانات کی ترویج و ترقی میں انہوں نے معرکتہ الآرا رول ادا کیا

مرزا ادیب ،عام آدمی کا ڈرامہ نگار

میرزا ادیب کی تخلیقی نثر میں ڈراما نگاری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے بصری تمثیلوں کے ساتھ ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو ڈرامے کی روایت میں ان کے یک بابی ڈرامے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔